اسم گرامی دلو رام اور کوثری تخلص .ان کا جھکاؤ شروع سے ہی اسلام کی طرف تھا . اسلامی نام چودھری کوثر علی رکھا گیا۔ دلو رام کوثری نعت گوئی میں بہت مشہور ہوئے۔برصغیر کے مشہور صوفی پیر جماعت علی شاہ نے آپ کی شاعری سے متاثر ہوکر آپ کو ’حسان الہند‘ کا لقب دیا تھا۔آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت وشفقت اور حلم و درگزر سے بہت متاثر تھے اس لیے آپ نے انہیں ہی اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ جیسے
کچھ عشق ِ محمدۖ میں نہیں شرطِ مسلماں
ہے کوثری ہندو بھی طلب گارِ محمدۖ
~~~~~~~
مجھے نعت نے شادمانی میں رکھا
کہ مصروف شیریں بیانی میں رکھا
میں لکھتا رہا نعت اور حق نے شب بھر
قمر کو مری پاسبانی میں رکھا
نہیں اختیار اب سے کی نعت گوئی
یہی شغل ہم نے جوانی میں رکھا
در مصطفی کی ملے گر گدائی
تو پھر کیا ہے صاحبقرانی میں رکھا
محمد کو بے سایہ حق نے بنایا
یہ پہلا نشان نقش ثانی میں رکھا
جو زرہ اڑا شاہ کی گرد قدم کا
زمانے نے تاج کیانی میں رکھا
ق
نہ کر آفتاب فلک اتنا غرہ
کہ تجھ کو بھی ہے دار فانی میں رکھا
بظاہر تو جلتا ہے پر حیف تیرا
نہیں حصہ سوز نہانی میں رکھا
در حضرت مصطفی تجھ کو بخشا
تجھے منزل آسمانی میں رکھا
تو ہے دربدر گردش آسماں سے
مجھے حلقہءمہربانی میں رکھا
/ق
نہ کر شور اے بلبل گل فسانہ
ہے کیا تیری اس لن ترانی میں رکھا
میں ہوں نعت گو میرا رتبہ بڑا ہے
نہیں کچھ تری ہم زبانی میں رکھا
خدا نے کیئے جب کہ تقسیم رتبے
تو یوں سب کو پھر قدردانی میں رکھا
کہ آدم کو فخر ملائک بنا کر
انہیں جنت جاودانی میں رکھا
بڑی عمر نوح نبی کو عطا کی
سلامت جو طوفاں سے پانی میں رکھا
دیا خضر کو چشمہءآب حیواں
براہیم کو باغبانی میں رکھا
دیا حسن بے مثل یوسف کو اس نے
سلیمان کو حکمرانی میں رکھا
دم زندگی بخش عیسی کو بخشا
تو موسی کو خوش لن ترانی میں رکھا
محمد کو بھیجا جو آخر خدا نے
انہیں رتبہءلامکانی میں رکھا
مرے منہ سے منظور تھی نعت حضرت
مجھے فرد رطب اللسانی میں رکھا
زرا نقشہءنعت کا کر نظارا
ہے کیا نقش بہزاد و مانی میں رکھا
بہار ریاض ثنائے نبی نے
دہن کو مرے گل فشانی میں رکھا
نبی کے ہوئے نعت گو دو برابر
کہ دونوں کو اک مدح خوانی میں رکھا
ہے حسان پہلا تو میں دوسرا ہوں
نہیں فرق اول میں ثانی میں رکھا
خدا نے اسے سونپی محفل عرب کی
مجھے بزم ہندوستانی میں رکھا
اسے سیر دکھلائی دشت بیاں کی
مجھے غرق بحر معانی میں رکھا
میں کوثر سے پنجاب میں آیا یارو
مجھے حق نے پانی ہی پانی میں رکھا
لکھیں کوثری عمر بھر ہم نے نعتیں
نہ کچھ اور غم زندگانی میں رکھا
۱۹۱۸ء میں ہندو شاعر دلو رام کوثری نے ایک مرثیہ بعنوان ’’قرآن اور حسین (ع)‘‘ کہا تھا‘ اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
قرآن اور حسین برابر ہیں شان میں
دونوں کا رتبہ ایک ہے دونوں جہان میں
کیا وصف انکا ہو کہ ہے لکنت زبان میں
پیہم صدا یہ غیب سے آتی ہے کان میں
قرآں کلام ِ پاک ہے شبیرؑ نور ہے
دونوں جہاں میں دونوں کا یکساں ظہور ہے
فتح فرمان پوری دلورام کوثری کی شاعری کے بارے فرماتے ہیں کہ "انہوں نے نعت گوئی میں زبان و بیان کوبڑی ہنرمندیاں دکھائی ہیں۔ ان کا کلام ظاہر کرتا ہے کہ نعت گوئی ان کی ذہنی کاوش یا محض محنت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ان کے دل کی آواز اور ان کی طبع شاعرانہ کی فطری جولان گاہ تھی اسی لئے ہر جگہ ان کی سادگی ایک طرح کی پر کاری لئے رہتی ہے ۔" ان کے کلام کا مجموعہ خواجہ حسن نظامی دہلوی نے تیسری بار 1937 میں ہندو کی نعت کے عنوان سے شائع کروایا ۔
محشر میں دی فرشتوں نے داور کو یہ خبر
ہندو ہے ایک احمد ِ مرسل کا مدح گر
ہے بت پرست گرچہ وہ، لیکن ہے نعت گو
احمد کی نعت لکھتا ہے دنیا میں بیشتر
ہے نام دلو رام، تخلص ہے کوثری
لے جائیں اس کو خلد میں یا جانب سقر
سنتے ہی یہ ملائکہ سے اک انوکھی بات
فرمایا ذوالجلال نے جنت ہے اس کا گھر
اللہ اکبر، احمدۖ مرسل کا یہ لحاظ
کی حق نے لطف کی سگ دنیا پہ بھی نظر
١٩٢٩ میں انہوں نے سید حبیب مدیر سیاست لاہور کو حیدرآباد دکن سے ایک خط لکھ کر اپنے مسلمان ہونے کا علان کردیا . کوثری فارسی اور عربی بھی جانتے تھے . قرآنی آیات ور عربی جملات خوبی سے ادا کرتے تھے
بالیقین قرآن حسین پڑھتے تھے اس وقت
سینے پہ تھا چڑھا ہوا جب قاتل لعین
آواز دردناک سے کہتے تھے شاہ دیں
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
مصحف کے ساتھ رشتہ تھا شہ مشرقین کا
قرآن پڑھتے پڑھتے کٹا سر حسین کا
ایک محب راوی کا بیان
القصہ جب کہ کوفہ میں پہنچا سر امام
مصروف تھا تلاوت قرآن میں لا کلام
تھا زید ارقم ایک محب شہ انام
لکھتا ہے وہ کہ چار سو اس دم تھا اژدہام
بیٹھا تھا میں بھی غرفہ خانہ میں چین سے
کوفہ میں ایک دھوم تھی قتل حسین کی
ناگاہ میں نے دیکھا کہ ہیں چند بیبیاں
ہیں ساتھ ان کے قید میں دو تین لڑکیاں
تھیں سر برہنہ فاطمہ زہرا کی بیٹیاں
بلواے عام میں تھیں نبیۖ کی نواسیاں
بہر تماشا چاروں طرف روسیاہ تھے
رسی تھی ایک اور گلے بارہ آہ تھے
ناگاہ سر امام کا مجھ تک گزر ہوا
میں نے سنا کہ پڑھتا ہے سر سورہ کہف کا
مطلب یہ تھا عجب تھے وہ آیات کبریا
یہ سن کے میں نے عرض کی یا سبط مصطفاۖ
یہ سچ ہے لیکن ان میں نہ تجھ سا غریب ہے
اصحاب کہف سے ترا قصہ عجیب ہے.