رات دس بجے رڈولف ڈیزل کا شب خوابی کا لباس ان کے بستر پر پڑا تھا لیکن اس رات انہوں نے وہ لباس نہیں پہنا۔ ڈیزل ان قرضوں کا سوچ رہے تھے جن کی واپسی کا وقت قریب تھا اور ان کے پاس ادائیگی کا طریقہ نہیں تھا۔ یہ 29 ستمبر 1913 کا دن تھا جس پر انہوں نے اپنی ڈائری میں بڑے X سے نشان لگایا تھا۔
وہ باہر جانے لگے تھے۔ اس سے پہلے انہوں نے اپنا سارا کیش ایک بیگ میں ڈالا۔ اس کے ساتھ وہ دستاویزات بھی جو یہ بتاتی تھیں کہ وہ کس مالیاتی مشکل میں گرفتار تھے۔ یہ بیگ انہوں نے اپنی اہلیہ کو دیا اور کہا کہ اس کو ایک ہفتے تک نہ کھولیں۔ ڈیزل باہر نکلے۔ اپنا کوٹ اتارا، اس کو تہہ کر کے ایک طرف رکھا۔ نیچے سیاہ پانی کو بھنور بناتے دیکھا اور چھلانگ لگا دی۔۔۔
یا شاید چھلانگ نہ لگائی ہو۔ رڈولف ڈیزل کی موت پر کئی سازشی تھیوریاں ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ انہوں نے یہ چھلانگ خود نہیں لگائی تھی۔ لیکن کس کو ایک مفلس موجد کی زندگی ختم کرنے میں دلچسپی ہو سکتی ہے؟ شاید یہ بے بنیاد ہی ہوں لیکن یہ تھیوریاں ہمیں یہ سمججنے میں مدد کرتی ہیں کہ ان کی ایجاد کس قدر اہم تھی۔ ڈیزل انجن کے موجد کی اپنی زندگی کا خاتمہ اس روز ہو گیا۔ 1892 میں کی گئی ان کی ایجاد اس دنیا کو متحرک رکھے ہوئے ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا پس منظر سمجھنے کے لئے ہم وقت میں بیس سال مزید پیچھے 1872 میں چلتے ہیں۔ صنعتی معیشت میں ٹرین اور فیکٹری کو تو بھاپ چلاتی تھی۔ لیکن شہری نقل و حمل کا کام گھوڑوں کے پاس تھا۔ اور اس سال خزاں میں گھوڑوں میں پھیلنے والی فلو کی وبا نے بڑے شہروں میں تباہی مچا دی تھی۔ پرچون کی دکانیں خالی پڑی تھیں۔ ریسٹورنٹ بند ہو گئے تھے۔ کوڑا کرکٹ سڑکوں پر پڑا تھا۔ پانچ لاکھ کی آبادی کے شہر کو چلانے کے لئے ایک لاکھ گھوڑے درکار تھے۔ اور یہ گھوڑے اپنے فضلے سے شہر کی سڑکوں کو بھر دیا کرتے تھے۔ ایک سستا اور قابلِ اعتبار چھوٹا انجن وقت کی پکار تھی۔
ایک امیدوار سٹیم انجن تھا۔ سٹیم کی طاقت سے چلائی جانے والی گاڑیاں بھی نمودار ہو رہی تھیں۔ اس کے مقابلے میں انٹرنل کمبسشن انجن تھا۔ جب ڈیزل طالبعلم تھے تو دونوں قسم کے انجن بالکل بھی ایفی شنٹ نہیں تھے۔ یہ حرارت میں سے صرف دس فیصد کو مفید کام میں تبدیل کر سکتے تھے۔
ڈیزل نے میونخ میں تھرموڈائنامکس پر لیکچر سنا جس میں انجن کی ایفی شنسی کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ یہ ان کی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوا۔ ڈیزل کو ایسا انجن بنانے کا جنون سوار ہو گیا جو تمام حرارت کو توانائی میں بدل سکے۔ ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں لیکن انہوں نے ایسا انجن بنا لیا جس کی ایفی شنسی پچیس فیصد تھی۔ (آج کے ڈیزل انجن پچاس فیصد کے قریب ہیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پٹرول کے انجن میں ایندھن اور ہوا کے مکسچر کو دبایا جاتا ہے اور پھر سپارک پلگ سے اس کو شعلہ دکھایا جاتا ہے۔ اگر اس کو زیادہ دبا دیا جائے تو یہ پہلے سے جل سکتا ہے اور انجن ناکنگ کرتا ہے۔ ڈیزل کے انجن میں جلانے والا کام صرف ہوا کو کمپریس کر کے کیا جاتا ہے۔ جتنی زیادہ کمپریشن ہو، ایندھن اتنا کم استعمال ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ڈیزل انجن ایندھن کے استعمال میں کفایت شعار ہوتے ہیں اور بھاری گاڑیاں تو عام طور پر صرف انہی پر چلتی ہیں۔
رڈولف ڈیزل کی بدقسمتی یہ رہی کہ ان کے ابتدائی انجن زیادہ قابلِ اعتبار نہیں تھے۔ گاہکوں نے یہ واپس کرنا شروع کر دئے اور اس نے انہیں مالیاتی تباہی کی طرف دھکیل دیا جس سے وہ نہیں نکل سکے۔ اور یہ ایک عجیب ستم ظریفی ہے۔ جدید دنیا کی سب سے عملی مشین کے موجد جس کی ایجاد کے سہارے جدید معیشت چلتی ہے، ان کا یہ شوق پیسے کمانے کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک لیکچر کو عملی صورت پہنانے کا تھا۔ اور پیسے کمانے میں بھی وہ بری طرح ناکام رہے۔
وہ اپنا انجن بہتر کرتے رہے۔ اس کے دوسرے فوائد سامنے آنے لگے۔ یہ انجن زیادہ بھاری ایندھن پر کام کر سکتا تھا۔ اس کی ریفائننگ کا خرچ کم تھا۔ اور یہ کم بخارات دیتا تھا۔ اس وجہ سے حادثاتی طور پر آگے پکڑنے کا امکان بھی کم تھا۔اس وجہ سے ملٹری ٹرانسپورٹ کے لئے پرکشش تھا۔ (آپ کی خواہش ہو گی کہ بم والی ٹرانسپورٹ غلطی سے آگ نہ پکڑ لے)۔ ڈیزل انجن 1904 میں فرانس کی آبدوزوں تک پہنچ گیا۔
اور یہ ہمیں ڈیزل کی موت کی پہلی سازشی تھیوری کی طرف لے جاتا ہے جس کے مطابق انہیں اس لئے مارا گیا کہ وہ اپنی ٹیکنالوجی برطانیہ کو نہ بیچ سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد جا کر ڈیزل کی ایجاد مقبول ہوئی جب یہ بھاری ٹرانسپورٹ کے لئے کام آنے لگی۔ پہلے ٹرک 1920 کے بعد، ٹرین 1930 کی دہائی میں، جبکہ دوسری جنگِ عظیم کے آغاز تک عالمی تجارت میں استعمال ہونے والے ایک چوتھائی بحری جہاز ڈیزل پر تھے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد ڈیزل نے بہت بڑے بحری جہازوں کو بنانا ممکن کیا۔ ڈیزل انجن واقعی عالمی تجارت کا انجن ہے۔
ٹرانسپورٹ کی لاگت کا ستر فیصد ایندھن کی لاگت ہے۔ اور یہ ایک دلچسپ سوال کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ انٹرنل کمبسشن کے ساتھ ہی کیوں ہوا اور بھاپ کے انجن کے ساتھ کیوں نہیں۔ برائن آرتھر اس کی وجہ path dependence کو بتاتے ہیں۔ یہ ایک دوسرے کو سپورٹ کرتا ہوا چکر تھا۔ زیادہ سرمایہ کاری اس میں ہوئی، زیادہ بہتری اس میں آئی اور یہ بہتر ہوتا چلا گیا۔ ہمیں معلوم نہیں کہ اگر بھاپ کے انجن میں اتنی سرمایہ کاری ہوئی ہوتی تو یہ کس رخ میں کس طریقے سے جاتا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ راستہ بند گلی ثابت ہوتا لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ہم اگلی جنریشن کی بھاپ کی گاڑیاں استعمال کر رہے ہوتے۔
ڈیزل نے اپنا انجن کئی اقسام کے ایندھن پر چلانے کے ڈیزائن کئے تھے۔ کوئلے کا پاوڈر، سبزیوں کا تیل۔ 1900 میں انہوں نے پیرس میں ایک ماڈل دکھایا جو مونگ پھلی کے تیل پر چلتا تھا اور یہ رڈولف ڈیزل کا سب سے بڑا شوق رہا۔ ان کا خیال تھا کہ مستقبل مونگ پھلی کا ہے۔
یہ ایجاد یقینی طور پر مونگ پھلی کے کھیت والوں کے لئے تیل کے کنویں والوں کی نسبت زیادہ مفید تھی اور یہ دوسری سازشی تھیوری کی وجہ بنی جس کے مطابق انہیں تیل کے کنویں والوں نے مارا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بائیوڈیزل میں دلچسپی اکیسویں صدی میں واپس آئی لیکن یہ متنازعہ ہے۔ یہ فوسل فیول کے مقابلے میں کم آلودگی پھیلاتا ہے لیکن یہ زرعی اراضی کے لئے اسی زمین کا تقاضا کرتا ہے جہاں خوراک اگائی جاتی ہے اور اس سے خوراک کی قیمت مہنگی ہو جاتی ہے۔ رڈولف کے وقت میں زمین اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھی کیونکہ دنیا کی آبادی کم تھی۔ رڈولف کا خیال تھا کہ ان کا انجن غریب زرعی معیشتوں کے لئے مفید ہو گا۔ اگر سو سال پہلے یہ انجن مونگ پھلی کے تیل سے اتنی ہی ایف شنسی سے چلایا جا سکتا تو کیا دنیا مختلف ہوتی؟ زمین میں چھپے تیل کے بجائے مونگ پھلی اگانے والی زمین پر شاید جنگ ہوتی؟
ہم اندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔ ویسے ہی جیسے ہم صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ رڈولف ڈیزل کے ساتھ کیا ہوا۔ جب ان کی لاش دس روز بعد ایک کشتی نے دیکھی تو یہ بہت بری حالت میں تھی۔ کشتی کے عملے نے اس کا معائنہ کر کے ان کی جیکٹ سے بٹوہ، چاقو اور عینک کا کیس نکال لیا۔ لاش واپس پانی کے حوالے کر دی۔ ڈیزل کے بیٹے نے ان کی مدد سے اپنے والد کی شناخت کی۔ موجد کا جسم واپس لہروں نے نگل لیا تھا۔