ڈیجیٹل خطّاطی اور والد صاحب
کمپیوٹر سکرین پرمختلف ٹولز کے ذریعے حروف تراشنا ڈیجیٹل خطاطی کہلاتا ہے۔ یہ تاریخی چیز نہیں بلکہ اس کی تاریخ بن رہی ہے۔ اچھے ڈیزائنر خود ساختہ اسالیب میں الفاظ بناتے رہتے ہیں اورایڈورٹائزنگ کمپنیوں کی تو یہ مستقل ضرورت ہے،کیونکہ جدت طرازی ان کے پیشے کی جان ہے۔ تاہم کلاسیکل اسالیب میں ایسی کوشش کم ہی دیکھنے میں آتی ہےکیونکہ کمپیوٹر میں اوریجنل خطاطی ہی کو ٹریس لیا جاتا ہے یا پھر فانٹس کا استعمال کیا جاتا ہے۔
لیکن کیا یہ ٹریسنگ واقعی خطاطی کا بدل ہو سکتی ہے؟
یہ اہم سوال ہے،اور اس کا جواب ہے: ’’تقریباً‘‘۔
ایسی شخصیات جو فن سے گہری وابستگی رکھتی ہیں،آٹوٹریسنگ کے رزلٹ سے مطمئن نہیں ہیں۔اس میں اسکیننگ کی کمزوری اور ٹریسنگ ٹولز کی کمزوری کے مقابل وسیع زومنگ رینج بڑا چیلنج ہےکیونکہ اگر کوئی لفظ صد فی صد درست نقل کر بھی لیا جائے تو اس کاہر ہر سائز میںدرست نظر آنابہرحال محال ہے۔
فانٹ سازی کے حوالے سےدیکھا جائے تو درست بات تو یہی ہے کہ جو لفظ جس سائز میں خطّاط نے لکھا،اُسی سائز میں اسے استعمال بھی کیا جائے،تاہم عملًا ایسا نا ممکن ہے۔
اس صورت حال سے اس بات کا جواز پیدا ہو تا ہے کہ جدید ڈیجیٹل میڈیا کے استعمال کے لیے ہمیں بہترین ٹریسنگ رزلٹ کو مزید درمزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے،تاکہ ایک خطاطانہ سائز پر کیا گیا کام کئی ایک سائزوں تک کا رآمد رہ پائے۔
والد گرامی قدر جناب نصراللہ مہر صاحب تیس سال تک عملاً خطاطی سے منسلک رہے اور اب گزشتہ بارہ چودہ سال سےفونٹ سازی میں سرگرم ہیں۔ والد صاحب ٹریسنگ کے کسی پروگرام سے کبھی مطمئن نہیں ہوئے بلکہ وہ مینوئلی ٹریسنگ کے بعد نظری تقابل کے قائل ہیں۔تاہم ان کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل خطاطی میں دھوکےبھی بہت ہیں،جب لائن صاف ہوجاتی ہے تو لفظ خواہ مخواہ اچھے نظر آنے لگتے ہیں،حالانکہ زاویے درست نہیں ہوتے۔ چنانچہ خطاطی میں وہ نظری مشق کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔
چند ماہ پہلے جب وہ حضرت نفیس شاہ صاحب ؒ کے قلم خفی کے شاہکار دیوانِ غالب پر کام کر رہے تھے تو مجھے اشکال اور خط کے مجموعی تأثر پر با ر بار اعتراض ہوتا رہا،لیکن والد صاحب بضد تھے کہ شاہ جی کا انداز یہی ہے۔چنانچہ جب فونٹ کا بنیادی سٹرکچر تیار ہو گیا تو بھی میری اجنبیت تا دیر قائم رہی،تاہم جب کچھ اشعار ٹائپ کر کے حضرت شاہ جی کی خطاطی سے تقابل کیا گیا تو میرے وسوسے دُور ہوئے۔والد صاحب کہتے ہیں کہ جب اس فانٹ میں ۲۴ پوائنٹ سے آگے لکھا جائے گا تو خطاطانہ تأثر ختم ہوتا جائے گا۔
الحمد للہ والد صاحب کے اس کا م کو خطاطوں نے بھی بہت سراہا اور خصوصًا شاہ جی کے تلمیذِ خاص جناب جمیل حسن صاحب نے والد صاحب کو فون کر کے مبارک باد دی اوراپنے مسرت کا اظہار کیا۔
والد صاحب کوکَروْز کے پیچ و خم پرپورا عبور حاصل ہے۔ان کےڈیجیٹل خطوط کے آئنے میںمیں کلاسیکل چہرے اپنی اصلی آب و تاب سے نظر آتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ وہ دستیاب قلم اور ریزولیشن میں خاص تناسب قائم کر کے کام کرتے ہیں۔نیز لائن ورک کے علاوہ وہ ڈبل لائن ٹول( کورل ڈرا میںکیلی گرافک ٹول) سے بھی الفاظ تراش لیتے ہیں،حالانکہ اس میں قلم کی گردش نہیں پائی جاتی۔
آج کل والد صاحب سلطان الخطاطین جناب حافظ محمد یوسف سدیدی ؒ کے خطوط میں محو ہیں ،چنانچہ ان کے تازہ نمونوں میں حضرت سدیدی صاحب کا رنگ نمایاں ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ ان کی یہ مشغولیت اور شوق برقرار رہے تو مشتاقانِ خط کو کئی بڑے اساتذہ کرام کے اسالیب فن کے عکس نظر نواز ہوں گے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“