دل و دماغ کی کہانی
میں اور وہ دونوں ایک ساتھ تھے ۔وہ گاڑی چلا رہی تھی اور میں اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔ہم دونوں ڈیوو ٹرمینل کلمہ چوک پر رکے ۔میری خواہش تھی کہ اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر چائے پی جائے ۔گاڑی ڈیوو ٹرمینل پر آکر رکی،میں اپنے اور اس کے لئے دو کپ چائے لے آیا ،اس کی مسکراہٹ دیدنی تھی ۔ایک بات واضح کرتا چلوں کہ یہ کہانی مغرب کے بعد کی ہے ۔وہ روزہ افطار کر چکی تھی،اس لئے اسے چائے کی طلب ہورہی تھی ۔جمعہ کا دن ہو ،کلمہ چول ڈیوو ٹرمینل کی کار پارکنگ ہو ،اس کی مسکراہٹ ہو اور میری شرارتیں ہوں،یہ مناظر اس قدر خوبصورت تھے کہ میں ابھی تک ان کی خوبصورتی میں ڈوبا ہوا ہوں ۔چائے کی دلکش چسکیاں لیتے لیتے اس نے سوال کیا؟اجمل شبیر ،ایک بات بتاؤ،دل اور دماغ میں سے کس کی آواز پر دھیان دینا چاہیئے ؟اس طرح کے سوال کی توقع اس شوخ اور شرارتی لڑکی سے نہیں تھی۔میں نے اس سے کہا ،آپ نے میرا پسندیدہ موضوع چھیڑدیا ہے،اس پر تو میں ساری رات بات کرسکتا ہوں،اس نے کہا میں ساری رات آپ کی باتیں سن سکتی ہوں۔میں نے کہا،دل انسان کو ہر قسم کے تصوراتی خیالات سے نوازتا ہے،یہ انسان کو فریب نظر میں مبتلا کردیتا ہے،یہ دل میٹھے میٹھے خواب دکھاتا ہے اور انسان کو آسمان کی بلندیوں تک لے جاتا ہے۔لیکن کبھی کبھار یہ دل انسان کو سچ کا شعور اور آگاہی نہیں دیتا ۔سچ دل و دماغ سے ہمیشہ پوشیدہ رہتا ہے۔اور یہ سچ ہی وہ حقیقت ہے جو انسان کا شعور اور آگاہی ہے۔سچ نہ دل ہے اور نہ ہی دماغ ہے۔سچ کا شعور اور آگہی ان دونوں سے ہمیشہ جدا رہتے ہیں ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ شعور دل و دماغ کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔دماغ کے بہت سے مسائل ہیں ،یہ مسائل اس لئے ہیں کہ دماغ کی آنکھیں تو ہوتی ہیں ،لیکن اس کی ٹانگیں نہیں ہوتی۔اس لئے یہ خطرناک ہوتا ہے۔دل کا مسئلہ بھی کچھ اس طرح کا ہے کہ اس کی آنکھیں نہیں ہوتی،لیکن بہت طاقتور ٹانگوں سے مالا مال ہوتا ہے۔دل اندھا ہوتا ہے ،لیکن شااندار انداز میں زندگی کی شاہراہ پر دوڑتا ہے۔اس دل کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کہاں جارہا ہے؟اس لئے محبت کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ محبت اندھی ہوتی ہے۔حقیقت میں محبت اندھی نہیں ہوتی ،یہ دل ہی ہے جو اندھا ہوتا ہے۔انسان کی حقیقت ایک تیسری فورس ہے ،جو اس کے اندر ہوتی ہے ،لیکن وہ اس فورس سے آگاہ نہیں ہوتا ،اس فورس کو شعور اور آگہی کہتے ہیں ۔اگر دل و دماغ انسان کے شعور کے تابع ہیں تو پھر زندگی شاندار اور خوبصورت ہوتی ہے۔دل اور دماغ کا سفر مخالف سمتوں میں ہوتا ہے،دل کچھ کہہ رہا ہوتا ہے اور دماغ کچھ اور ،زندگی کا مزہ لینا ہے تو ان دونوں کی مت سنو ،صرف ان کو دیکھو ،صرف یہ دیکھو کہ دونوں بھائی جا کہاں رہے ہیں ؟انسان نہ دل ہے اور نہ دماغ ،انسان شعور اور آگہی کا نام ہے۔نہ دماغ کو اپنا آقا بناؤ اور نہ دل کو ۔صرف ان دونوں کی چال چلن کو واچ کرتے رہو ،اس چیز کا مزو لو کہ تم دونوں نہیں ہو اور اس تجربے کو انجوائے کرتے جاؤ،انسان اہم اس لئے ہے کہ دل و دماغ دونوں کو توانائی کی ضرورت ہے اور دونوں انسان سے توانائی لیتے ہیں ،انسان کی زندگی سے ان کا گہرا تعلق ہے ،پھر بھی یہ دونوں انسٹرومنٹ ہیں ۔جب انسان دل و دماغ کی پیروی نہیں کرتا ،پھر یہ دونوں آپس میں جھگڑنا اور لڑائی کرنا بند کردیتے ہیں ۔کیونکہ ان میں توانائی ہی نہیں ہوتی ۔دماغ مردہ لاش کی مانند ہے ،جب یہ سفر پر نکلتا ہے تو ہمیشہ مطلب و معانی جاننے کی کو شش کرتا ہے،لیکن حقیقت میں یہ زندگی کے معانی و مطلب کا قتل کرتا ہے۔دماغ میں الفاظ کا ایک پہاڑ پوتا ہے۔اس لئے میں دماغ کے سفر کے خلاف ہوں ۔دماغ کے غلام انسان اسکالر ہوتے ہوں گے،انہیں دانشور بھی کہا جاتا ہوگا،لیکن وہ زہانت سے محروم ہوتے ہیں ۔دانشور صرف مردہ الفاظ کے پہاڑوں کے سہارے زندہ رہتے ہیں ۔میری نگاہ میں یہ زہانت نہیں ہے۔زہانت الفاظ اور نظریات اور فلسفے کا نام نہیں ۔اور الفاظ مردہ لاش کی مانند ہوتے ہیں ۔اسی دوران اس نے سوال کیا پھر زندگی کا سفر کس کے ساتھ شروع کیا جائے،دماغ کے ساتھ یا دل کے ساتھ ؟اس کا سوال بڑا دلچسپ تھا ،میں نے کہا بی بی ،مجھ سے پوچھو رہی تو میں تو دل کے ساتھ سفر کرنا پسند کرتا ہوں ،دل الفاظ میں دلچسپی نہیں رکھتا ،دل کو نظریات اور فلسفے سے کوئی غرض نہیں ہوتی،یہ صرف ان الفاظ اور نظریات کا میٹھا میٹھا جوس پیتا ہے اور پھر آگے کو نکل جاتا ہے۔دماغ ان الفاظ اور نظریات کا جوس پھینک دیتا ہے ،لیکن خالی بوتلیں اپنے ساتھ رکھتا ہے۔یہ الٖفاظ کے ڈبے دیکھنے میں تو خوبصورت ہوتے ہیں اور انسان کو نام نہاد دانشور بھی بنا دیتے ہیں ،لیکن انسان کو زندگی انجوائے نہیں کرنے دیتے ،انسان بس انہی ڈبوں تک ہی محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔اس طرح جو انسان دماغ کے غلام ہوتے ہیں ،ان کا دماغ پھول کر پہاڑ بن جاتا ہے اور وہ مغرور ہو جاتے ہیں ۔دل دینا جانتا ہے،شئیر کرنا جانتا ہے ،لیکن شک کرنا نہیں جانتا ۔دل والے ہی اس زمین کے اصلی زہین انسان ہیں ،دل والے ہی غیر جانبدار ہوتے ہیں ،انہیں ان باتوں سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا کہ کون ان کا دشمن ہے اور کون دوست؟دماغ جانبدار ہوتا ہے،متعصب ہوتا ہے،اس کا تعلق کسی تنظیم یا گروپ سے ہوتا ہے۔کسی عقیدے یا مذہب سے ہوتا ہے۔لیکن دل نہ کسی کے حق میں ہوتا ہے اور نہ کسی کے خلاف۔یہ ہر کسی کو خوش آمدید کہتا ہے۔جو انسان دماغ کے غلام ہوتے ہیں ،ان کے دوست اور دشمن ہوتے ہیں ۔انسان اس وقت زہین ہے جب وہ غیر جانبدار ہے اور غیر جانبداری دل والوں کا خاصا ہے۔اگر انسان جانبدار ہے،تو وہ زہین نہیں،وہ تعلیم یافتہ ہو سکتا ہے،لاجیکل ہو سکتا ہے،نام نہاد عقل مند ہو سکتا ہے لیکن وہ زہین اور باشعور نہیں ہو سکتا ۔کیونکہ زہانت کے پاس تعصب نہیں ہوتا ۔دماغ کی زہانت کبھی زہانت نہیں ہو سکتی،اسے نام نہاد علم تو شاید کہا جاتا ہو ،لیکن وہ زہانت نہیں ۔دل کی زہانت،زہانت ہے۔دماغ جمع تفریق کا نام ہے،کاروبار کا نام ہے،پیسے کمانے کانام ہے لیکن صرف یہ زندگی نہیں ۔دماغ کے غلام انسان حساسیت کی خوبصورتی سے محروم ہوتے ہیں ۔دل کی آسائشوں سے محروم ہوتے ہیں ،یہ روحانی نہیں ہوتے ،یہ خوشی اور محبت سے محروم ہوتے ہیں ۔یہ میلوں ٹھیلوں اور قہقہوں سے محروم ہوتے ہیں ۔مزاح اورشاعری کی لزت سے محروم ہوتے ہیں ۔محبت کرنے کی صلاحیت اور قابلیت سے محروم ہوتے ہیں ۔یہ صرف مکینیکل قسم کی زندگی گزارتے ہیں ۔خوبصورت اور تیز ترین اور جدید روبوٹس کی مانند ہوتے ہیں ۔لیکن ان میں زندگی نہیں ہوتی ،یہ چلتی پھرتی لاشوں کی طرح ہوتے ہیں ۔میری گفتگو جاری تھی ،ہم دونوں کی چائے ختم ہو چکی تھی ،وہ مزید کچھ سننا چاہتی تھی ۔میری گفتگو اسے دلچسپ محسوس ہو رہی تھی۔اس نے کہا زندگی کیا ہے؟ میں نے کہا ،زندگی دل ہے ،زندگی کی نشوونما کا محور و مرکز صرف اور صرف دل ہے ۔یہ دل ہی ہے جس کی وجہ سے ہم دونوں یہاں بیٹھے زندگی کو انجوائے کررہے ہیں ،دل ہی کی وجہ سے محبت ہے،دل ہی کی وجہ سے روحانی خوشیاں ہیں ،دل بہت خوبصورت ہے۔جو لوگ صرف دماغ کی سنتے ہیں ،میری نگاہ میں وہ بے وقوف انسان ہیں ۔اس نے کہا میں دل کی سنوں یا دماغ کی؟ میں نے کہا ،دیکھو ،ہمارے معاشرے میں ہر طرف انسان زہر سے بھرپور ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے دماغ کو اپنا آقا مان لیا ہے۔یہ ہر وقت سازش سوچتے اور سازش ڈھونڈتے رہتے ہیں ۔یہ سب دماغ کے کارنامے ہیں ،دماغ کی وجہ سے ان میں حساسیت نہیں رہی ،دماغ کے غلام یہ انسان ابھرت سورج کی خوبصورتی سے ناواقف ہیں ،ستاروں سے بھرپور آسمان کو نہیں جانتے،پرندوں کے نغموں کو بھول چکے ہیں ،برستی بارش اور بادلوں کی خوبصورتی اور کڑکتی آسمانی بجلی کی دلکشیاں ان کو نظر نہیں آتی،یہ نہیں جانتے کے درخت کس قدر خوبصورت ہوتے ہیں ۔یہ صرف کھاتے پیتے ہیں ،لیکن محسوس نہیں کرسکتے ،کیونکہ ان میں حساسیت نہیں ہوتی۔بغیر احساس کے یہ زندگی گزارتے ہیں ۔زندگی رومانس کا نام ہے ،زندگی عشق کا نام ہے،زندگی تلاش کا نام ہے،زندگی میں کروڑوں خوبصورتیاں ہیں ،جو صرف دل والوں کے نصیب میں ہوتی ہیں ۔زندگی جذبات کا نام ہے ،یہ صرف سوچنے کا نام نہیں ۔زندگی احساس کا نام ہے ،زندگی صرف عقل مندی نہیں ،زندگی تو محبت ہے۔میں نے کہا بی بی ،میں تو ہمیشہ دل کے ساتھ سفر کرتا ہوں ،اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ دل کے ساتھ سفر کرنا پسند کریں گی ،یا دماغ کے ساتھ ۔میرے اس آخری فقرے پر وہ مسکرائی اور اس نے کہا،سوچوں گی کہ دل کے ساتھ رہوں یا دماغ کے ساتھ ۔۔اس پر ہم دنوں مسکرا دیئے۔اس نے گھڑی دیکھی اور کہا ،بہت دل کی باتیں ہو گئی ۔میں بہت لیٹ ہو چکی ہوں ،چلو یہاں سے چلتے ہیں ،گاڑی اسٹارٹ ہوئی ،اس نے مجھے میرے گھر ڈراپ کیا اور اپنے گھر کو روانہ ہوگئی ۔ابھی تک یہ سوچ رہا ہوں کہ وہ اب دل کی بات سنے گی یا پھر پہلے کی طرح دماغ کو ہی آقا مانے گی؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔