نیورو اناٹومی کی نظر سے
دور دراز کی کہکشائیں ہوں یا سمندر کی تہیں، ان سب پر تحقیق کے اپنے طریقے ہیں لیکن ایک اور چیز جو ان سے بڑا چیلنج ہے، وہ ہمارے کانوں کے بیچ میں ہے۔ ہمارے دماغ کو جاننے کے لئے اسے کئی طریقوں سے پڑھا جاتا ہے جیسے کہ اس کی آؤٹ پٹ دیکھ کر یا اس کا فنکشن دیکھ کر اور اس میں فنکشنل ایم آر آئی کی ٹیکنالوجی نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے لیکن ایک نظر اس پر کہ یہ خود بنا کیسے ہے۔ اس طرح دماغ کو جاننا نیورو اناٹومی کی فیلڈ ہے۔
دماغ میں اربوں نیورونز ہیں۔ یہ نیورون سینکڑوں قسم کے ہیں۔ ہر ایک نیورون کی اپنی پیچیدگی کسی لیپ ٹاپ جتنی ہے اور ہر نیورون ہزاروں کنکشن بنائے ہے۔ یہ جوڑ سائنیپس کہلاتے ہیں اور ان کی تعداد اتنی ہے کہ اگر ہر سیکنڈ میں ایک سائنیپس گنا جائے تو گنتی کرتے ہوئے ساڑھے تین کروڑ سال کا عرصہ چاہئے۔ یہ برقی سگنل سے پیغام رسانی کرتے ہیں۔
ان نیورونز سے بننے والے نیورل نیٹ ورک سے تعارف بہت لوگوں کا ہو گا لیکن یہ ہمارے دماغ کا آدھے سے کم حصہ ہے۔ ایک تعارف باقی دماغ سے، جو گلئیل سیلز سے بنا ہے اور اس گلئیل نیٹ ورک سے واقفیت عام طور پر کچھ کم ہے۔ اس نیٹ ورک کا آپس میں رابطہ کرنے کا طریقہ برقی نہیں، کیمیائی ہے۔
جتنی اہمیت نیورونز کی ہے، اتنی ہی دماغ کے نیوروگلیا کی بھی۔ یہ نیورونز سے زیادہ پیچیدہ ہیں اور خود کئی قسم کے ہیں۔ ابھی ان میں سے کچھ اقسام کا تعارف۔
آسٹروسائیٹ۔ ہر خلیہ ہزاروں بازو رکھتا ہے اور سب سے زیادہ خلئے اس قسم کے ہیں۔ اس میں بننے والی کیلشئم کی لہریں ہماری تخلیقی صلاحیت کا ماخذ سمجھی جاتی ہیں۔ آئن سٹائن کے دماغ کا جب تجزیہ کیا گیا تو یہی خلئے تھے جو اس دماغ میں زیادہ تھے۔ اس سائز اور پیچیدگی کے یہ خلئے صرف انسان کے دماغ سے ہی خاص ہیں۔ دماغ کے کونسے حصے کو خون پہنچانا ہے، یہ کنٹرول بھی انہی کے پاس ہے۔ ہمارا دماغ بہت توانائی لیتا ہے، اسلئے ہر وقت ہر نیورون ایکٹو نہیں ہوتا۔ یہ اس کو کنٹرول کرتے ہیں کہ جس نیورون کی جس وقت ضرورت ہو، وہ اسی وقت آن ہو۔ جب آپ پوسٹ پڑھ رہے ہیں تو دماغ کے فرق حصے ایکٹو ہیں اور اگر بور ہو کر ویڈیو گیم کھیلنا شروع کر دیں گے تو فرق حصے ایکٹو ہو جائیں گے۔ یہ اس سوئچ کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔
مائیکروگلیا۔ سب سے چھوٹے خلئے دماغ کے لئے دفاعی نظام کا کام کرتے ہیں اور جس طرح مٹی میں کیچوے پھرتے ہیں یا دفاعی نظام میں مائیکروفیج، یہ دماغ میں پھر کر اسے مرمت کرتے رہتے ہیں اور مردہ خلیوں کا صفایا بھی کرتے ہیں۔ یہ نیورونز کے کنکشن بھی توڑ کر دماغ کی حالتیں بدلتے رہتے ہیں۔ اس وقت بھی یہ آپ کے دماغ میں پھر رہے ہیں اور جہاں یہ جوڑ کمزور نظر آ رہے ہیں، ان کو کاٹ رہے ہیں۔
اولیگوڈینڈروسائیٹ۔ آکٹوپس کی طرح کے یہ خلیے اپنی مونچھوں کے ذریعے ایکزون سے لپٹے ہوتے ہیں۔ یہ نیورونز کو برقی انسولیشن بھی دیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے سگنل کی رفتار پچاس گنا تیز ہو جاتی ہے۔ ریڑھ کی ہڈی والے تمام جانداروں میں یہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریڑھ کی ہڈی والے جانداروں کا دماغ ایک جگہ پر مرتکز اور بڑا ہونا ممکن ہے۔ کیچوے میں یہ نہیں تو اس کے نیورونز اس جگہ پر ہیں جہاں ان کی ضرورت ہے اور ہر جگہ پر پھیلا ہوا ہے۔ ریڑھ کی ہڈی والے جانداروں کی دماغی صلاحیت باقی جانداروں سے بہتر ہونے کی وجہ یہی خلیے ہیں۔
اس کے علاوہ اہم گلئیل سیلز میں شوان سیلز ہیں جو ضمنی اعصابی نظام میں ہیں اور این جی 2۔ ان کی دریافت 2012 میں پہلی بار ہوئی اور یہ حالت بدل کر نیورون بھی بن جاتے ہیں۔
مرگی، پارکنسن، اے ایل ایس (وہ بیماری جو سٹیفن ہاکنگ کو تھی)، شٹزوفرینیا، ڈیپریشن، ڈیمینشیا جیسی بیماریاں جو پہلے نیورونز کی سمجھی جاتی تھیں، ان میں بڑا کردار ان گلیل خلیوں کا ہے۔
اگر آپ پوری پوسٹ پڑھ کر یہاں تک پہنچ چکے ہیں تو آپ کے دماغ میں کئی تبدیلیاں آ چکیں، کئی سرکٹ بدل چکے اور دماغ پچھلی حالت میں نہیں رہا۔ دماغ کی یہ مسلسل بدلتی حالتیں اس کی بہت بڑی طاقت ہے اور ہم اس کو اپنی سوچوں، عادتوں اور عملی کاموں سے مسلسل ری ڈیزائن کر رہے ہیں۔ یہ مسلسل نیا بنتا ڈیزائن کیسا ہے، یہ اب آپ کا اختیار۔
اس پوسٹ کی زیادہ تر معلومات لی گئی ہے، اس کتاب سے
The Other Brain by R. Douglas Fields
نیورو اناٹومی میں ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں اور آگے کے کیا چیلنجز ہیں، اس پر ورلڈ سائنس فیسٹیول کا یہ پروگرام۔
https://youtu.be/iMYJn2-1u2Q
نیوروگلیا پر عام فہم آرٹیکل
https://blogs.scientificamerican.com/…/know-your-neurons-m…/
وکی پیڈیا سے اس پر یہاں سے
https://en.wikipedia.org/wiki/Neuroglia
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔