لے کےرشوت پھنس گیا ہے ، دے کے رشوت چھوٹ جا
اس مجرب نسخے کے خالق دلاور فگار کا آج یومِ وفات ہے
شاعر، مزاح نگار، نقاد، محقق اور ماہرتعلیم دلاور فگار کا حقیقی نام دلاورحسین تھا۔ وہ 8 جولائی، 1929ء کو یو پی کے قصبہ بدایوں میں پیدا ہوئے اور 21 جنوری 1998 کو کراچی میں وفات پائی۔
دلاورنے شعر گوئی کا آغاز 14 برس کی عمر میں 1942ء میں کیا۔ انہیں مولوی جام نوائی بدایونی اور مولانا جامی بدایونی نامی اساتذہ کی رہنمائی ملی تھی۔
دلاورنے اپنی ابتدائی تعلیم بدایوں ہی میں حاصل کی ۔اس کے بعد انہوں نے آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایم اے (انگریزی) اور ایم اے (معاشیات) کی سندیں بھی حاصل کیں۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز انہوں نے بھارت میں درس و تدریس سے کیا۔
انہوں نےسنجیدہ غزل سے شاعری کا آغاز کیا۔ ’’حادثے‘‘ کے نام سےمجموعہ بھی شائع ہوا۔ پھر ایک دوست ان سے مزاحیہ نظمیں لکھوا کر مشاعروں میں پڑھنے لگے،جو بہت مقبول ہوئیں ۔قریبی دوستوں کو پتہ چلا تو انہوں نے اصرار کیا کہ وہ ایسی نظمیں مشاعروں میں خود پڑھا کریں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا تو جلد ہی ان کا شماراردو کے اہم مزاح نگاروں میں ہونے لگا،1968 میں وہ ہجرت کرکے کراچی آئے۔ وہ یہاں کے عبداﷲ ہارون کالج میں بحیثیت لیکچرار کچھہ عرصے تک اردو پڑھاتے رہے۔ اس وقت فیض احمد فیض یہاں کے پرنسپل ہوا کرتے تھے۔
دلاور کی غزلوں کا مجموعہ ’’حادثے‘‘ 19544ء میں چھپا تھا۔ ان کی ایک طویل نظم ’’ابو قلموں کی ممبری‘‘ 1956ء میں کافی مقبول ہوئی۔ ان کی مزاحیہ نظموں، قطعوں اور رباعیوں کے یہ مجموعے شائع ہوئے۔۔۔
مطلع عرض ہے،سنچری، ،انگلیاں فگار اپنی،آداب عرض ،شامت اعمال، ستم ظریفیاں، خدا جھوٹ نہ بلوائے،چراغِ خنداں،کہا سنا معاف کرنا
انہوں نے جمی کارٹر کی کتاب کا ترجمہ بھی ’’ خوب تر کہاں‘‘ کے عنوان سے کیا۔ حکومت پاکستان نے وفات کے بعد انہیں صدارتی تمغۂ حسن ِ کارکردگی عطا کیا۔
ان کا مشہور قطعہ
حاکمِ رشوت ستاں فکرِ گرفتاری نہ کر
کر رہائی کی کوئی آسان صورت، چھوٹ جا
میں بتائوں تجھ کوتدبیرِ رہائی، مجھ سے پوچھہ
لے کے رشوت پھنس گیا ہے،دے کے رشوت چھوٹ جا
دلاور فگار کی ایک انوکھی نظم
ہکلے کا پیار
ججا جان من تیری ذات سے، مما مجھہ کو ہی پپا پیار ہے
غغا غیر ہے خخا خودغرض، ووا وقت کا ییا یار ہے
ررا رات بھر ججا جاگنا، بھابھا بھاگنا ددا دوڑنا
ببا بائی گاڈ یہی اب میری، ححا حالت ززا زار ہے
ددا دلربا جو تو ہے حسیں، مما میں بھی کچھہ ککا کم نہیں
مما میرا بھی ششا شہر کے، ششا شاعروں میں شمار ہے
خخا خرچ کا غغا غم نہیں، پپا پیسا بھی ککا کم نہیں
میرے پاس بھی ٹٹا ٹی وی ہے، ببا بنگلہ ہے ککا کار ہے
ببا بیاہ تجھہ سے کروں گا میں، تتا تیرے ساتھہ مروں گا میں
ککا کینسر ہے مجھے اگر، ددا دق کی تو بھی شکار ہے
خخا خط میں تو نے یہ کیا لکھا، ووا وصل غیر سے ہو گیا
خخا خط ترا خخا خط نہیں، میری موت کا تتا تار ہے
ووا وہ جو میرا رقیب ہے، اعا آدمی وہ عجیب ہے
ششا شاعری بھی وہ کرتا ہے، ننا نام اس کا فگار ہے
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=453551808368022&id=100011396218109
“