رپورٹ پروگرام نمبر ۲۰۴ بعنوان ڈکشن
Diction
بولنے یا گانے میں الفاظ کی ادائیگی کا انداز
تقریر یا تحریر میں الفاظ اور فقروں، جملوں کے انتخاب میں کوئی مخصوص انداز یا رجحان۔
لفظ Dictionary بھی اسی سے ہے جس کا معنی ہے لغت،
کتاب اللُّغات: جس میں الفاظ عموماً ترتیب تہجی کے ساتھ اور ان کے معنی یا کسی دوسری زبان میں ان کے مترادفات درج ہوتے ہیں۔ فرہنگ، قاموس بھی اس کے معانی ہیں۔
یعنی کسی بھی موضوع پر ایسی حوالہ جاتی کتاب جس میں ترتیب تہجی سے اندراجات کئے جائیں۔
Dictionary of architecture یعنی قاموس التعمیرات۔
انسان باہمی میل ملاقات اور ربط نیز ایک دوسرے کی بات اور کلام سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بچے اپنے والدین کی نقل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بچوں کی شکلوں میں والدین اور دیگر رشتہ داروں یعنی خالہ، پھوپھی، چچا، تایا، ماموں اور دادا دادی کی شباہت بھی رکھی ہوتی ہے۔ اندازِ گفتگو، اٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ و طریقہ نیز عادات و اطوار اور کھانے پینے میں پسند ناپسند بھی اکثر بچےوالدین اوررحمی رشتہ داروں سے ہی لیتے ہیں۔ اگر والدین کا خاص کوئی سٹائل ہو تو بچے بھی اسے نادانستہ اپنا لیتے ہیں۔
ماہرین حیاتیات کا ماننا ہے کہ یہ اوصاف کسی بھی خاندان سے بچے کے جینز میں موجود ڈی این اے اور آر این اےمیں منتقل ہوتے ہیں۔ حتی کہ بچے بعض بیماریاں بھی لے کر پیدا ہوتے ہیں جنہیں موروثی بیماریاں کہا جاتا ہے کیونکہ ان کے خاندان کے بزرگوں میں سے کسی نہ کسی کو وہ بیماری لاحق ہوتی ہے جو ڈی این اے اور آر این اے کے ذریعہ بچے میں منتقل ہو جاتی ہے۔ بعینہٖ ایک دوسرے کے کلام سے اکتساب کرنے پر عیوب و محاسن بھی کلام میں در آتے ہیں۔
انسان چونکہ ایک سماجی جاندار ہے اس لئے معاشرہ میں باہم میل ملاقات، گفتگو یا ایک دوسرے کی بات سننےسے ایک دوسرے کی عادات اور بات کرنے کا انداز اپنانے میں دیر نہیں لگتی۔ اکثر بچے اپنے اساتذہ یا ساتھی طلبا کا انداز بھی اپنا لیتے ہیں۔
دانستہ و نادانستہ سیکھنے سکھانے اور اپنانے کا یہ باہمی سلسلہ تعلقات کے دائرے کی وسعت کے مطابق وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس دائرہ میں بعض عارضی انداز اپنائے جاتے ہیں جن کا اثر کچھ عرصہ تک قائم رہتا اور پھر ختم ہو جاتا ہے یا اس کا کوئی اچھا متبادل مل جاتا ہے جو پہلی عادت کی جگہ لے لیتا ہے۔یوں عادات کے پہناوے کی اُترن ایک دوسرے سے مستعار لی جاتی اور پھر استعمال کر کے واپس کر دی جاتی ہے۔
جبلت اور اخلاق:
ذرا سا غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ جانداروں میں کچھ مستقل عادات ہوتی ہیں اور کچھ ایسی جو وہ اپناتے اور چھوڑتے رہتے ہیں یا بالفاظِ دیگر ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔
جبلّت وہ مستقل عادت ہے جو کسی کے بھی روزمرہ میں اللہ تعالیٰ نے لکھ رکھی ہے جیسے کھانا پینا، سونا جاگنا، سانس لینا، گرمی سردی محسوس کرنا وغیرہ۔ بحیثیت مجموعی ہر ایک جاندار میں خالق ازلی نے یہ جبلتیں رکھ چھوڑی ہیں اور ان کے مطابق سبھی جاندار اپنی زندگیاں ایک مستقل دائرۂ کار میں گزارتے ہیں اور ان کے شب و روز کم و بیش ایک ہی دائرے میں گھومتے گزرتے ہیں۔
ارتقائے ذہنی کے اعتبار سے انسان وہ حیوانِ ناطق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے شعور و عقل عطا فرما کر دیگر جان داروں سے ممتاز کر کے اشرف کہا ہے۔ گویا جبلت کے ساتھ ساتھ کردار بھی عطا فرمایا اور اس کردار کو منقش کرنے کے لئے عقل بھی عطا فرمائی۔ عقل عربی کا لفظ ہے اور اس رسے کو عقل کہا جاتا ہے جس سے عرب لوگ یا دیگر خطۂ ارض میں رہنے والے کسی بھی جوان او ر اڑیل گھوڑے کو سدھانے کے لئے اس کی گردن میں باندھتے اور دوسری طرف ایک مضبوط کیلے سے باندھ دیتے ہیں جو کیلے اور گھوڑے کی گردن تک رداس بناتا اور بعد میں ایک بڑے دائرے کا محیط قائم کرنے کا باعث ہوتا ہے۔ یہ رسا نسبتاً لمبا اور مضبوط ہوتا ہے تا کہ گھوڑا اپنی طاقت استعمال کر کے اسے توڑ کر بھاگ نہ نکلے۔ پھر سدھانے والا چابک لے کر گھوڑے کی پشت پر وار کرتا ہے اور گھوڑا سرپٹ دوڑتا ہے لیکن وہ اس رداس کے مطابق ایک دائرے کا محیط بناتا اور اس دائرے میں ہی بھاگ سکتا ہے اس سے باہر نہیں نکل سکتا۔ اس رسے کو عربی میں عقل کہتے ہیں۔ گویا خالق نے تخلیق کے بعد ربوبیت کا جو مظہر دکھایا وہ یہ ہے کہ کروڑ ہا مخلوقات میں سے صرف انسان کو حیوان ناطق بنایا اور عقل و شعور عطا فرما کر ایک دائرے کا محیط عطا کر دیا کہ اسی دائرۂ کار میں رہنا ہے اور ساتھ بتا بھی دیا کہ اس دائرےسے نکل نہ سکو گےاور اگر کوشش کر سکتے ہو تو بصد شوق کر بھی لینا۔ چنانچہ انسان اسی زمین پر پیدا ہوتااور اپنے حصہ کے کام سرانجام دیتا اور اسی ارض پر وفات پا کر اسی کے دامن میں سما جاتا ہے۔
جب انسان ابھی جنگل میں زندگی گزر رہا تھا تو تہذیب و تمدن سے عاری تھا۔ پھر جب اسے لباس عطاکیا گیا اور سلسلۂ انبیاء کا آغاز ہوا تو انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں صیقل ہونا شروع ہوئیں۔ خاندان اور گلیاں محلے تشکیل پانے لگے، گاؤں اور شہروں کی شکل نکلنے لگی۔ انسان پتھر کے زمانہ میں پہنچ گیا۔ پتھر تراش کر برتن اور گھر تعمیر کئے جانے لگے۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام وہ پہلے انسان تھے جن کے ذریعہ انسان کو ابجد سکھائی گئی۔یعنی حروف تہجی معرض وجود میں آئے۔ اس سے پہلے زبان و بیان کے حوالے سے انسان تصویری مرحلہ پر پہنچ چکا تھا۔یہاں سے اس کی مہمل اُوں آں نے باقاعدہ بامعنی کلام کا آغاز کیا اور شاید اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے ناصر کاظمی نے لکھا تھا کہ:
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا
ابجد ھوز حطی کلمن ۔۔۔۔ کا آغاز چونکہ الف سے ہوا اور الف سے ”اللہ “بنتا ہے اس لئے ممکن ہے کہ اس شعر میں ناصر کاظمی کے مدنظر ابجد کا پہلا حرف تہجی الف ہی ہو۔
بہرحال یہ طے ہے کہ انسان نے ایک دوسرے سے بولنا اور لکھنا سیکھا۔ میں نے بھی ایک بار لکھا تھا کہ:
حروف گونگے تھے مردہ خیال تھے میرے
یہ مجھ کو بولنا ، لکھنا سکھا رہا ہے کوئی
پس بولنے کا عمل لکھنے میں ڈھلنے لگا اور انسان اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے قابل ہوا۔اور یہ سلسلہ آگے بڑھا تو اچھی باتوں کی تشہیر ہونے لگی۔ اول اول پتھر کی سلوں پھر درختوں کی چھال اور چمڑے پر لکھا جانے لگا اور پھر ایک دن چین میں کاغذ کی ایجاد عمل میں آ گئی۔یہ انسان کا ایک انقلابی عملی قدم تھا۔ ایک کمپنی کی دیکھا دیکھی سبھی نے اس طرزِ ادا کو اپنایا اور دنیا میں سلسلۂ اشاعت کا آغاز ہوا اور باتوں کو پَر لگنا شروع ہوئے یعنی ایک علاقے کی باتیں شائع ہو کر دیگر خطہ ہائے ارضی تک پہنچنا شروع ہوئیں۔
ذرا پیچھے چلئے تو معلوم ہوتا ہے کہ نازل شدہ صحائف لکھنے کے عمل میں ڈھل گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دس احکام پر مشتمل الواح عنایت کی گئیں۔ عہد نامہ قدیم میں موجود صحائف اپنی یادداشتوں کے مطابق لکھے جانے لگے۔ پھر عہدنامہ جدید اور اناجیل اربعہ کو بھی تحریری شکل میں مخلصین ابنِ مریم نے پیش کرنے کی سعادت پائی گو کچھ باتیں بدل گئیں لیکن بنیادی احکام تو وہی دس ہی تھے جن کی تشریحات حضرت ابن مریم علیہ السلام فرما رہے تھے۔ یہ اعلان بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں شریعت موسوی کو کامل کرنے آیا ہوں۔ گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ڈکشن میں ہی کلام ہو رہا تھا۔
ہر ایک زبان کا ادب نثر اور نظم میں حیطۂ تحریر میں آنے لگا۔ استعارے اور تشبیہات ، روزمرہ اور محاورہ جات ایجاد ہونے لگے۔ زبان و بیان میں حسن و نکھار آنے لگا۔ کہیں سرکنڈوں کی سرسراہٹ ماہر ریاضی دانوں کے ذہن و دل پر دستک دے کر بحور اورعلم العروض کے جنم کا باعث بنی تو کبھی لوہار کے ہتھوڑے نے دلوں پر وار کر کے بحور و اوزان میں اضافے کر دیئے۔
اکتساب فیض ہونے لگا تو کہیں زانوئے تلمذ طے ہونے لگے۔ مدارس کے در کھلے اور علم کا فیض عام ہونے لگا۔ لوگ علم کے حصول کے لئے دور دراز کے اسفار اختیار کرنے لگے۔ شاگردوں پر اساتذہ کے لب و لہجہ کی چھاپ پڑنے لگی تو کہیں شاگرد اساتذہ سے بھی زیادہ ذہین و فطین ثابت ہونے لگے۔ گویا ایک نے دوسرے کی بات کو آگے بڑھایا اور زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ رواں دواں رہی اور اس کی رفتار، رفتارِ دوست کے نشہ کی مانند بڑھتی چلی گئی۔ یہ درست ہے کہ بعض نے بعض کی باتوں اور علم کے فیض کو مزید کھول کر بیان کیا اور امر ہو گئے لیکن بعض کوّے ہنس کی چال چلے تو اپنی بھی بھول گئے۔
سرقہ اور توارد کا پتہ تو اس وقت چلا جب کتب عام ہوئیں اور پھر سوشل میڈیا نے دنیا کے گلوب کو کھول کر چاروں شانے چت کر دیا تب پتہ چلا کہ اکتسابِ فیض کے بہانے اور توارد کے نام پر سرقہ عام ہو چکے ہیں۔ مالِ مسروقہ مقبوضہ پر دل بے رحم ہاتھ صاف کرتے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ وہ زمانے لد گئے جب عاصی کرنالی جیسے ذہین لوگ شعر کہتے اور غالب کے نام سے شائع کرتے تھے۔ یہ تو عام سی بات سمجھی جاتی ہے کہ محافل میں لوگ کسی غیرمعروف شاعر کا اچھا سا شعر اپنے نام سے سنا دیتے لیکن یہ خطرناک خودنمائی اور خودپرستی جسے انگلش میں Snobbery کہتے ہیں اور معروف ہونے کا یہ بڑا عجیب جنون ہے کہ اپنا رطب و یابس کسی بڑے شاعر کے نام پر شائع کر دیا جائے۔ بعد میں لوگ اپنا بھی سر پیٹتے رہیں اور اصل شاعر کا بھی۔
قارئین محترم!
معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے شعرا جتنے بڑے شاعر مانے جاتے ہیں اتنی بڑی شخصیت کے مالک نہیں ہوتے اور حسد و بغض و عناد کا شکار محض اس لئے ہو جاتے ہیں کہ انہیں تسلیم کیا جائے خواہ وہ کسی اور کو تسلیم کریں نہ کریں۔ اصل میں یہ انانیت اور خود پسندی کی انتہاہوتی ہے ورنہ بقول غالب:
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے؟
خواہ مخواہ کا یہ حسد اور کینہ پروری اچھے انسانوں کو بھی گروپ بندیوں اور دھڑوں میں تقسیم ہونے پر مجبور کر دیتا ہے اور عقل و شعور پر تعصب کا دبیز پردہ ڈال دیتا ہےاور پھر اپنے علاوہ کسی کو کچھ دکھائی نہیں دیتا حالانکہ انسان کو ایسا ہوا چاہئے:
لطف یہ ہے کہ آدمی عام کرے بہار کو
موجِ ہوائے رنگ میں آپ نہا لیا تو کیا؟
ایسے شعرا کے اندر شستہ اور نادر تخلیق کا عمل تعطل کا شکار ہو جاتا ہے اور تاریخ ایسے نام کو زندہ تو رکھتی ہے لیکن روسیاہ کے طورپر۔ حوادث زمانہ اُن کا مُثلہ کر دیتے اور مؤرخ بھی ایسے چہروں پر حقائق کے ایسے تھپیڑے مارتے ہیں کہ کچھ ہی عرصہ کے بعد ان کے چہرے پہچانے نہیں جاتے۔ اس لئے تسلیم کی خُو ڈالنا ہی اعلیٰ ظرفی کا مظہر ہوتا ہے۔
اس کے برعکس شعرا ایک دوسرے کے کلام کو پسند کرتے اور انہیں داد بھی دیتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اردو شاعری میں حضرت اسداللہ خان غالب کا کیا مقام ہے لیکن میرے علم کے مطابق آج تک کسی شاعر نے کسی دوسرے شاعر کواس بڑھ داد نہیں دی ہو گی جو پیارے مرزا نے اپنے مونس و غم خوارمومن خان مومن کو دی۔ ان کے ایک شعر پر دل و دماغ ہار بیٹھے جو سہل ممتنع کا ایک بہت بڑا شعر ہے کہ:
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
غالب نے یہ شعر سن کر کہا تھا کہ میرا سارا دیوان لے لو اور یہ شعر مجھے دے دو۔ اس سے بڑھ کر ایک شاعر کسی دوسرے شاعر کو کیا داد دے سکتا ہے؟ گویا جتنا بڑا انسان اتنی ہی بڑی ادا!
عالم فاضل دوسروں کو تسلیم کیا کرتے ہیں کبھی تنقیص نہیں کرتے نہ حصول اعزازات کی دوڑ ان کا شغل ہوتی ہے۔ ہاں اصلاحِ سخن اور نقدونظر حدیث دیگر ہے۔یہ کلام میں نکھار پیدا کرنے کے لئے ضروری ہیں۔ کسی انسان کا قد اس بات سے نہیں ماپا جا سکتا کہ اس نے زندگی میں ایوارڈ کتنے لئے ہیں بلکہ اس کا قد اس بات سے ماپا جا سکتا ہے کہ اس نے دل کتنے دُکھائے یا راضی کئے ہیں۔
قارئین محترم!
یہ ڈکشن ہی ہے جو ہمیں اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ فلاں شاعر ایسے تشبیہات و استعارات لاتا ہے اور زیادہ تر اپنے اشعار میں انہی سے کام لیتا ہے اور پھر جب کسی شاعر کا ایک مخصوص لہجہ بن کر سامنے آ جاتا ہے تو اسے اس کا طرزِ بیان، اسلوب، لب و لہجہ اور اندازِ بیان کہا جاتا ہے اور انگریزی میں اسے ڈکشن کے لفظ سے تحریر کیا جاتا ہے۔
کمال تو یہ ہے کہ کوئی کلام لکھے اور قاری یا سامع بلا تاخیر کہہ اٹھے کہ فلاں کی ڈکشن میں لکھا ہے۔ میرے نزدیک وہ غزل یا شعر بہت ہی زرخیز ہوتا ہے جسے سنتےہی یا تو اس طرح کا شعر یا غزل ہو جائے یا پھر اس کی پیروڈی ہو جائے۔ ہمیں ایسی غزلیں کثرت سے ملتی ہیں کہ جن پر بعد کے شعرا نے بھی کام کیا اور اسی طرز پر کلام کہا۔ یہ ممنوع نہیں ہے بلکہ اصل شاعر کو پیش کیا جانے والا زبردست عملی خراجِ تحسین ہے۔
غزل میں غالب بے نظیر ہوئے، نظم میں مولانا حسرت موہانی اپنی مثال آپ ہوئے، مسدس میں جناب حالی کا کوئی مقابل نظر نہیں آتا، غیرمنقوط داعیٔ اسلام تحریر کرنے کا کارنامہ سرانجام دینے والے علامہ صادق بستوی ہوئے، انقلابی شاعری جس میں خودی، شاہین اور عظمت رفتہ کو یاد کرتے ہوئے حال اور مستقبل کی پیش بندیاں کرنے میں اقبال یکتا ہوئے، سہل ممتنع میں ناصر کاظمی ہوئے، درد و ہجر و فراق میں فیض ہوئے، آج کے دل دار اور حقائق پر نظر رکھنے والے تلخابۂ حیات کو بیان کرنے والے ڈاکٹر بشیر بدر ہوئے، مرد شاعر جگر مراد آبادی ہوئے، قصیدہ گوئی میں ابراہیم ذوق استاد ہوئے، درد انگیزی کے بیان میں بہادر شاہ ظفر ہوئے اور فلسفیانہ کلام کو زیرِ نشتر رکھنے والے جون ایلیا ہوئے وغیرہ وغیرہ
انگریزی شاعری میں قدرت کے بیان میں ولیم ورڈزورتھ ہوئے اور المیات و تلخابۂ حیات کو اپنے خون میں بسا کر تھوکنے والے کیٹس ہوئے، شخصیات سے متاثر ہر نعتیہ کلام لکھنے والے گوئٹے ہوئے۔ وغیرہ وغیرہ
الہٰیات کے موضوع پر شیخ سعدی و مولانا روم ہوئے۔ گویا اگر ہم ان سب سے متاثر ہو کر ایسا ہی کلام کہیں تو ہم ان کی ڈکشن میں کلام کہہ رہے ہیں۔
آج اس دنیا میں بہت سے اچھے شعرا موجود ہیں جو متقدمین کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ان کے کام کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یہ وراثت ہے جس میں سے جس کو جتنا ملا وہ لے کراس بارِ امانت،پرچم و مشعل کو اٹھا کر آگے بڑھتا ہے۔ یہی ارتقا ہے۔
ادارہ ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کا طُرّۂ امتیاز ہے کہ مختلف، منفرد اور اچھوتے موضوعات پر پروگرام پیش کرتا ہے۔ ادارے سے منسلک ہر ایک کارکن اپنی بہترین کاوش پیش کرتا ہے اور یہ بات سب سے خوش آئند ہے کہ کاوش پیش کرنے کے بعد سبھی اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ اب ان کی کاوش کے عیوب و محاسن پر بات ہو گی اور بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
تنقید نگار اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسان اپنے سامنے والے انسان کا چہرہ بُشریٰ تو دیکھ رہا ہوتا ہے لیکن اپنے چہرہ کے حسن و قبح پر اس کی نظر نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ وہ آئینہ سے ٹکڑا جائے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لئے فرمایا کہ المسلم مرأۃ المسلم کہ مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہوتا ہے وہ اسے سچ سچ دکھاتا ہے۔ ہمارے ادارے کی خوش قسمتی ہے کہ اس ادارے کا چیئرمین ایک کھرا اور سچا انسان ہے جس کو بہترین سے دل چسپی ہے کسی کے چمڑے سے نہیں اور نقاد حضرات بھی کسی فن کار کا قتل نہیں کرتے بلکہ اُس کی تعمیر کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے۔
پروگرام نمبر ۱۰۴ کی کرسیٔ صدارت پر اس ادارہ کے ایک مایہ ناز شاعر اور نثر نگار محترم ڈاکٹر ارشاد خان صاحب متمکن ہوئے اور خوب نبھائی۔ نمونۂ کلام ملاحظہ ہو:
جب چھٹیں ظلم کے بادل ، لیے پیغامِ سحر
تیری زلفوں کو گھٹا ، مشک مثالی لکھوں
مہمانانِ خصوصی میں ایک زبردست لہجہ کی سنجیدہ شاعرہ محترمہ ڈاکٹر مینا نقوی صاحبہ براجمان نظر آئیں جنہوں نے بہت ہی خوب صورت کلام نذرِ احباب کیا۔
نرم غالیچوں پہ جن کے پاؤں چھل چھل جاتے تھے
آخرش ان کا بھی اک دن خاک پر بستر ہوا
خاکسار راقم الحروف کو بھی مہمان خصوصی کے اعزاز سے نوازا گیا اور خاکسار نے ناصر کاظمی کے انداز تغزل میں کہی گئی اپنی ایک غزل پیش کرنے کی سعادت پائی۔
خود سے بھی جو بے گانہ تھا
مجھ کو مجھ سے مانگ رہا تھا
جس کو باہر ڈھونڈ رہا تھا
میرے اندر بول رہا تھا
مہمانانِ اعزازی کی فہرست میں جناب ظہیر احمد ضیا آزاد کشمیر پاکستان سے تشریف لائے ہوئے شاعر بیٹھے تھے جنہوں نے حسبِ ذیل کلام عطا فرمایا:
گرچہ میں نہ بولا کچھ
آپ نے سن لیا اتنا کچھ
دوسرے مہمان اعزازی کراچی سے جناب راج راجپر صاحب تھے جنہوں نے حسبِ ذیل کلام عطا کیا اور خوب داد سمیٹی۔
غم پرور کی یوں قربت میں ، کچھ پل اور اضافہ حاصل
دستِ قاتل میں لرزش ہے ، دم بھر میں دم بھرتے دیکھا
اس پروگرام کا آئیڈیا راقم الحروف نے پیش کیا تھا اور اسے برادرم احمرجان نے آرگنائز کیا۔ اس پروگرام کا جاذب نظر بروشر جنرل سیکریٹری ادارہ جناب صابر جاذب نے تیار کیا اور اس پروگرام کی نظامت پماری پیاری آپی محترمہ ماورا سید نے کی جو کراچی پاکستان سے تعلق رکھتی ہیں اور نظم و نثر ہر دو میدان میں اپنا لوہا منوا چکی ہیں۔
پروگرام کا باقاعدہ آغاز حمد باری تعالیٰ سے ہوا جو پیش کرنے کی سعادت محترم ڈاکٹر ارشاد خان صاحب بھارت نے پائی اور غیر منقوط حمد عطا فرمائی۔
عالم عطا ہوا ہے کہ عامل کی ملک ہے
صحرا ، مہر و کوہ گراں اور ہلال ہے
اس کے بعد ایک نہایت خوب صورت نعت پیش کرنے کی سعادت محترم محمد زبیر صاحب نے گجرات پاکستان سے پائی۔
چلا جو آپ کے پیچھے فقد اَطَاعَ اللّٰہ
رضائے حق ہے رضائے محمدِ عَرَبی
بعد ازاں بجنور انڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک بہت ہی پیارے لب و لہجہ کے شاعر جناب تہذیب ابرار صاحب نے اپنا کلام ہدیۂ حاضرین کیا۔
علاوہ اس کے بھی اک بت بسائے رکھتا ہے خود میں
دل مشرک تری تجدید ایماں کرکے چھوڑوں گا
جناب عامر حسنی نے ملائشیا سے اپنا کلام پیش کیا
وہ جو لہرائے تو نشہ چھائے
زلفِ جاناں شراب کی سی ہے
محترمہ ساجدہ انور صاحبہ نے کراچی پاکستان سے اپنا کلام پیش کرنے کی سعادت پائی۔
ہچکچاہٹ میں کیا بھلا کہیے
جو بھی کہنا ہو برملا کہیے!
جدید لب و لہجہ کی شاعر محترمہ روبینہ میر صاحبہ نے راجوری کشمیر بھارت سے اپنا کلام نذر کیا
منیر نیازی کی اس نظم سے متاثر ہو کر لکھی نظم کا ایک بند
”میں اکثر دیر کر دیتا ہوں“
کبھی تُم دیر مت کرنا
مجھے واپس بُلانے میں
میں روٹھوں تو منانے میں
کبھی تاخیر مت کرنا
بہت ہی خوب صورت شاعر جناب اصغر شمیم نے کولکتہ بھارت سے اپنی نگارشات پیش کیں۔
یہ کون ہے جو مجھے گدگدائے جاتا ہے
"بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں"
اب باری تھی جناب محمد زبیر صاحب کی جو گجرات پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں
کمالِ رنگِ بہاراں، بہارِ خوش رویاں
جمال و رنگ میں شُستہ چمن کا تار و پود
ان کے بعد ایک بہت ہی سینئر شاعر جناب ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی صاحب نے بھارت سے اپنا کلام پیش کیا۔
"کس نے ارض و فلک بنائے ہیں
بحر و دریا یہاں بہائے ہیں
وادیوں میں چمن کھلائے ہیں
کس کے جلوے جہاں پہ چھائے ہیں
"سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے "
دو گھنٹے سے زائد چلنے والا یہ پروگرام بہت ہی مفید ان معانی میں ہوا کہ شعرا نے کلام پیش کیا اور سب نے سنا اور داد دی آخر پر صدر مجلس نے اپنے کلام اور خطبۂ صدارت سے نوازا اور پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا۔
ایک اور کامیاب پروگرام کے انعقاد پر سب احباب نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی اور بہت خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا کہ ہمارے ادارے کو ایک اور بڑی کامیابی میسر آئی ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کی جائے کم ہے۔
خطبۂ صدارت
خطبۂ صدارت
احباب ذی وقار
ادارہ ہمیشہ سے انوکھے پروگرام پیش کرتا آیا ہے اور یہی اس کا طرہ امتیاز رہا ہے ۔۔ڈکشن۔۔طرز۔۔یا رنگ یا یوں کہہ لیں کسی شاعر کی شناخت ۔۔جو طرزِ فکر وفن سے پہچانا جائے کہ ۔۔یہ تو ،غالب ،اقبال ،فیض،ناصر یا جگر کا رنگ ہے ۔۔۔اسی لیے اس کلام کو بھی اقبال سے منسوب کردیا جاتا ہے ۔۔جو کہ ان کا نہیں !!
رنگ تغزل پر فوراً جگر کا گمان ۔۔یا کمٹمنٹ پر فیض یا مخدوم کو گمان یا انقلابیت پر جوش۔۔یا پھر یا پھر یاسیت پر نریش کمار شاد وغیرہم ۔
ادارے نے ایک اور منفرد پروگرام چنا اس کی خوشی دوچند اس لئے بھی مجھے ہوئی کہ مجھے کرسی صدارت تفویض کی ۔
تمام شعراء کا کلام خوب سے خوب تر رہا ۔۔۔توصیف سر اور مجلس انتظامیہ کو ،
ڈھیروں مبارکباد ۔
ڈاکٹر ارشاد خان
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارا ادارہ اسی طرح کامیابیوں سے ہم کنار ہوتا رہے۔ آمین
رپورٹ: احمدمنیب۔ لاہور پاکستان