ایک مختصر انشائیہ
"دیہاتیوں کی مَنجھی"
دروغ بر گردنِ حسن نثار "مسلمانانِ برِصغیر کی اب تک کی سب سے بڑی ایجاد چارپائی یعنی منجھی ہے"۔ لیکن ہمارا ماننا ہے کہ برصغیر کے مسلمان منجھی ایجاد کرنے کے علاوہ ایک دوسرے کی منجھی ٹھوکنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے، البتہ اپنی اپنی منجھی تلے ڈانگ پھیرتے ہوئے انہیں کم ہی دیکھا گیا ہے۔
منجھی ہمارے دیہاتوں کی سب سے نمایاں سماجی اور ثقافتی علامت ہے (حقّے اور تندور کا نمبر اس کے بعد آتا ہے)۔ دیہاتیوں کی زندگی میں اس سے بڑھ کر منجھی کی اور کیا اہمیت ہوگی کہ ایک دیہاتی پیدا ہونے اور پھر وفات پانے کیلئے بھی منجھی ہی کا انتخاب کرتا ہے اور غالب گمان یہی ہے کہ اگلے جہان بھی جنت میں اس شرط پر داخل ہوتا ہوگا کہ اسے کسی باغِ بہشتی میں توت کی چھاؤں تلے بان کی چارپائی پر گاؤ تکیہ سجا کر دیا جائے تاکہ وہ سفر ہائے خار زارِ دنیا کی تھکن اتار سکے۔
کہتے ہیں ایک مسلمان اگر ملحد بھی ہو جائے تب بھی اپنا فرقہ نہیں چھوڑتا بلکل اسی طرح ایک دیہاتی اگر امریکہ میں بھی منتقل ہو جائے تو اسے منجھی کے بغیر کسی جگہ سکون کی نیند نہیں آتی۔
میرے ایک شادی شدہ دوست (جو میرے ساتھ یکطرفہ طور پر فری ہے) کا بیان ہے کہ:
حقوقِ زوجیت ادا کرنے کا جو لطف بان کی منجھی پر آتا ہے وہ دنیا کے کسی بیڈ یا صوفے پر ممکن ہی نہیں، بشرطے کہ منجھی کھٹملوں سے پاک ہونی چاہئے، ورنہ ایسی صورت میں؛ بقول اکبر الہ آبادی:
اس قدر تھا کھٹملوں کا چارپائی میں ہجوم
وصل کا دل سے مرے ارمان رخصت ہو گیا
ہمارے دیہاتوں میں جب دو برادریوں کے درمیان بوجوہ شدید اختلاف ہو جائے تو گاؤں کے چوھدری کے ڈیرے پر ایک 'گول منجھی کانفرنس' بلائی جاتی ہے جو کبھی بھی بےنتیجہ ختم نہیں ہوتی کیونکہ فریقین عموماََ ہاتھا پائی پر اتر آتے ہیں اور اپنی اپنی منجھیوں کے پاوے نکال کر ایک دوسرے پر خوب پاوا آزمائی کر کے اس کانفرنس یعنی سَتھ کو نتیجہ خیز بنانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔
دیکھا گیا ہے کہ پولیس کیسوں میں بھی جہاں ایک شہری قاتل سے آلہ قتل کے طور پر عموماََ ٹی ٹی پسٹل یا چاقو وغیرہ برآمد ہوتا ہے وہیں ایک دیہاتی قاتل سے عموماََ منجھی کا پاوا ہی برآمد کیا جاتا ہے۔
ہمارے بچپن میں چاچا بخشو نامی ایک کردار ہوا کرتا تھا اس کی ایک بری عادت تھی کہ اکثر چھوٹے لڑکوں کی محفل میں بن بلایا مہمان بن کر آ دھمکتا اور انکی پرائیویٹ گفتگو میں مخل ہوتا، یعنی رنگ میں بھنگ ڈال دیتا۔ ایک دفعہ لڑکوں کو شرارت سوجھی، انہوں نے چاچے کی آمد سے قبل ایک بغیر بان کی اندر سے کھوکھلی منجھی پر چادر بچھا دی، ادھر چاچا بخشو آیا اور بڑی ہی رعونت کے ساتھ حسب معمول منجھی کی طرف لپکا، لیکن جیسے ہی اس نے تشریف رکھی دھڑام سے نیچے گِرا اور اسکا سر منجھی کے پاوے سے جا ٹکرایا۔۔۔ اس واقعے کے بعد وہ اپنے گھر میں بھی کسی چادر بچھی منجھی پر بیٹھنے سے اجتناب برتنے لگا۔
سوچتا ہوں آج کل جس طرح یہ کرپٹ سیاست دان گھر گھر جا کر ووٹ مانگ رہے ہیں ان کو بھی اگر لوگ بیٹھنے کیلئے ایسی ہی کوئی منجھی پیش کریں تو امید ہے اگلی بار یہ ووٹ مانگ کر شرمندہ نہیں ہونگے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“