آج – 25؍جنوری 1998
اردو کے ممتاز مزاح نگار، المعروف اکبر ثانی اور شہنشاہِ ظرافت و شاعر” دلاور فگار صاحب “ کا یومِ وفات…
نام دلاور حسین، 8 جولائی 1929ء کو بدایوں ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ جہاں سے انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں اردو ادب میں گریجویشن کے بعد آگرہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔انہوں نے انگریزی اور معاشیات میں پوسٹ گریجویشن بھی کیا۔ وہ اکیڈمی اور تعلیمات سے وابستہ تھا۔ تقسیم کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی جہاں ہارون کالج میں اردو پڑھاتے تھے۔ انہوں نے کے۔ڈی۔اے میں بھی کام کیا اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر۔ ٹاؤن پلاننگ رہے۔ فگار نے 1942 میں 14 سال کی عمر میں لکھنا شروع کیا۔ وہ جلد ہی مولوی جامع نوائی بدایونی ، مولانا جامعی بدایونی ، کے ساتھ نمایاں ہنروں کی کمپنی میں شامل ہوگیا۔ ان کے ادبی کام میں غزل ، طنز و مزاح پر مشتمل ہے۔ ان کی تالیفوں میں ہیڈیس (غزلوں کا مجموعہ) اور ستم ظریفیاں ، شامت اعمال ، عصرِ نو ، انگلیاں فگار اپنی ، مطلع عرض ہے ، خدا جھوٹ نہ بلوائے اور دیگر جیسے مزاحیہ شاعری کے مجموعے بھی شامل ہیں۔ 25؍جنوری 1998ء کو کراچی میں ان کا انتقال ہوا۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ممتاز مزاح نگار دلاور فگارؔ کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
لندن میں جشن حضرت غالبؔ کی رات تھی
تاریخ شاعری میں یہ اک واردات تھی
—
اس جشن میں شریک تھے ہر ملک کے وفود
حل ہو گیا تھا مسئلہ وحدت الوجود
—
جنت سے میرزا کو جو کنکارڈ لے چلا
پر ہو گیا سفر سے جو تھا راہ میں خلا
—
مرزا کے پاس باکس میں تمباکو تھی فقط
کسٹم کے افسروں نے اسے سمجھا ہی غلط
—
افسر نے پاسپورٹ جو ان سے طلب کیا
کہنے لگے کہ آپ نے یہ کیا غضب کیا
—
سچ بات تو یہی ہے وہ اب نیک ہو کہ بد
ملکوں کی سرحدوں کو نہیں مانتے اسدؔ
—
تاریخ کی ہے فکر نہ جغرافیے کی ہے
شاعر ہوں میں تلاش مجھے قافیے کی ہے
—
عام آدمی کی طرح مرا پاسپورٹ کیوں
''میں عندلیب گلشن نا آفریدہ ہوں''
—
میں کب یہاں مکان بنانے کو آیا ہوں
لندن میں اپنا جشن منانے کو آیا ہوں
—
انگریز کے قصیدے جو لکھے تھے یاد ہیں
نظمیں کچھ اور بھی ہیں جو محتاج داد ہیں
—
مجھ کو نمود و نام کی پروا نہیں مگر
بلوایا بی بی سی نے تو پہنچوں گا وقت پر
—
غالبؔ جو ریسٹوران میں پہنچے بہ وقت شام
بیرے سے یہ کہا کہ کرو میرا انتظام
—
منگواؤ وہ جو آتش سیال پاس ہے
''اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے''
—
اسٹیج پر جو ہو گئے اب جلوہ گر اسد
استاد ذوقؔ جلنے لگے ازرہ حسد
—
ناظم مشاعرے کا یہ بولا کہ حاضرین
غالبؔ کو دیکھنے کو نہ آئیں تماش بین
—
غالبؔ کی شخصیت میں محاسن ہیں بے شمار
یہ آدمی ولی تھا نہ ہوتا جو بادہ خوار
—
یہ شخص جس کو وقت نے بوڑھا بنایا ہے
ہم نے اسے برات کا دولہا بنایا ہے
—
بیوی سے بات کیجے نہ سالی سے پوچھئے
غالبؔ کا کیا مقام ہے حالی سے پوچھئے
—
صحت سے کم نہیں ہے اسے بہرا پن کا روگ
بہرا جو اس کو کہتے ہیں بے بہرہ ہیں وہ لوگ
—
بے تیغ کیوں لڑے گا یہ شاعر جو ہے جری
سو پشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
—
یہ چاہتا ہے گھر میں تری جلوہ گاہ ہو
''دیکھو اسے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو''
—
تہذیب و فن کو رنگ مغل اس نے دے دیا
اردو کو ایک تاج محل اس نے دے دیا
—
اس نے زبان میرؔ کو ہندی کا رس دیا
اردو غزل کو اس نے نیا کینوس دیا
—
غالبؔ جو اپنے جشن میں بیٹھے ہیں شان سے
ان کا کلام سنئے اب ان کی زبان سے
—
غالبؔ نے تیس غزلیں سنائیں جو صبح تک
ہر شعر نوٹ کرتا رہا منشئ فلک
—
تقریب جب یہ ختم ہوئی صبح کے قریب
اسٹیج کو جو دیکھا تو غائب تھے سب ادیب
—
جلسہ میں مہتمم کا بھی کوئی پتہ نہ تھا
دریاں تھیں گاؤ تکیے تھے اور شامیانہ تھا
—
کیا پوچھتے ہو حال جو غالبؔ کا آج تھا
پاکٹ میں ایک پیسہ نہ تھا سر پہ تاج تھا
—
کل اک ادیب و شاعر و ناقد ملے ہمیں
کہنے لگے کہ آؤ ذرا بحث ہی کریں
—
جن کو نفرت تھی مری ذات سے بے وجہ فگارؔ
کس قدر خوش ہیں وہ یارانِ وطن میرے بعد
—
ادب کو جنس بازاری نہ کرنا
غزل کے ساتھ بدکاری نہ کرنا
—
ادیب و شاعر فن کار بوتے ہیں جو شجر
یہ لوگ پھل کہاں اپنے شجر کے دیکھتے ہیں
—
پوشیدہ بم بھی ہوتے ہیں کچرے کے ڈھیر میں
ہشیار ہو کے روڈ سے کچرا اٹھائیے
—
جو تیتر اور چکور ہیں وہی پکڑیں ان کو جو چور ہیں
میں چکور اکور کا کیا کروں مری فاختہ کوئی اور ہے
—
کتنے اقبال رہ فکر میں اٹھے لیکن
راستہ بھول گئے ختم سفر ہونے تک
—
ایک شادی تو ٹھیک ہے لیکن
ایک دو تین چار حد کر دی
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
دلاور فگارؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ