ابلاغ و ترسیل انسانی فطرت کا ایک لازمی حصہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زبان اور قلم کی دولت سے اس لیے نوازا ہے کہ وہ اپنی چند روزہ زندگانی میں ابلاغ و ترسیل جیسی فطری ضرورت کی تکمیل کر سکے ۔ ذرائعِ ابلاغ کے سارے انواع و اقسام انسان کے انہی فطری تقاضوں کی دین ہیں ۔ شعور و آگہی کی منزل میں قدم رکھنے کے بعد انسان اپنے گرد و پیش کے حالات و واقعات سے باخبر رہنے کی خود بھی کوشش کرتا ہے اور دوسروں کو بھی ان کی اطلاع پہنچانے کی خواہش رکھتا ہے ۔ ڈائری نویسی ، روزنامچہ نویسی ، آپ بیتی اور خبر نگاری کے پس پردہ شروع سے یہی اغراض کار فرما رہے ہیں ۔ صحافتی مفہوم سے قطع نظر عمومی لحاظ سے ” ڈائری نویسی ” ایک قسم کی ” خبر نگاری ” ہے ۔ کیوں کہ احوال و کوائف قلم بند کرنا اور دوسروں کو ان کی اطلاع بہم پہنچانا ، دونوں میں مشترک ہیں ۔ شافع قدوائی کے بقول :
” انسان اپنے شعور کے ابتدائی مراحل ہی سے اس بات کا خواہش مند تھا کہ وہ اپنے گرد و پیش کے حالات و واقعات سے پوری طرح باخبر رہے ، نیز اپنے احوال و کوائف سے دوسروں کو مطلع کرے ۔ اس لحاظ سے انسان کی عمر کا بڑا حصہ جگ بیتی سننے اور آپ بیتی سنانے میں گزر جاتا ہے ۔ بہ الفاظِ دیگر یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ انسانی زندگی اصلاً رپورٹنگ سے عبارت ہے اور ہر انسان اس اعتبار سے رپورٹر ہے کہ وہ روزانہ دوسروں کو کسی نہ کسی اطلاع یا رائے سے مطلع کرتا ہے اور ان سے ان کے شخصی و غیر شخصی واقعات جاننے کا مشتاق رہتا ہے ۔ یہ دو طرفہ عمل در اصل خبر نگاری کی ایک شکل ہے ۔ ایک عام انسان اور باقاعدہ رپورٹر میں صرف اتنا فرق ہے کہ اول الذکر ایک اہم یا غیر اہم واقعہ کو سرسری انداز میں بیان کرنے پر اکتفا کرتا ہے ، جب کہ مؤخر الذکر ( رپورٹر ) ایک واقعہ {جو} عوام کی دل چسپی کا باعث ہو ، معروضی انداز میں پیش کرتا ہے ” ۔
ڈائری یا روزنامچہ میں اہم و غیر اہم ، معروضی و غیر معروضی ، دینی ، علمی ، ملکی ، سماجی اور تمدنی ہر قسم کے احوال و کوائف بیان کیے جاتے ہیں ۔ اردو میں ڈائری یا روزنامچہ نویسی کی روایت قدیم ہے ۔ لیکن آج یہ روایت دم توڑتی نظر آتی ہے ۔ مکتوب نگاری کی طرح ڈائری نویسی کی طرف لوگوں کا رجحان اب کم ہو گیا ہے ۔ لوگ پہلے سونے سے قبل دن بھر کے حالات قلم بند کرتے تھے اور آج سونے سے قبل ہاتھوں میں موبائل فون ہوتا ہے ۔ آج حالاتِ حاضرہ سے واقفیت تو حاصل کی جاتی ہے ، لیکن انہیں ڈائری لکھنے کی شکل میں ضبطِ تحریر میں لانے کی شعوری کوشش نہیں کی جاتی ہے ۔ جس کا نتیجہ نگاہوں کے سامنے ہے کہ اچھی ڈائریاں اب وجود میں نہیں آ رہی ہیں ۔ اردو میں ڈائری یا روزنامچے بہت کم لکھے گئے ہیں ۔ اردو زبان کے پہلے مصنف حضرت مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے اپنے وقت کے جلیل القدر عالم و صوفی حضرت سید شاہ اشرف حسین اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ نے تقریباً 43 / جلدوں پر مشتمل ڈائری یا روزنامچے لکھے ہیں ۔ آپ کا یہ معمول تھا کہ روزانہ بعد نماز عشا بلا ناغہ روزنامچہ تحریر کرتے ۔ دستیاب شدہ اردو روزنامچوں میں مولوی سید مظہر علی سندیلوی کا روزنامچہ جو قلمی صورت میں موجود ہے ، بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ جنوری 1867ء سے 1911ء تک یعنی تقریباً پینتالیس سال تک لکھا گیا بلا ناغہ روزنامچہ ہے ۔
” ڈائری نویسی ” کا شمار اردو نثر کی غیر افسانوی اصناف میں ہوتا ہے ۔ تذکرہ ، سفر نامہ ، مضمون ، خطوط ، سوانح ، انشائیہ ، خود نوشت ، آپ بیتی ، خاکہ نویسی ، دیباچہ ، رپورتاژ ، مراسلہ ، روز نامچہ ، تبصرہ ، مقالہ اور لغت نویسی کا تعلق غیر افسانوی نثری اصناف سے ہے ۔ ڈائری نویسی کی اہمیت و افادیت مسلم ہے ۔ دنیا کی ہر متمدن اور ترقی یافتہ زبانوں میں اس کا چلن عام رہا ہے ۔ ڈائری نویسی بیک وقت آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی ۔ سوانحی ماخذ بھی ہے اور تاریخی حوالہ بھی ۔ ڈائری لکھنے والا جہاں اپنی ذاتی زندگی کے احوال اس میں تحریر کرتا ہے ، وہیں حالاتِ حاضرہ کا بے لاگ تجزیہ بھی کرتا ہے ۔ ڈائری نویسی کے بہت سارے فائدے ہیں ۔ اس سے ہمیں بیک وقت دینی ، علمی ، تاریخی ، سیاسی اور سماجی حالات کا علم ہوتا ہے ۔ زبان و بیان پر قدرت اور مافی الضمیر کی ادائیگی کا ملکہ حاصل ہوتا ہے ۔ نئی نسلوں کو اپنے اسلاف کے تجربات و مشاہدات کا ایک آئینۂ جہاں نما ہاتھ آتا ہے ، جس سے ان کا تاریخی شعور پروان چڑھتا ہے اور ملک و ملت کے روشن مستقبل کے لیے ان کے اندر کچھ کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے ۔ مغلوں کی تاریخ میں امیر تیمور ، بابر ، ہمایوں اور جہاں گیر نے اپنے اپنے ادوار کے چیدہ چیدہ واقعات خود قلم بند کیے جو آج تاریخ کے طلبہ کے لیے ایک بیش قیمت ماخذ گردانے جاتے ہیں ۔ آج ہمارے پاس مغل سلطنت کے چیدہ چیدہ واقعات پر مشتمل جو تاریخی دستاویز ” تزکِ بابری ” و ” تزکِ جہاں گیری ” کے نام سے موجود ہے ، یہ در اصل ” ڈائری نویسی و روزنامچہ نویسی ” کا نتیجہ ہے ۔
ڈائری لکھنے سے انسان کی قوتِ مدافعت میں بہتری آتی ہے اور اس کی قوتِ متخیّلہ پروان چڑھتی ہے ۔ اس کے علاوہ ڈائری نویسی مختلف جسمانی و دماغی امراض کے خاتمے کا سبب بنتی ہے ۔ اس کا سب سے بڑا مادی فائدہ دماغی تناؤ اور ڈپریشن میں کمی آنا ہے ۔ ڈائری میں اپنی ذات یا کائنات سے متعلق احوال و واقعات کا لکھ لینا ، گویا خود کو دماغی طور پر راحت و سکون پہنچانا ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی سے اپنی پریشانی اور رنج و غم کا حال بیان کر کے اپنا بوجھ ہلکا کر رہے ہیں ۔ امریکی ماہرینِ نفسیات کے مطابق روزانہ ڈائری لکھنے سے ذہنی اور جسمانی عوارض میں نمایاں افاقہ ہوتا ہے ۔ ایک تحقیق کے مطابق مختلف دماغی امراض میں مبتلا طلبہ سے کہا گیا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی موضوع پر ڈائری لکھتے رہیں ۔ جب نتیجہ سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ وہ طالب علم جو تسلسل کے ساتھ ڈائری لکھتے رہے ، ان کا ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کم تھا اور انہیں کسی معالج کے پاس جانے کی ضرورت پیش نہیں آئی ۔
غرض کہ ڈائری نویسی کے بے شمار فوائد ہیں ۔ تاریخ و تذکرہ و سوانح نگاری میں ڈائری اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے ۔ آج اس مٹتی روایت کو از سرِ نو زندہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ دینی و ادبی حلقوں سے تعلق رکھنے والے با ذوق حضرات کو چاہیے کہ وہ جہاں مستقل بود و باش اختیار کیے ہوئے ہیں ، وہاں کے علمی ، ادبی اور سیاسی و تمدنی حالات قلم بند کرنے کے علاوہ اپنی روز مزہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات ، عصری احوال اور مشہور علمی و ادبی و سماجی شخصیات سے اپنی پرسنل ملاقات کو ڈائری یا روزنامچہ کی شکل میں ضرور تحریر کریں ، تا کہ اردو نثر کی ایک اہم اور مفید قسم ادب کے زمرے سے ہمیشہ کے لیے ختم ہونے سے محفوظ رہ سکے ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...