دھند
(مائکرو فکشن)
’’بڑی مشکل میں پھنس گیا ہوں۔ اس چھچھوندر کو نہ تو نگل سکتا ہوں، نہ اگل سکتا ہوں۔ دونوں طرف برابر کی طاقت ہے۔ ایک کی مانوں تو دوسرا جان کو آئے گا۔ ادھر میں کسی کی مخالفت مول نہیں لے سکتا۔‘‘
حاکم کی پریشانی دیکھ کر اس کا مکار صلاح کار کمینگی سے مسکرایا اور کہنے لگا:
’’ اس میں پریشانی کی تو کوئی بات ہی نہیں حضور۔ سزا یافتہ قاتل کو پھانسی دے کر پہلے ان لوگوں کو مطمعن کریں جو اس کی پھانسی کو قانون کی حکمرانی سمجھتے ہیں۔ (قہقہ بلند ہوا) ۔۔۔۔۔۔ پھر قاتل کے حامیوں کو ایسی سہولیات دیں کہ حقیقت کا رخ ہی بدل جائے۔ ۔۔۔۔ لوگ قاتل کی پرستش کرنے لگیں گے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کاغذ، قلم، دواتیں، زبانیں، سب کچھ تو میسر ہے۔ ۔۔۔۔ سانپ بھی مر جائے گا۔ لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔‘‘
دوسرے روز پھانسی پانے والے قاتل کا جنازہ دھوم سے نکلا ۔۔۔۔۔ اس کے عالیشان مزار کے لیے دھن برسنے لگا۔ خریدی گئی زبانیں اور قلم حرکت میں آ گئے۔ ۔۔۔۔۔ گہری دھند کے غبار میں نئے حادثوں کے سانپ پھن پھیلا رہے تھے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔