( ' ڈائجسٹ ' کیا ہے ؟ پاکستان میں اس کا ارتقاء اور موجودہ صورت حال )
ڈائجسٹ (Digest ) کے لغوی معانی ویسے تو ایک سے زیادہ ہیں لیکن جن معانوں میں یہ ' تحریر ' کے ساتھ جڑا ہوا ہے اس کا مطلب انفرمیشن کی کمپائلیشن یا تحریری مواد کی تلخیص (a compilation or summary of material or information) ہے ۔
اس کا رواج سب سے پہلے یورپ میں بیسویں صدی کے اوائلی دہائیوں میں پڑا تھا جن میں سب سے اہم The English and Empire Digest تھا جو غالباً 1919 ء میں چھپنا شروع ہوا تھا یہ قانونی مقدمات کا ڈائجسٹ تھا ۔
' ریڈرز ڈائجسٹ ' (Reader's Digest) شاید ادب سے براہ راست یا بلا واسطہ جڑا پہلا ' ڈائجسٹ ' ہے جو امریکہ کے شہر نیو یارک سے 1922 ء میں ' ڈیوِٹ ویلس ' اور اس کی بیوی ' لیلا بیل ویلس نے فروری میں پہلی بار شائع کیا تھا ۔ ان کا مطمع نظر یہ تھا کہ مختلف موضوعات پر چھپی عوام کی پسندیدہ تحاریر کو یکجا کرکے ایک میگزین میں چھاپا جائے ۔ ایسا کرتے وقت وہ کئی تحاریر کو مختصر بھی کرتے تھے یا ان کی تلخیص یا پھر اس کا نچوڑ ( abstract ) نکال کر شامل ِرسالہ کیا کرتے تھے ۔ یہ ' ڈائجسٹ ' اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک امریکہ میں ' best-selling consumer magazine ' کے طور پر جانا جاتا رہا ۔ اس کے بعد سے دیگر اسی طرح کے ڈائجسٹوں کے آنے کے بعد اس کا یہ مقام چھن گیا اور 2016 ء میں اس کی اشاعت گھٹتے گھٹتے 25 لاکھ رہ گئی ( یاد رہے کہ ریڈرز ڈائجسٹ پہلے شمارے سے ہی ' رجعت پسند ' اور ' انٹی کمیونسٹ ' سوچ کا حامل رہا ہے ) ۔
پاکستان کے وجود میں آتے ہی یہاں سب سے پہلا ڈائجسٹ ' پاکستان ڈائجسٹ ' نکلا ۔ اس کے بانی مولانا حسرت موہانی کے بھائی ' متین موہانی ' تھے ۔ لیکن یہ ڈائجسٹ مالی مشکلات اور پذیرائی نہ ہونے کے باعث چل نہ سکا ۔ اس کے چند شمارے ہی نکل پائے اور یہ 1948 ء کے آغاز میں ہی بند ہو گیا ۔
لگ بھگ دس سال کے وقفے کے بعد 1957 ء میں اعجاز حسن قریشی ،الطاف حسین قریشی اور ملک ظفر اللہ خان نے ' اردو ڈائجسٹ ' کو جاری کرنے کے کام کا آغاز کیا ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب پاکستان کے درمیانے اور نچلے درمیانے طبقے میں مذہبی و سیاسی جماعت ' جماعت اسلامی ' کا اثر بہت نمایاں تھا اور ان تینوں کی وابستگی بھی اسی جماعت کے ساتھ تھی ۔ تین سال تک یہ ' ڈائجسٹ ' پاکستان کی پڑھی لکھی آبادی کی توجہ حاصل نہ کر سکا لیکن پیچھے جماعت اسلامی کا مضبوط مالی ہاتھ تھا ، یہ sustain کرتا رہا ۔ 1960 کی دہائی کے آغاز سے اس ' ڈائجسٹ ' نے مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانی شروع کی اور اس نے پاکستان کے پہلے کامیاب اور واحد ' ڈائجسٹ ' کی شکل اختیار کی ۔
1961 ء میں اس ' ڈائجسٹ ' کی ٹیم میں سے عنایت اللہ جیسے کچھ لوگ ٹوٹے اور انہوں نے اپنا الگ ' ڈائجسٹ ' نکالنے کا منصوبہ بنایا جو ' سیارہ ڈائجسٹ ' کی شکل میں سامنے آیا ۔
ان دونوں ڈائجسٹوں کا مقصد جماعت اسلامی کی فکر کو ادب میں ملفوف کرکے پیش کرنا تھا ۔ یہ ایسی ہی تحاریر کو چھاپتے جو مودودی کی ' تقہیم القران ' سے لگا کھاتی تھیں یا benign ہوتیں ۔ ضیاءالحق کے دور میں انہیں اس آمر کی حمایت بھی حاصل رہی ۔ اب ان کا ٹارگٹ واضع طور پر ' سویت یونین ' بھی بن چکا تھا جس کے خلاف ضیاء امریکہ کے ایماں پر طالبان کھڑے کر رہا تھا اور ملک میں ایک مذہبی جنونینت کو پروان چڑھا کر امیرالمومینین بننے کے خواب دیکھ رہا تھا ۔ یہ دونوں ابھی بھی اسی مخصوص ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں ۔ ان میں مذہب کو مرکز مان کر نیا لکھا کام زیادہ اور compilation کم ہوتی تھی اور ہے ۔
نامور شاعر جون ایلیا ( رئیس امروہوی اور سید محمد تقی کے چھوٹے بھائی ) 1957 ء میں کراچی آ کر آباد ہوئے تھے ، گو وہ نظریاتی اعتبار سے اپنے بھائی سید محمد تقی کی طرح کمیونسٹ تھے لیکن اسماعیلی فرقے کے ' آئی ٹی آر ای بی (Ismaili Tariqah and Religious Education Board) کے ایک سب ۔ مدیر ہونے کے علاوہ ادبی رسالہ ' انشاء ' بھی نکالا کرتے تھے ۔ شکیل عادل زادہ بھی ان کے ہمراہ تھا ۔ یہی ' انشاء ' بعد میں ' عالمی ڈائجسٹ ' کی شکل اختیار کر گیا جو ایک لحاظ سے حقیقی معانوں میں ادبی ' ڈائجسٹ ' تھا ۔ اس میں سجاد حیدر یلدرم سے لے کر منشی پریم چندر ، منٹو ، بیدی ، کرشن چندر ، عصمت ، قرۃ العین حیدر و دیگر ادباء کی تحریروں کے علاوہ عالمی ادب سے بھی انتخاب ہوا کرتا تھا ۔ لیکن اردو و سیارہ ڈائجسٹ کی طرح یہ بھی نئے لکھنے والوں کو جگہ دیتا تھا جو ایک لبرل سوچ کے ساتھ لکھتے تھے ۔
شکیل عادل زادہ نے جون ایلیا سے اپنے راستے جدا کئے اور ' سب رنگ ڈائجسٹ ' کی بنیاد رکھی ۔ اسے آصف فرخی اورشوکت صدیقی جیسے ادباء کا تعاون حاصل تھا ۔ یاد رہے جانگلوس پہلے اسی میں قسط وار شائع ہوا تھا ۔
ابن انشاء کا خاندان بھی میدان میں آیا اور ان کے بھائی محمود ریاض نے ' خواتین ڈائجسٹ ' چھاپنا شروع کیا ۔
چل سو چل پاکستان میں ڈائجسٹوں کی تعداد 200 کو چھونے لگی ، compilation کم سے کم اور نئی تحاریر زیادہ سے زیادہ ہو چکی تھیں ۔ اکیسویں صدی کے شروع ہونے پر ان کی تعداد میں بوجوہ کمی آنا شروع ہوئی اور وہی ڈائجسٹ زندہ رہ سکے جن کے پیچھے ' ڈوریاں ہلانے والے ہاتھ ' مضبوط تھے ۔
اب ان کا مرکزی ٹارگٹ پاکستان کی خواتین تھیں ، جس کا راستہ محمود ریاض نے کھولا تھا ۔ یہی کارن ہے کہ اس وقت خواتین کے لئے نکلنے والے ' ڈائجسٹ ' سب سے زیادہ اور پالولر ہیں ۔ عمیرہ احمد اور نمرہ احمد جیسی خواتین لکھاریوں نے پالولر ادب کی وہ شکل استوار کر دی جس میں مذہب ، سماجی قیود اور اس سے جڑی اخلاقیات کو مرکز بنا کر اس سوچ کو آگے بڑھایا جاتا ہے جس کا پودا جماعت اسلامی نے ' اردو ڈائجسٹ ' اور ' سیارہ ڈائجسٹ ' کے ذریعے لگایا تھا ۔ خواتین کی مارکیٹ کو ٹارگٹ کرنے والے ڈائجسٹوں کے بعد دوسرے نمبر پر روحانی اور تیسرے پر جاسوسی و سپپنس چھاپنے والے ' ڈائجسٹ ' ہیں ۔
سن 2010 ء کے بعد سے ڈائجسٹوں کو چھاپنے کے رجحان میں پھر سے تیزی آئی ہے اور بڑے شہروں سے نکلنے والے ' ڈائجسٹوں ' کے علاوہ یہ اب چھوٹے شہروں اور قصباتی سطح پر بھی نکلنا شروع ہو گئے ہیں ۔ ان میں ٹارگٹ مارکیٹ ' خواتین ' ہی ہیں ۔
میری ایک دوست ان ڈائجسٹوں کے بارے میں کہا کرتی ہے کہ ان کی مار وہاں تک ہے جہاں ' ڈرون ' بھی نہیں پہنچ پاتا ۔
https://www.facebook.com/qaisar.khawar/posts/10153716669161895