(Last Updated On: )
٭۔۔۔تعارف
بستی کلانچ والاریاست بہاول پور میں 24مئی 1915ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عطا محمد تھا لیکن ادبی دنیا میں دلشاد کلانچوی کے نام سے مشہور ہوئے۔ دلشاد کلانچوی کے گھر کا ماحول دینی و مذہبی تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ سات سال کی عمر میں انہیں بستی سندیں میں واقع پرائمری سکول میں داخل کر دیا گیا۔ ابھی 6 سال کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ ا ن کی والدہ باہمت خاتون تھیں۔ جنہوں نے دونوں بیٹوں کو ماں کی محبت کے ساتھ باپ کی شفقت بھی دی۔ پرائمری تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد دلشاد کچھ عرصے تک گھر پر ہی رہے۔ والدہ نے ان کے تعلیمی ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے 1929ء میں انہیں اپنے کزن مولوی عبد القادر صدیقی کے پاس بہاول پور بھیج دیا۔ جنہوں نے دلشاد کو صادق ڈین ہائی سکول بہاول پور میں داخل کرادیا۔ یہاں انہوں نے پہلے سال انگلش جونیئر کی تعلیم حاصل کی اور 1930ء میں درجہ ثانوی میں آگئے۔ بڑے بھائی انہیں اخراجات کے لیے رقم روانہ کرتے تھے لیکن صادق سکول میں داخل ہونے کے ڈیڑھ سال بعد ان کے بڑے بھائی کا انتقال ہوگیا اور گھر سے رقم آنے کا سلسلہ ایک دم منقطع ہو گیا ۔ان حالات سے مجبور ہو کر دلشاد نے سرکار ی یتیم خانہ میں داخلہ کے لیے درخواست دی اور انہیں شیخ غوث محمد ڈپٹی انسپکٹر آف سکولز کی سفارش پر کلاس ہفتم کے دوران میں ڈیڑھ سال کے لیے (آٹھویں جماعت پاس کرنے تک) سرکاری یتیم خانہ (دار الاطفال) میں داخل کر لیا گیا۔ یتیم خانے کے قواعد کے مطابق ایک طالب علم خاص مدت تک زیرِ تعلیم رَہ سکتا تھا اور دسویں جماعت تک وظیفہ پاسکتا تھا۔ دلشاد ذہین بھی تھے اور محنتی بھی، انہوں نے دل لگا کر تعلیم حاصل کی اور 1933ء میں آٹھویں کے امتحان میں ریاست بہاول پور میں اول آئے جس کے سبب یتیم خانہ کے سپرنٹنڈنٹ نے انہیں خصوصی اجازت نامہ کے ذریعے بی اے تک یتیم خانہ کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دلا دی۔ 1935ء میں انہوں نے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ میٹر ک کے بعد اسی سال وہ گورنمنٹ ایس ای کالج بہاول پور میں داخل ہوگئے۔ جہاں سے 1939ء میں انہوں نے بی اے کا امتحان اعلیٰ نمبروں میں پاس کیا۔ بی اے پاس کرنے کے بعد 1941ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے ایم اے (معاشیات) کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں 54-1953ء میں ایم اے اُردو کی ڈگری بطور پرائیویٹ امیدوار حاصل کی۔
دلشاد کلانچوی ایم اے (معاشیات) کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد لاہور سے واپس بہاول پور آئے اور 1942ء میں ان کی شاد ی ان کے اُستاد مولوی عبد القادر صدیقی کی بیٹی سے ہوگئی۔ شاد ی کے بعد ملازمت کی تلاش شروع کر دی اور آخر کار 27 مئی 1942ء میں ریاست بہاول پور کے محکمہ تعلیم میں بطور کلرک ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہاں وہ تقریباً ایک سال تک کام کرتے رہے۔
یکم جون 1943ء میں ایس ای کالج بہاول پور میں ایک لیکچرار کی نئی آسامی پیدا کی گئی اور انہیں بطور لیکچرار مقرر کر دیا گیا۔ ریاست بہاول پور کے پاکستان میں ضم ہونے کے بعد 14 اکتوبر 1955ء میں انہیں ترقی دے کر پروفیسر بنا دیا گیا۔ 30 ستمبر 1963ء میں گورنمنٹ انٹر کالج مظفرگڑھ کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ بعد ازاں 19 اکتوبر 1965ء میں گورنمنٹ ڈگری کالج بہاول نگر کے پرنسپل کا چارج سنبھالا۔ 19 مارچ 1970ء کو گورنمنٹ ایس ای کالج بہاول پور کے پرنسپل بنا دیئے گئے جہاں سے 3 مارچ 1971ء کو ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد 6 جنوری 1972ء کو امیر آف بہاو ل پور نواب عباس خان عباسی نے انہیں صادق عباسی پرائیویٹ کالج ڈیرہ نواب صاحب کا پرنسپل مقرر کر دیا جہاں وہ 4 مارچ 1974ء تک خدمات سر انجام دیتے رہے۔ 1989ء میں اسلامیہ یو نیورسٹی بہاول پور میں سرائیکی شعبے کاآغاز ہوا تو دلشاد کلانچوی اکتوبر 1989ء سے جزوقتی پروفیسر کی حیثیت سے منسلک ہوگئے اور تادمِ مرگ وہاں پڑھاتے رہے۔
دلشاد کلانچو ی کی ادبی زندگی کا آغاز طالب علمی کے زمانے میں ہو گیا تھا۔ وہ ابھی چھٹی یا ساتویں جماعت میں زیرِ تعلیم تھے کہ بچوں کے رسالوں کے لیے لکھنے لگ گئے۔ میٹرک پاس کرنے تک ان کی متعدد کاوشیں چھپ چکی تھیں۔ ایسای کالج بہاول پور میں داخل ہوئے تو کالج میگزین کے لیے لکھتے رہے۔ اسی زمانے میں انہوں نے نظمیں بھی لکھیں۔ ان کی ایک نظم معریٰ انتظار ٗ اسی زمانہ طالب علمی کی یادگار ہے۔
دلشاد کلانچوی بنیاد ی طور پر معلم تھے۔ انہوں نے ساری زندگی درس و تدریس میں گزار دی۔ اسی زمانے میں انہوں نے طلبہ کی درسی ضروریات کے لیے چھ کتب لکھیں جن میں اصلاحاتِ معاشیات، رہبرِ معاشیات، پاک و ہند، نظریات معاشیات وغیرہ نمایاں ہیں۔
دلشاد کلانچوی کا پہلا سرائیکی افسانہ روہی دا خواب ماہنامہ سرائیکی بہاول پو میں شائع ہوا۔ انہوںنے چھوٹی بڑی 69کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔ جن میں 10 اُردو زبان میں، 3 انگریزی زبان میں اور 56 سرائیکی زبان میں ہیں۔ انہیں سرائیکی زبان سے بہت زیادہ محبت تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے خود کو سرائیکی زبان کے لیے وقف کر دیا۔ 23 مارچ 1971ء کو انہوں نے سرائیکی لائبریری بہاول پور قائم کی۔ جہاں سے سرائیکی زبان و ادب پر کام کرنے والے محققین نے بہت فیض حاصل کیا۔ انہوں نے سرائیکی زبان و ادب کی ترقی اور ترویج و اشاعت کے لیے جنوری 1986ء میں چار صفحات پر مشتمل ایک ماہنامہ خبرنامہ سرائیکی زبان میں اجرا ء کیا جو 1989ء تک مستقل شائع ہوتا رہا۔ ان کی سرائیکی زبان سے پیار و محبت کے بارے میں ان کی بیٹی نامور افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس مسرت لانچوی صاحبہ کہتی ہیں: ’’سرائیکی اُن کا اوڑھنا بچھونا، اُن کی زندگی کا اہم مقصد او ر عزیز ترین شئے رہی ۔ انہوں نے خود کو ا س کے لیے وقف کر دیاتھا۔ وہ ایک دن اُداس بیٹھے تھے کہ چچا نظام دین آئے، پوچھا بھائی صاحب آپ نے سب بچوں کو پڑھا لکھا کر برسرِ روزگار کردیا ہے۔ ان کی شادیاں بھی کر دی ہیں۔ سب بچے خوش و خرم اور شاد و آباد ہیں۔ پھر بھی آپ پریشان ہیں، آخر کیوں؟ والد صاحب نے جواب دیا مجھے سرائیکی کی فکر کھائے جارہی ہے۔ میں اپنے بچوں کے فرض سے تو سبکدوش ہوگیا ہوں لیکن سرائیکی کا فرض ابھی ادا کرنا ہے ‘‘۔
تصانیف:
٭۔۔۔(سرائیکی )
سوکھے ترجمہ آلا قرآن مجید (قرآن مجید کا سرائیکی ترجمہ)
چنگا بال اقبال (اقبالیات)
کون فرید فقیر (اقبالیات)
ساڈٖا بخت اقبال (اقبالیات)
سارے سگن سُہاگڑے (ناول)
کلام کلانچوی (شاعری)
غاب دیاں غزلاں (غالب کی غزلیات کا سرائیکی ترجمہ)
توبہ زاری (ڈپٹی نذیر احمد کے ناول توبتہ النصوح کا سرائیکی ترجمہ)
سرائیکی گُل پُھل (مضامین)
ضلع بہاول پور (تاریخ)
کون فرید فقیر (فرید شناسی)
فریدیات (کلامِ فرید کا تنقیدی مطالعہ)
سرائیکی زبان تے ادب (تنقید)
سرائیکی باغ و بہار (تنقید)
فرید کافیاں (منتخب کلامِ فرید کا ترجمہ و تشریح)
فریدی ڈوہڑے (فریدشناسی)
چار سرائیکی صوفی شاعر (تنقید)
قدیم سرائیکی شاعر تے ادیب (تنقید)
بہاول پور دی تاریخ تے ثقافت (تاریخ و ثقافت)
چنگیر (بچوں کے لیے نظمیں)
لغاتِ دلشادیہ۔ اول (لسانیات)
لغاتِ دلشادیہ۔ دوم (لسانیات)
سرائیکی لسانیات (لسانیات)
سرائیکی شاعر ی دے اوزان تے قوافی (فنِ شعر و شاعری)
سرائیکی ادب دی چنگیر (تنقید)
قرآن مجید آپڑیں متلعق کیا آہدے؟ (اسلام)
انار کلی تے اقتدار دی ہوس (امتیاز علی تاج کے ڈرامے انار کلی کا سرائیکی ترجمہ)
چالیھ حدیثاں ( احادیث کا سرائیکی ترجمہ )
خواباں وِچ خیال (محمد حسین آزاد کی کتاب نیرنگِ خیال کا سرائیکی ترجمہ)
خیابانِ خرم (خرم بہاول پو کے سرائیکی کلام کی ترتیب وتدوین)
رات دی کندھ (ڈرامے، افسانے)
قصے تے پِڑ قصہ (میرامن کی باغ و بہار کا سرائیکی ترجمہ)
مثنوی دل بہار (میر حسن کی مثنوی سحر البیان کا سرائیکی ترجمہ)
نور نامہ (ترتیب وتدوین)
معراج نامہ (ترتیب و تدوین)
نعیتہ سہ حرفی (سہ حرفی نعتیں شاعری)
رسولِ کریم دے معجزے (مولانا سعید احمد دہلوی کی کتاب معجزاتِ رسول کا سرائیکی ترجمہ)
سرائیکی مطالعہ دے سوسال (ڈاکٹر کرسٹو فر شیکل کی کتاب کا سرائیکی ترجمہ)
٭۔۔۔(اُردو )
اقبال شناسی اور ایجرٹن کالج میگزین (اقبالیات)
اقبال اور اس کی اُردو شاعری پر ایک نظر (اقبالیات)
آئو مجھے پہچانو (بچوں کے لیے نظمیں)
نیا ستارا (بچوں کے لیے نظمیں)
مثنوی یوسف زلیخا (عبد الحکیم اُچوی کی مثنوی کا نثر ی اُردو ترجمہ)
اصطلاحات ِ معاشیات (درسی کتاب)
نظریات معاشیات (درسی کتب)
انتخاب دیوان خواجہ غلام فریدؒ (منتخب کافیوں کا اُردو ترجمہ)
سرائیکی نثر (تحقیق)
٭۔۔۔(انگریزی )
Descriptive Economic of Bharat & Pakistan(1)
Economic Terms(2)
Intermediate Economics Made Easy(3)
٭۔۔۔اعزازات
کون فرید فقیر پر اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے 1983ء میں خواجہ فرید ایوارڈ دیا گیا۔
سرائیکی زبان تے ادب ٗ اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے 1988ء میں خواجہ فرید ایوارڈ دیا گیا۔
بہاول پور دی تاریخ تے ثقافت پر حکومتِ پاکستان کے محکمہ اطلاعات و ثقافت کی طرف سے 1989ء میں جام درک ایوارڈ دیا گیا۔
1998ء میں خواجہ غلام فرید ؒ کے صد سالہ جشن کے موقع پر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کی طرف سے خواجہ فرید او ان کے کلام کی تشریح و ترجمہ فرید میڈل بعد از مرگ دیا گیا۔
٭۔۔۔وفات
دلشاد کلانچوی 16 فروری 1997ء کو بہاو ل پور میں وفات پاگئے۔ انہیں بستی کلانچ والا میں ان کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔
دلشاد کلانچوی کی ایک اُردو نظم بعنوا ن ’’ علامہ اِقبال کی یاد میں ‘‘
اے کہ ترا وجود ہے باعثِ فخرِ ادیبات
اے کہ ترا دماغ ہے مایہ صد تخیلات
اے کہ ترے سخن میں ہے رنگ کلامِ سامری
اے کہ ترے نفس سے ہے جاگی خدا کی کائنات
اے کہ تری نگاہ میں مصرو حِجاز و جنیوا
شام ہے یا ہے قرطبہ روم و فرنگ و سومنات
اے کہ تری خودی ہی ہے رازِحیاتِ جاوداں
اے کہ تری شہنشا ہی رشکِ ملوکِ شش جہات
اے کہ ترا یہ فلسفہ درس و پیام و ذکر و فکر
اے کہ یہ دردو سوز وغم مظہرِ رازِ قومیات
ایکہ رموزِ بے خودی تیرے قلم کی راز دار
اے کہ طریقِ رند و شیخ تیرے رموزو نظریات
ایکہ ترا مقام ہے چاند ستاروں سے بھی دور
اے کہ ترا قیام ہے جائے دل و تصورات
اے کہ غلام غیر کی تو نے نگاہیں پھیر دیں
بندہ حُر کے سامنے رکھ دیئے سب مشاہدات
اے کہ ترے لیے اگر کارِ جہاں دراز تھا
ہم سے کیوں جلد موڑلی تو نے نگاہِ التفات
٭
حوالہ جات :
(۱) وِکی پیڈیا (ویب )
(۲) سرائیکی زبان تے اَدب،ناشر: سرائیکی اَدبی مجلس بہاول پور ،1987ء
(۳) دلشاد کلانچوی۔ فن و شخصیت، شوکت مغل، اَکادمی سرائیکی اَدب بہاول پور، 2004ء
(۴) سرائیکی زبان اور اُس کی نثر، دلشاد کلانچوی، مکتبہ سرائیکی لائبریری بہاول پور، 1982ء
(۵) ماہنامہ سُنہڑا،مدیر: ڈاکٹر قاسم جلال (دلشاد کلانچوی نمبر) بہاول پور، 1992ء
(۶) آسان ترجمے والا سرائیکی قرآن مجید ،مترجم : دلشاد کلانچوی ، اشاعت (پنجم ) : الوحید ادبی اکیڈمی خان پور ، تانگھ ادبی سنگت سہجا ۔ 2021ء
٭٭٭