وہ گھڑی پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔ وقت صفر سے شروع ہوتا اور ہندسوں سے اٹھکیلیاں کرتا دوبارہ صفر پر آ کھڑا ہوتا۔ اس کی بے تاثر نظریں وقت کا تعاقب کرتے کرتے تھک گئیں تو اس نے گھڑی سے نظر ہٹا کر الماری کا ایک خانہ کھولا اور گزرے وقت کی ردی چھانٹنے لگا۔
ڈائری کے عمر رسیدہ صفحوں پر خوابیدہ لفظ اس کی پتھریلی نگاہوں سے ٹکرا کر بکھرتے گئے۔ وہ بے نیازی کے ساتھ ورق پہ ورق پلٹتا جا رہا تھا کہ اچانک ایک بوسیدہ ورق ڈائری کے بندھن چھڑا کر بھاگا اور پھڑپھڑاتا ہوا فرش پر جا گرا۔ اس نے چونک کر اس شکستہ وجود کو دیکھا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
بوسیدہ ورق نے بہت عجیب سے انداز میں اسے اپنی جانب کھینچا تھا۔ اس کا دل ایک انوکھی لے پر دھڑک اٹھا۔ وہ بے چین سا ہو کر اٹھا اور اس کی جانب لپکا کہ اچانک ورق نے ایک جھرجھری لی۔ شاید جانی پہچانی بیقرار دھڑکن کی صدا اس کے لیے صورِ اسرافیل ثابت ہوئی تھی۔ لفظ برسوں کی خاموشیوں کی زنجیریں توڑ کر سسکے۔ ورق پہ رقم ماضی کے سمندر سے ایک گردباد سا اٹھا اور چیتھڑوں میں ملبوس ایک پیکر میں ڈھلتا چلا گیا۔ کچھ ہی لمحوں کے بعد وہ حیرت سے اپنے سامنے کھڑے ورق کے زندہ پیکر کو دیکھ رہا تھا۔
“تم!” وہ استعجاب کی بیڑیاں توڑ کر بولا۔
“ہاں میں!” ورق نے دانت نکوسے۔
“میں سمجھا تھا کہ تم۔۔۔۔”
“ہاں ہاں! جانتا ہوں تم تو اپنے تئیں مجھے ہمیشہ کے لیے دفنا چکے تھے۔”
ورق نے ایک جیب سے سگریٹ نکالا۔ ایک لفظ کی آگ سے اسے سلگایا اور گہرا کش لے کر اس کی جانب دیکھتے ہوئے کرسی پر ٹک گیا
“لیکن تم غلط تھے۔ تب بھی اور آج بھی۔”
اس نے سر جھٹکا اور ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولا۔
“میں غلط نہیں تھا۔”
ورق نے اس کے سر کی سیاہی پہ غالب آتی سفیدی کو دیکھا اور اس کے سنگلاخ چہرے کو دیکھتے ہوئے استہزائیہ انداز میں ہنس دیا۔
“کیا تم واقعی اسے مانتے ہو؟”
وہ جواب دیتے دیتے اٹک گیا۔ یادوں کی ڈور اس سوال کے جواب کی تلاش میں اسے بہت آہستگی سے ماضی میں کھینچ لے گئی۔ خیال کی زمین پر شعور کی ابتدائی کونپلوں نے سر اٹھایا تھا کہ انہوں نے ایک دوسرے کے سنگ اڑنا شروع کر دیا تھا۔ وہ دونوں نئی دنیاؤں کے متلاشی تھے۔ جھرنے کے بہتے پانی کی مانند ہر شکل میں ڈھل جاتے تھے۔ زمین ان کے بے فکر قہقہوں سے گونجتی رہتی تھی۔ وہ نیلے آسمان کے بحر بیکراں کی شناور تھے۔ دھنک انہیں اپنے رنگ سونپ کر ان کی دوستی پہ نازاں تھی۔ لیکن پھر وہ بے رحم لمحہ آیا جب انوکھی امنگوں اور ان چھوئے خیالوں کے رنگوں سے سجے ان کے ساتھ کو رد کر دیا گیا۔
“تم دونوں ہرگز ساتھ نہیں چل سکتے۔”
دو ٹوک لفظوں میں فیصلہ سنا دیا گیا۔ ایک مہربان ہاتھ نے اس کا کندھا تھپتھپا کر حوصلہ دیا اور اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا آپ انہیں سونپ دیا۔ اس رات اس کا تکیہ تواتر کے ساتھ بھیگتا رہا اور وہ درد کی روشنائی میں قلم ڈبو کر اسے لفظوں میں قید کرتا رہا۔
دوسرے دن وہ اٹھا تو کورے لٹھے کی مانند سفید ہو چکا تھا۔
رنگریزوں نے اسے دیکھا تو کھل اٹھے۔ سب نے اپنے اپنے برش اپنے سینوں میں ڈبوئے اور اسے من چاہے رنگوں سے مزین کر دیا۔ ان کی کاریگری کا شاہکار وہ دنیا کے سامنے موجود تھا۔
ماضی کے اس تلخ باب کو اس نے بہت مشکل سے ذہن سے جھٹکا اور اس نے سامنے بیٹھے بوسیدہ ورق کو دیکھ کر بولا
“ہاں! میں مانتا ہوں کہ میں تب بھی درست تھا۔ میں اسے مانتا ہوں اور ہر طرح سے مانتا ہوں۔” لفظوں کے برعکس اس کی آواز میں ہلکی سی لرزش تھی۔
ورق نے اس کا جواب سن کر ہلکا سا قہقہہ لگایا اور اسے سر سے پیر تک استہزائیہ انداز میں دیکھتے ہوئے بولا
“کیا تم نے کبھی اپنے آپ کو دیکھا ہے؟”
“کیا ہوا ہے مجھے؟” وہ ایک جھٹکے سے دیوار پر لگے آئینے کی جانب مڑا تو حیرت سے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ آئینہ ٹوٹ چکا تھا. ٹکڑوں میں اس کا وجود کسی مٹے مٹے سے جگسا پزل کی مانند دکھ رہا تھا۔
ایک ٹکڑے میں وہ سفید کوٹ پہنے ہوئے تھا۔ بالکل ویسا کوٹ جو ڈاکٹر پہنتے ہیں۔ ماما کی کتنی خواہش تھی کہ وہ میڈیکل میں جائے۔ بالکل پھوپھو کے بیٹے عارب کی طرح۔
“میرا بیٹا بہت لائق ہے۔ اس احمق عارب سے تو لاکھ درجے بہتر ہے۔” وہ اسے پچکارتے ہوئے کہتیں۔ لیکن وہ عارب سے زیادہ عقلمند ثابت نہیں ہو پایا تھا۔ اس کے نمبر اتنے نہیں آئے تھے کہ وہ میڈیکل میں جا پاتا۔ ماما کے شرمندہ چہرے نے اسے کئی دن اداس رکھا تھا۔
اس نے آئینے کے دوسرے اور سب سے بڑے ٹکرے کو دیکھا جہاں وہ سیاہ شاندار سوٹ پہنے کھڑا تھا۔ بالکل بابا کی طرح۔ ماما کے ارادوں کی شکست کے بعد بابا نے بانہیں پھیلا کر اس کے ڈرے سہمے وجود کو سمیٹ لیا تھا۔
“میرے بیٹے! میں چاہتا ہوں کہ تم ہمارے بزنس کو آسمان کی بلندیوں تک لے جاؤ۔ میں جانتا ہوں کہ تم میرا یہ خواب ضرور پورا کرو گے۔”
ان کے فخریہ لہجے پر وہ اک نئے انجانے خواب کے سفر پر چل نکلا تھا اور آج وہ ہندسوں کے کھیل کا شہنشاہ تصور کیا جاتا تھا. وہ مکمل تھا لیکن یہ آئینہ۔۔۔۔۔
“یہ آئینہ ٹوٹا کیسے؟” اس نے حیرت سے سوچا۔
کسی انجانے خیال کے زیرِ اثر اس نے ہاتھ بڑھائے تو ششدر رہ گیا۔
آئینہ ٹوٹا ہوا نہیں تھا۔
“یہ کیا تماشا ہے؟” وہ گڑبڑا گیا۔ اس کے ماتھے پر پسینے کے قطرے پھوٹ پڑے۔
“ہایاہاہا! اور تم کہتے ہو کہ تم غلط نہیں تھے۔” ورق کے فلک شگاف قہقہے پر اس نے متوحش انداز میں اسے گھورا اور دوبارہ بوکھلائے ہوئے انداز میں آئینے کو ٹٹولا۔ اگر آئینہ سلامت تھا تو پھر۔۔۔۔۔۔۔۔
“اف! میں بھی نا۔۔۔۔۔۔” وہ کراہا اور جیب سے عینک نکال کر آنکھوں پر لگا لی جو بابا نے اسے گفٹ کی تھی۔ عینک لگاتے ہی سب ٹھیک ہو گیا۔ آئینے میں اس کا مکمل عکس شاندار سوٹ اور ٹائی میں ملبوس رعنائیاں بکھیر رہا تھا۔
“دیکھاااااااااا! میں نے کہا تھا نا میں غلط نہیں تھا۔”
اس نے ورق کی جانب فاتحانہ نظروں سے دیکھا جو گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
وہ صوفے پر ڈھے سا گیا جیسے لمبی مسافت طے کر کے آیا ہو۔ ورق نے سگریٹ کی جانب دیکھا جو راکھ بن چکا تھا اور برا سا منہ بنا کر اسے ایک جانب پھینک دیا۔
“چلو! جیسے تمہاری تسلی ممکن ہو سکی۔ لیکن تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟” وہ اپنی کرسی پر آگے کو جھک کر اسے گھورنے لگا۔
“میں۔۔۔۔۔۔۔میں نے تمہیں نہیں جگایا۔” وہ کمزور سے لہجے میں بولا۔
“یہ سوال اپنے آپ سے پوچھو۔ میری سانسیں بحال ہو ہی نہیں سکتی تھیں جب تک تمہارا دل مجھے نہ پکارتا۔”
اس کے مضبوط لہجے پر وہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد آہستگی سے گویا ہوا
“دل تو اختیار کی طنابیں توڑ کر مچل ہی جایا کرتا ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔”
“لیکن کیا؟”
“لیکن زندگی دل کی تال پہ نہیں چلتی۔” اس نے چند لمحے اپنے الفاظ مجتمع کیے اور بولا
“میں چاہتا ہوں کہ تم پھر سے لفظوں کے اس ڈھیر میں بہت گہری نیند سو جاؤ۔” اس کا لرزتا لہجہ کسی بہت گہری کشمکش کا غماز تھا۔
“کیا تم واقعی ایسا چاہتے ہو؟”
اس کے رسان بھرے لہجے پر وہ جھنجھلا سا گیا اور تڑخ کر بولا
“ہاں میں ایسا ہی چاہتا ہوں۔ میری زندگی میں تمہارے لیے کہیں کوئی گنجائش باقی نہیں۔” اس کے لہجے کی سختی واپس آ رہی تھی۔ وہ فیصلہ کر چکا تھا. اسے کسی بھی قیمت پر اس شوریدہ پیکر کو بھگانا تھا۔
ورق نے ایک گہری سانس لی اور بولا
“چلو! جیسے تمہاری مرضی۔ میری ایک خواہش پوری کر دو تو میں چلا جاؤں گا۔”
“کیسی خواہش؟”
“میں نے ڈائری میں بیٹھ کر اتنا عرصہ تمہیں کئی میدانوں میں جھنڈے گاڑتے سرخرو ہوتے دیکھا ہے۔ لیکن تمہیں کبھی ایک کام کرتے نہیں دیکھا۔”
“کیا؟” اس کے عجلت بھرے انداز پر ورق نے اس پر نظریں جما دیں۔
“میں نے کبھی تمہیں صرف اور صرف اپنے لیے دل کی گہرائی سے ہنستے یا مسکراتے نہیں دیکھا۔”
اس کی بات سن کر وہ بھونچکا رہ گیا۔
“اپنے لیے کون ہنستا ہے؟” وہ حیرت سے بولا۔
“تم ہنسا کرتے تھے۔”
“میں پاگل تھا۔” وہ پتھریلے لہجے میں بولا۔
ورق ہولے سے ہنسا اور بولا
“چلو جو بھی تھے۔ بس ایک بار مجھے ویسی ہی مسکراہٹ دیکھنی ہے جو خالصتا اپنے لیے ہو۔ تم میری یہ خواہش پوری کرو اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارا پیچھا چھوڑ دوں گا۔”
وہ کچھ دیر حیرت اور غصے کے ملے جلے تاثرات سے اسے دیکھتا رہا اور پھر ایک جھٹکے سے اٹھ کر آئینے کے مقابل آ گیا۔
اس نے لبوں کو پھیلانا چاہا لیکن چہرے کے سنگی نقوش اپنی جگہ جمے رہے۔
اس نے ورق کی جانب دیکھا جو دلچسپی سے اسے گھور رہا تھا اور جھنجھلا کر پورا زور لگا کر مسکرانا چاہا۔
اچانک تڑاخ کی ایک زوردار آواز ابھری اور کھوکھلے ڈھانچے پہ ٹنگا اس کا وجود کرچیاں بن کر دور تک بکھرتا چلا گیا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...