السلام علیکم ۔۔۔
میں محمکہ زراعت میں آفیسرز سکیل میں انجینئر ہوں میری ماں ادب کی لیکچرر تھیں ماں اور بابا نے لو میرج کی تھی ہم تین بہن بھائی ہیں دو بڑے ہیں میں سب سے چھوٹا اور ماں کا سب سے زیادہ لاڈلا ہوں ۔
شادی کے پہلے روز سے میرے ددھیال والوں نے ماں کو محبت کی شادی کے جرم میں سزایافتہ قیدی کی طرح رکھا اور انتہائی گھٹیا سلوک روا رکھا گھر میں ہر وقت چخ چخ رہتی پانچ سال میں میرے والد صاحب کے گھر والوں کا دباؤ اتنا بڑھ گیا کہ والدین کو خوش کرنے کے لئے دونوں کے درمیان طلاق واقع ہوگئی ماں کی عمر صرف اٹھائیس سال تھی ہم بچے ماں کو مل گئے ماں تین بچوں کے ساتھ واپس والدین کی دہلیز پہ پلٹ آئیں نانا نانی والدہ کی دوبارہ شادی کرنا چاہتے تھے تاکہ بیٹی کو اس کے گھر بار میں آباد دیکھ سکیں ماں برسرروزگار تھیں کئی ہاتھ سہارا دینے کو تیار تھے لیکن ماں نے سختی سے منع کر دیا اور اپنی محبت کی نشانیوں کو کلیجے سے لگا کے پالنے لگیں ۔۔ نانا کے قریب ہی کرایے کے گھر میں شفٹ ہوگئیں ۔
اکیلی جوان اور لاوارث عورت کے لئے یہ معاشرہ بھیڑیا بن جاتا ہے یا مگر مچھ ماں نے ہمیں پالنے پوسنے اور پڑھانے میں کن مشکلات کا سامنا کیا ہوگا میں صرف سوچ سکتا ہوں محسوس نہیں کر سکتا ۔۔ محبت کی شادی کے بعد اتنی جوانی میں طلاق , تضحیک کے احساس ,نفس کے مجاہدے اور معاشرے کی خبیث روش نے ماں کے مزاج کو کافی سخت گیر بنا دیا تھا وہ چونکہ ماں کے ساتھ ساتھ باپ کے فرائض بھی ادا کر رہی تھیں اس لئے تعلیم و تربیت کے معاملے میں کافی سے زیادہ سخت تھیں ۔۔۔ ہماری اچھی تربیت کرکے وہ اپنی پیشانی پہ سجے داغ دھونا چاہتی تھیں اور معاشرے کو کارآمد افراد لوٹا کے خبیث معاشرے کے منہ پہ طمانچہ بھی مارنا چاہتی تھیں اپنی ان تمام کوششوں میں معاشرے کی ناہمواریوں کو سہتے سہتے ماں جسم و جاں کو کئی مستقل روگ لگا بیٹھی ہیں ۔۔
ماں کے پاس اچھی سیلری کی گورنمنٹ جاب تھی اس نے جو کمایا ہماری تعلیم و تربیت پہ خرچ کر دیا ۔۔ بڑے دونوں بہن بھائی اب شادی شدہ ہیں اور اپنی زندگیوں میں مگن ہیں ہماری تعلیم اور جابز کے بعد ماں نے اپنی جاب کو ریزائین کر دیا تھا اب گھر میں ہوتی ہیں کئی طرح کے عارضوں میں مبتلا ہیں لیکن اپنے ٹھکرائے جانے کا احساس انکی ہر تکلیف پہ ہمیشہ بھاری رہا ہے ماں اب جلد از جلد میری شادی بھی کرنا چاہتی ہیں مجھ سے میری پسند بھی پوچھی ہے اگر کوئی نہیں تو عندیہ دیا ہے کہ پھر اپنی مرضی سے بہو لائیں گی ۔
یہاں تک تو سب نارمل ہے معاشرے میں اس طرح کی طلاق اور ناکامیوں کی کئی کہانیاں پہلے سے موجود ہیں آگے کچھ پیش آنے والے واقعات نے میری زندگی کو میزانیے پہ لاکھڑا کیا ہے مجھ سے کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا ۔۔ ایک ایسا غم ہے جو مجھے گھن کی طرح لگ چکا ہے ۔
میں نویں جماعت میں تھا جب پہلی بار مجھے اپنے والد سے ملنے کا اتفاق ہوا انہیں دیکھتے ہی دل میں پتہ نہیں کیوں خون گرم سیال بن کے جوش مارنے لگا کہ میں شدید غیر اختیاری جذبے سے انکے سینے سے جالگا حالانکہ باپ کی محبت کیا ہوتی ہے میں اس لمس سے ناآشنا تھا کبھی کمی محسوس بھی نہیں کی تھی دوسری طرف بابا کے دل میں بھی محبت کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا دل سینے کے پنچرے میں پسلیاں توڑے ڈال رہا تھا وہ آبدیدہ تھے اور جذبات میں گریہ کر رہے تھے میں لاوے کی طرح پگھلنے لگا جب سینے سے جدا ہوا تو دل انکی محبت جذب کر چکا تھا اور انکی محبت میں دھک دھک کر رہا تھا مکمل طور پہ اسیر ہو چکا تھا ۔۔ ہم گاہے بگاہے ملنے لگے تھے ماں سے علیحدگی کے بعد بابا کی چھ ماہ بعد ہی دوسری شادی ہو گئی تھی بال بچے دار ہیں بابا کو ماں کو چھوڑ دینے کا شدید پچھتاوہ تھا جب بھی ملتے ہیں یہی کہتے ہیں ماں کا کوئی قصور نہیں تھا بس پسند کی شادی جرم بن گئی میرے والدین اور بہن بھائیوں نے انہیں بسنے نہیں دیا ۔۔۔ ماں کی بہت قدر کیا کرو اسے کوئی تکلیف نہ پہنچانا ۔۔۔
آج نو دس سال ہوگئے ہیں مجھے انہیں باہر ملتے ہوئے ماں کو پتہ چلے تو پتہ نہیں کیسے ری ایکٹ کریں شائد صدمے سے مر جائیں میں انہیں تکلیف دینا نہیں چاہتا لیکن بابا کے سینے سے لگ کے ایسی شفقت کی لذت اور سائبانی کا احساس ملتا ہے جس سے میں اپنے بچپن میں محروم رہا تھا اس ملنے میں ایسی جادوئی کشش ہے کہ خود کو باز نہیں رکھ سکتا ۔۔ اس کشش اور لطف کا اندازہ وہ لوگ کر سکیں گے جو بچپن میں باپ سے محروم رہے ہوں اور بنا باپ کے سکول جاتے ہوں ہر طرف چلچلاتی دھوپ پھیلی ہو جن بچوں پہ ہر کوئی ترس کھاتا ہو پھر اسے اچانک سائبان مل جائے میں اپنے دوستوں کو فخریہ بتاتا کہ میرا باپ کتنا پیار کرتا ہے مجھ سے ۔
ایف ایس سی کے بعد جب میں یونیورسٹی گیا تو بس یہیں میرا بیڑا غرق ہوا مجھے ایک لڑکی اچھی لگنے لگی بس صرف اچھی ۔۔۔ اسکی باتوں میں جاذبیت تھی لہجے میں کوئل کوکتی تھی سُر بکھرتے تھے اگرچہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ الگ الگ تھے میں یہ روز اس کی اور کِھنچا چلا جاتا ہم گھنٹوں باتیں کرتے پھر وہ مجھے پسند آنے لگی ایک نادیدہ سے کشش کی ڈوری تھی جس میں ہم بندھ گئے یہ پسندیدگی کب محبت میں بدلی ہمیں پتہ ہی نہیں چلا ۔۔ پنکی بہت معصوم سی ہے دبلی پتلی اور نازک سی لیکن دل پہ پہاڑ جتنا غضب ڈھاتی تھی جس دن بال کھول کے آجاتی بن بادل برسات کا سماں بندھ جاتا ۔۔ ہم ایک ہی شہر سے تھے اور ڈے سکالر تھے یونی آنے جانے کے لئے میرے پاس بائیک تھی وہ وین سے آتی تھی ۔۔ ایک دن اسکی وین نکل گئی یونہی اسے چھوڑنے کی پیشکش میں ایڈریس سمجھنے میں بات کھل گئی کہ اس کا تعلق میرے بابا کے خاندان سے تھا وہ میری پھپھی کی بیٹی تھی ہم دونوں بیک وقت خوشی اور صدمے میں گھر گئے خوشی یہ تھی کہ وہ میری اپنی تھی ہم آپس میں فرسٹ کزن تھے صدمہ یہ کہ بابا کی پہلی شادی کی ناکامی کی وجوھات اور ذمہ داروں سے بھی واقف تھی اس لئے ہم کبھی ایک نہیں ہوسکتے ۔۔
جس دن سے پتہ چلا ہے وہ میرے باپ کی بہن کی بیٹی ہے جس نے میری ماں کے گھر کو توڑنے میں حصہ ڈالا تھا اس دن سے یہ ادراک ہوگیا ہے کہ وہ کبھی میری نہیں ہوسکتی لیکن دل اس شدت سے اس کا طلب گار بن گیا ہے کسی کروٹ چین نہیں آتا ۔۔ کئی بار سوچا اسے دل سے کھرچ کر پھینک دوں دھکے دے کے نکال دوں لیکن وہ عجیب طرح سے قابض ہوئی جاتی ہے محبت کی شدت ہر روز بڑھ جاتی ہے مجھے یقین ہے اگر وہ نہ ملی تو دل دھڑکنا چھوڑ دے گا مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں کیا کروں یونیورسٹی میں ہزاروں لڑکیاں تھیں میرے کمبخت دل کو اسی سے محبت ہونی تھی کبھی کبھی میں جھنجھلا جاتا ہوں جب سے ایکدوسرے کے رشتے کی حقیقت کھلی ہے ہم ہر وقت یہی سوچتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہوگا ہمارے سامنے ہی ہمارے کئی دوست اور کلاس فیلوز بنا رکاوٹ ازداوجی رشتے میں بندھ چکے ہیں اور خوشی خوشی زندگی بتا رہے ہیں یہ تکلیف ہمیں ہی کیوں اٹھانی پڑ رہی ہے ۔۔ ماں محبت کی شادی کے خلاف نہیں ہیں لیکن اس ڈائن کی بیٹی سے کبھی شادی کے لئے ہاں نہیں کریں گی جو انکی خوشیوں اور ازدواجی زندگی کو ڈس گئی تھی اور ماں کو تپتے صحرا میں بھٹکنے کے لئے اکیلا چھوڑ دیا تھا ۔۔ ماں نے اکیلے ہمیں کن دقتوں سے پالا ہے مجھے اس کا شدید احساس ہے ۔
ہم نے کئی بار سوچا اپنے قدموں کو روک لیں , موڑ لیں لیکن کچھ بھی بس میں نہیں ہے ایک دن وہ روتے ہوئے کہنے لگی ہماری شادی تو ممکن نہیں ہم اپنے بچوں کی شادیاں آپس میں کر کے نفرت کی اس لکیر کو پاٹ دیں گے ۔۔ میرا دل بھر آیا کیا ضروری ہے کہ اس کا شوہر اور میری بیوی بھی ایسا چاہیں اور کیا تب تک ہماری یہ محبت دلوں میں یونہی موجزن رہے گی ۔۔ اور اگر یہ سب فرض کر بھی لیا جائے تو ہمیں کیا ملے گا ہماری قسمت تو کھوٹی ہی رہے گی ہم ندی کے دو کنارے بن کے رہیں گے کم از کم میں تو کسی اور لڑکی کو اس کی جگہ پہ رکھ کے سوچوں تو وہاں جگہ خالی نہیں ہے میں یہ منافقت کر کے کسی اور لڑکی کی زندگی برباد نہیں کر سکتا اسے اس کا کوئی بھی حق نہیں دے سکتا ۔۔
ہمارے پاس بہت سے ممکنہ راستے ہیں میرے بابا شادی کروا دیں گے ۔۔ ہم کورٹ میرج کر سکتے ییں ہم کسی اور شہر میں بس جائیں گے لیکن میں ماں کو تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا اسکی قربانیوں کو ضائع نہیں کرنا چاہتا ورنہ آئندہ سنگل مائیں بچوں کی تعلیم و تربیت سے ہاتھ اٹھا کے اپنی زندگی کو اہم سمجھ کے بچوں کو نظر انداز کر دیا کریں گی ۔ میں جانتا ہوں اگر ماں ہمارے لئے اپنی زندگی قربان نہ کرتی تو ہم تینوں بہن بھائی اپنی ٹوٹی پھوٹی شخصیات کے ساتھ معاشرے پہ ناسور بن کے جی رہے ہوتے اور اگر پنکی نہ ملے تو میں ٹوٹ جاؤں گا ۔۔ آپکے قاری میرے لئے کوئی حل تجویز کریں میں مرنا نہین چاہتا کوئی مجھے مائنس ماں یا مائنس پنکی والی صلاح نہ دے پنکی کو بھولنے کا مطلب ہے دل کو دھڑکنے سے جبراً روک دینا ۔۔
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...