یہ دنیا ایک سراب ہے۔ یہ فقرہ فلسفے میں کئی بار پڑھا لیکن اس کی سمجھ آنے میں کم از کم بیس برس لگے۔ میرا خیال ہے کہ اب میں اسے کچھ کچھ سمجھنا شروع ہو گیا ہوں۔ کلفورڈ گیرٹز کے مطابق، “انسان اپنے لئے بڑے مضبوط جال بنتا ہے، انہی میں معلق رہتا ہے اور یہ جال اسے گرفتار کر لیتے ہیں”۔ یہ دنیا صرف پتھروں، درختوں اور فزیکل چیزوں کی نہیں ہے۔ اس میں گالیاں، مواقع، سٹیٹس سمبل، بے وفائیاں، قربانیاں، عزت اور ذلت بھی حقیقت ہیں۔ اس طرح کی نہیں جیسا کہ درخت یا پتھر ہیں لیکن اپنی طرح کی۔ پیٹر پین کی کہانی کی پریوں کی طرح کہ جن پر یقین رکھا جائے تو یہ حقیقت بن جاتی ہیں۔ میٹرکس فلم کی طرح۔ ہمارے مشترک سراب، ہماری گہری حقیقتیں۔
ہمارا اندرونی وکیل، اپنے آپ کو گلاب کے رنگ میں دیکھنے والا آئینہ، سادہ لوح حقیقت پسندی اور مجسم برائی کا واہمہ۔ یہ سب طریقے ہمارے خلاف سازش کرتے ہیں اور ہمٰیں گہرے جال میں پھنسا دیتے ہیں جہاں پر ہم اپنی سمت منتخب کرتے ہیں، قبولیت اور غیرمقبولیت کے پیمانے بناتے ہیں اور یہ ہمیں یقین دلواتے ہیں کہ ہم حق کے ساتھ ہیں۔ اگر ان سب جالوں کو بڑی دور سے دیکھا جائے تو یہ اخلاقی یقینیت، اپنی منافقت، اپنے حق پر ہونے کا یقین، یہ سب کچھ بے وقوفانہ لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بے وقوفانہ سے زیادہ ہے۔ یہ افسوسناک ہے۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ ہم کبھی امن اور ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کے قابل نہیں ہو سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا قدم یہ ہے کہ ہر چیز کو زیادہ سنجیدگی سے لینا ختم کریں۔ یہ عظیم سبق نیا نہیں۔ مذہبی کتابیں، فلسفی، ہمیں اس بارے میں آگاہ کرتے آئے ہیں۔ یاددہانی کرواتے رہے ہیں۔ اس دنیا کے کھیل میں ہم اتنے اہم نہیں، جتنا ہمارا خیال ہے۔ اس کائنات کو ہم نہیں چلاتے۔ ہمارا کردار ضرور ہے۔ ہمیں ادا کرنا چاہیے لیکن ہمارا کام صرف اس کو ٹھیک طریقے سے کرنے کی کوشش تک ختم ہو جاتا ہے۔ نکلنے والا نتیجہ ہماری ذمہ داری نہیں، ہمارا اختیار نہیں۔ ہماری پہچان منزل سے نہیں، صرف راستے سے ہوتی ہے۔ ہمارا زور دوسروں پر نہیں، اپنی ذات پر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسروں کے بارے میں گمان رکھ لینا ذہن کی بیماری ہے۔ یہ ہمیں غصے، اذیت اور تنازعے تک لے جاتی ہے۔ لیکن یہ دماغ کی نارمل حالت ہے۔ ہمارے اندر کا ہاتھی ہمیشہ ہمیں پسند اور ناپسند چننے کے لئے کہہ رہا ہوتا ہے۔ ہم یہ چھوڑ نہیں سکتے۔ منافقت روک نہیں سکتے۔ لیکن اس ہاتھی کو آہستہ آہستہ سدھایا جا سکتا ہے۔
مراقبہ ایک طریقہ ہے۔ جبکہ آرون بیک ایک اور چیز کی تجویز دیتے ہیں۔ اپنی سوچیں لکھنا شروع کریں۔ یہ ڈھونڈیں کہ ان میں کیا خرابی ہے اور بہتر سوچ کیا ہو سکتی ہے۔
برنز کہتے ہیں کہ ہم اپنے ساتھ کئی فقرے اٹھا کر پھرتے ہیں۔ دنیا کیسی ہونی چاہیے؟ لوگوں کو ہمارے ساتھ کیسا برتاوٗ کرنا چاہیے؟ اس “چاہیے” کی خلاف ورزی ہمارے طیش اور ناراضگی کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ اس سے اگلی چیز دنیا کو دوسرے کی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش ہے۔ اگر کسی تنازعے میں دنیا کو مخالف کی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کریں تو شاید اس کا احساس ہو جائے کہ وہ مکمل طور پر پاگل نہیں ہے۔
برنز کی بات اچھی ہے لیکن ایک کمزوری چھوڑ جاتی ہے۔ ایک بار غصہ داخل ہو جائے تو یہ دوسرے کا نکتہ نظر سمجھنا تقریبا ناممکن کر دیتا ہے۔ یہاں پر قدیم دانائی کا ایک اور فقرہ شروع کرنے کا بڑا اچھا مقام ہے۔ دوسرے کی آنکھ کے تنکے کو دیکھنے سے پہلے اپنی آنکھ کے شہتیر کو توجہ دینا۔ یہ آسانی سے نہیں ملے گا۔ اس کے لئے بڑی جدوجہد اور محنت والا سفر کرنا پڑے گا۔ اس کی کوشش کریں۔ آج ہی کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی سے اپنے ذاتی تنازعے کے بارے میں سوچیں۔ اس سے جس کی آپ پرواہ کرتے ہوں، جس کی وجہ صرف اس کی غلطی تھی۔ کوئی ایک چیز، صرف کوئی ایک چیز، ایسی ڈھونڈنے کی کوشش کریں جہاں پر آپ کا رویہ مثالی نہ رہا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے جذبات کا خیال نہ رکھا ہو (خواہ آپ کو ایسا کرنے کا حق ہو) یا تکلیف پہنچائی ہو (حالانکہ آپ تو ایسا چاہتے ہی نہیں) یا اپنے ہی اصولوں کے خلاف بات کی ہو (خواہ ایسا کرنے کا آپ کے پاس جواز ہو)۔
جب آپ کو اپنی پہلی غلطی کی جھلک نظر آ جائے گی تو آپ کا اندرونی وکیل بیدار ہو جائے گا۔ آپ کے رویے کا جواز تلاش کرے گا، ووسرے کو الزام دے گا۔ کوشش کریں کہ اس کی بات نظر انداز کی جا سکے۔ آپ ایک مشن پر ہیں۔ صرف ایک ایسی چیز ڈھونڈنا چاہتے ہیں جو غلط کی تھی۔ جب آپ کو اس شہتیر کا سرا مل جائے گا تو اس کو باہر نکالیں۔ یہ تکلیف دے گا۔ لیکن یہ کچھ دیر کیلئے ہو گی۔ اس کے بعد آرام ہے۔ اور شاید خوشی بھی۔ اپنے اندر سے کمزوری نکالنا آسان نہیں۔ لیکن ابھی آپ نے آگے بڑھنا ہے۔ اپنی غلطی تسلیم کرنی ہے۔ اس کے بعد ہونے والی خوشی ملی جلی ہو گی۔ اور عجیب بات یہ ہو گی کہ اس میں فخر کا احساس ہو گا۔ یہ خوشی اپنے رویے کی ذمہ داری لینے کی خوشی ہو گی۔ یہ اپنی عزت کی خوشی کا احساس ہو گا۔ یہ اطمینان کی زندگی کی طرف قدم ہو گا۔
اپنی منافقت، دوسروں کو اپنی رائے سے دیکھنا۔ یہ بڑے قیمتی رشتوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ وہ پہلا احساس ۔۔۔ جب آپ کو اندازہ ہو گا کہ تنازعے میں آپ کا بھی کوئی حصہ تھا ۔۔۔ آپ کے غصے کو نرم کر دے گا۔ ہو سکتا ہے کہ بس تھوڑا سا۔ لیکن یہی کافی ہے۔ اب آپ دوسرے کی بات کو سمجھنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ آپ ابھی بھی یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ آپ ٹھیک ہیں اور دوسرا غلط لیکن یہ کہ آپ تقریبا ٹھیک ہیں اور دوسرا تقریبا غلط۔ اس “تقریبا” سے آپ کو جواز مل جائے گا کہ آپ بلاججھک معذرت کر سکیں اور کہہ سکیں کہ “میں نے فلاں نہیں کیا، اس لئے مجھے اندازہ ہے کہ تمہیں فلاں احساس کیوں ہے”۔ اور پھر ادلے کے بدلے کی طاقت نظر آنا شروع ہو جائے گی۔ دوسرا بھی یہ کہنے کے قابل ہو سکے گا کہ “ہاں، فلاں بات سے مجھے غصہ آیا تھا لیکن مجھے بھی ایسے جواب نہیں دینا چاہیے تھا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب تعلق ٹوٹا تھا تو اسی ادلے کے بدلے کی طاقت نے توڑا تھا۔ اپنی ذات کو آگے رکھا گیا تھا۔ بے عزتی کا جواب بے عزتی سے، گالی کا گالی سے۔ اونچی آواز کا مزید اونچی آواز سے۔ لیکن جب یہ عمل الٹ جاتا ہے تو یہی طاقت اس تنازعے کو ختم کر سکتی ہے۔ رشتے کو بچا سکتی ہے۔
منافقت، اپنے آپ کو حق پر سمجھنا اور اخلاقی تنازعے ہماری گہری جبلتیں ہیں۔ لیکن کئی بار ہمیں اپنے ذہن کے اس سٹرکچر کو اور اس کی سٹریٹیجی کو خود سمجھنا پڑتا ہے۔ ہم اپنے بُنے ہوئے جال توڑ سکتے ہیں۔ اس قدیم کھیل کا پانسہ بدل سکتے ہیں۔ ہم انتخاب کر سکتے ہیں۔ اپنی مرضی کے کھیل میں داخل ہو سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی آنکھ کا شہتیر پہچاننا، اپنا تعصب ڈھونڈ لینا، اخلاقی یقنیت ذرا کم کر لینا، بڑا کچھ بدل سکتا ہے۔ ہمیں ان تنازعات سے بچا سکتا ہے، ان بحثوں سے بچا سکتا ہے جو ہمیں ہی نقصان پہنچاتی رہی ہیں۔ اس زندگی کے گہرے دھندلکوں میں راستہ ڈھونڈنے کا طریقہ آسان نہیں ہے لیکن اس کا پہلا قدم اپنی آنکھ کی بینائی سے شروع ہوتا ہے۔