دل میں کیسے کیسے خنجر لگتے ہیں
کل کے عاشق آج کے بندر لگتے ہیں
پنشن لینے سنٹر بُڈھے جاتے ہیں
اپنا منتھلی خرچ وہاں سے لاتے ہیں
ہم بھی گے تھے لینے کل کُچھ سرمایہ
وہیں پہ وہ ظالم ہم سے آ ٹکرایا
گنجا تھا اور ہاتھ میں اُس کے سوٹی تھی
پہلے سے تو میں بھی ویسے موٹی تھی
اِک دُوجے کو دیکھا تو ہم ڈر سے گئے
دل میں سوچا یہ تھا جس سے مر تھے گئے
چہرے پہ ہم دونوں کے ہی جُھریاں تھی
دیکھ کے چلتی دل پہ سو سو چُھڑیاں تھی
اِسی صبح میں نے سر میں تیل لگایا تھا
مہندی سے بالوں میں رنگ جمایا تھا
لگتی میں کسی ایکٹریس کی ممّی تھی
بعد از لنچ کچھ اور بڑی میری تمّی تھی
بچوں کے بچوں کا حال بھی پوچھ لیا
ایک سے ایک دو سوال بھی پوچھ لیا
آتھریٹکس کی کوئی نئی دوا آئی
پیار بھرے دو دِلوں سے اِک صدا آئی
پُوچھا کتنی شُوگر ہے تیری جاناں
میں نے کہا تُم نے بھلا کیسے پہچانا
کہنے لگا ظالم ہے سویٹی وقت بڑا
میں نے کہا چل فلرٹ نہ کر ہو دُور کھڑا
دل پر حملہ تُم نہ کہیں کروا لینا
بلڈ کا پریشیر ہی نہ کہیں بڑھا لینا
واکر سے پھر اُس نے میرا پاؤں چُھویا
وہ تو سُن تھا مجھے لٰہذا کُچھ نہ ہُوا