پانچ مزدور ٹرین کی پٹڑی کی مرمت کر رہے ہیں۔ ایک بے قابو ٹرالی ان کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اگر کچھ نہ کیا گیا تو وہ پانچوں مارے جائیں گے۔ آپ کو ایک سوئچ نظر آیا ہے۔ اگر اس کو کھینچ دیں گے تو یہ ٹرالی ایک دوسری طرف رخ کر لے گی۔ وہاں پر صرف ایک مزدور کھڑا ہے۔ فیصلہ آپ کا ہے۔ کیا آپ یہ سوئچ کھینچ دیں گے؟
اگر آپ دنیا کے زیادہ تر لوگوں کی طرح ہیں تو آپ کا جواب “ہاں” میں ہو گا۔ ایک زندگی کی قیمت پر پانچ لوگوں کو بچا لینا بہتر ہے۔ آپ کا انتخاب اچھا ہے۔
اب اس کو ایک مختلف رنگ دیتے ہیں۔ یہی پانچ مزدور ہیں اور یہی بے قابو ٹرالی۔ آپ اس کے اوپر ایک پُل پر کھڑے دیکھ رہے ہیں۔ پُل کے کنارے ایک فربہ اجنبی بڑا سا بیگ اپنے شانوں پر لٹکائے خوبصورت شام کا نظارہ کر رہا ہے۔ اگر آپ اس کو پُل کے نیچے دھکا دے دیں گے تو اس کا حجم اتنا ہے کہ ٹرالی اس سے ٹکرا کر رک جائے گی۔ فیصلہ آپ کا ہے۔ کیا آپ اس بے خبر شخص کو دھکا دے دیں گے؟
اگر آپ دنیا کے زیادہ تر لوگوں کی طرح ہیں تو آپ ایک بے قصور شخص کو قتل کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کریں گے۔ لیکن ٹھہریں۔ اس میں اور پچھلے سوال میں فرق کیا ہے؟ یہ بھی تو ایک زندگی کی قیمت پر پانچ زندگیاں بچانے کا انتخاب ہے۔ کیا ریاضی ایک ہی نہیں؟
فلسفے اور اخلاقیات میں یہ مشہور ٹرالی پرابلم کہلاتی ہے۔ (اس کے کئی اور ویری ایشن ہیں)۔ فلسفے میں اس کے کئی جواب ہیں لیکن اس کا جواب نیوروسائنس سے لینے پر جوشوا گرین اور جاناتھن کوہن نے کام کیا۔ اس میں فرق کسی کو چھونے سے آتا ہے اور یہ شخصی تعلق ہمارے جذباتی نیٹ ورک کو چھیڑ دیتا ہے۔
جب لوگ اس سوال پر اپنا ردِ عمل سوچ رہے ہوتے ہیں تو دماغ کی امیجنگ بتاتی ہے کہ کسی کو دھکا دینے سے موٹر پلاننگ اور ایموشن متحرک ہو جاتے ہیں جبکہ پہلے سوال میں صرف منطقی سوچ رکھنے ولے لیٹرل ایریا۔ کسی کو دھکا دینا جذباتی فیصلہ ہے۔ سوئچ کھینچنا منطقی جس میں دماغ سٹار ٹریک کے مسٹر سپاک کی طرح کام کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک شخص کے دروازے پر دستک ہوئی۔ باہر ایک اجنبی اوور کوٹ پہنے کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک ڈبہ تھا جس میں ایک بٹن لگا تھا۔ اس نے ایک ڈیل آفر کی۔ “تمہیں اس بٹن کو دبانا ہے۔ اس کے بدلے میں ایک لاکھ روپے دوں گا”۔ اس شخص نے پوچھا، “اس سے ہو گا کیا؟”۔ اجنبی نے جواب دیا، “کہیں دور کوئی شخص جسے تم جانتے بھی نہیں، وہ مر جائے گا”۔ وہ شخص تمام رات سوچتا رہا۔ ڈبہ اس کے سامنے میز پر پڑا تھا۔ وہ اسے گھور رہا تھا۔ ماتھے پر پسینہ۔ آخرکار اپنی مالی مشکلات کا سوچتے ہوئے اس نے پھر آگے بڑھ کر بٹن دبا دیا۔
دروازے پر دستک ہوئی۔ اجبنی سامنے کھڑا تھا۔ اس نے ڈبہ لے لیا اور ایک لاکھ روپے ادا کر دئے۔ “رکو، اب آگے کیا ہو گا؟” اس نے پوچھا۔ اجبنی نے جواب دیا، “کچھ نہیں، اب میں یہ ڈبہ لے جا کر کسی اور کو دے دوں گا۔ دور کہیں کسی ایسے شخص کو جسے تم جانتے بھی نہیں۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو بس کہانی ہے لیکن صرف کہانی نہیں۔ بٹن دبانے کا انتخاب کسی سامنے کھڑے شخص کو خنجر سے یا گولی سے قتل کرنے کے مقابلے میں بہت مختلف ہے۔ جنگوں میں جنرل لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے دور بیٹھ کر کرتے ہے۔ یہ فیصلے آسان اس لئے ہیں کہ یہ غیرشخصی ہوتے ہیں۔ جدید جنگوں میں لڑنے والوں کے فیصلے بھی اسی طرح ہوتے ہیں۔ میزائل کا بٹن دبانا اور اسے نشانے پر جاتے دیکھنا ہمارے ایموشنل نیٹ ورک کو نہیں چھیڑتا۔ سرد جنگ کے موقعے پر ایک سیاسی مفکر نے تجویز پیش کی تھی کہ نیوکلئیر جنگ کا بٹن صدر کے دوست کے سینے میں اس طرح لگایا جائے کہ اس کو آن کرنے کیلئے صدر کو اپنے دوست کو زور سے مکہ مارنا پڑے تا کہ یہ فیصلہ جذباتی نیٹ ورک کو چھو سکے اور یہ اتخاب غیرشخصی نہ رہے۔
دماغ کے ان الگ سرکٹس میں جذباتی نیٹورک پرانا جبکہ منطقی نیٹ ورک نیا ہے۔ ان دونوں سے آنے والے فیصلے مختلف ہو سکتے ہیں۔ یہ چونکہ دونوں ایک ہی آوٗٹ پٹ کنٹرول کرتے ہیں اس لئے ان کے درمیان ہونے والی جنگ کو ہم مختلف ادوار میں مختلف زبانوں میں مختلف نام دیتے آئے ہیں۔
کیا ان میں سے کوئی نیٹ ورک بہتر ہے؟ کیا منطقی بنیادوں پر کئے جانے والے فیصلے جذبات سے بہتر ہوتے ہیں؟ نہیں۔ اگر ہر کوئی صرف سرد منطق سے کام لینے والا ہوتا تو معاشرے جلد گر جاتے۔ ان کا توازن دماغ کے لئے آپٹیمل ہے۔ کسی شخص کو پُل سے دھکا دینے پر محسوس ہونے والی الجھن اور ہچکچاہٹ معاشرتی انٹرایکشن کے لئے انتہائی اہم ہے۔ میزائل کا بٹن دبا دینے کی آسانی تباہ کن۔ یہی وجہ ہے کہ سرد منطق والا کوئی معاشرہ دنیا میں نہیں اور مسٹر سپاک صرف فکشن کا کردار ہیں۔
قدیم یونان میں اس کی دانائی کو بتانے کیلئے ایک کہانی ہے۔ آپ دو منہ زور گھوڑوں والی بگھی پر سوار ہیں۔ عقل کا سفید گھوڑا اور جوش کا سیاہ گھوڑا۔ ایک کہیں کھینچتا ہے، دوسرا کہیں اور۔ آپ کا کام ان کو ایک مضبوطی سے کنٹرول کرنا ہے تا کہ سڑک کے درمیان رہ سکیں۔
ان کالے اور سیاہ گھوڑوں کی بگھی کی لڑائی کا سب سے اہم پہلو صرف موجودہ وقت کا فیصلہ نہیں۔ منطقی اور جذبانی نیٹ ورک کی سب سے اہم جنگ اس وقت آتی ہے جب ہمیں وہ فیصلے لینے ہوں جن کے نتائج مختلف اوقات میں مختلف ہوں۔ یہ ضبطِ نفس کی جنگ ہے۔