پاکستان 2006 کے بعد بالعموم اور 2008 تا 2013 (بائیں بازو کا دور) بالخصوص دھشتگردی کا شکار رہا۔ اس سارے زمانے میں دو فوجی آپریشن اور ہزاروں دھماکے ہوئے جس میں اربوں روپے مالیت کی املاک اور تقریباً پچاس ہزار پاکستانی لقمہ اجل بنے۔ بظاہر یہ ایک خاص مکتبہ فکر کی مملکت کیخلاف جنگ تھی جو درپردہ شام میں خانہ جنگی اور مجاہدین کی شام ٹرانسفر اور بظاہر آپریشنز ضربِ عضب اور راہِ نجات کیساتھ اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی مگر اسنے پاکستانی سیاست پر انمِٹ نقوش مُرتب کیئے ہیں. ایسا لگتا ھے کہ یہ ساری دھشتگردی مذھبی کیساتھ سیاسی مقاصد بھی رکھتی تھی جو بوجوہ عوامی نظروں سے پوشیدہ رکھے گئے۔
طالبان نے پاکستان کے سکولوں، کالجوں ریاستی، سرکاری، عوامی نیز ان تمام مقامات کو بے دریغ نشانہ بنایا جن سے خوف و ہراس کی فضاء قائم ہو سکے۔ یہ اِتنے سر چڑھے کہ انھوں نے باقاعدہ اعلان کر دیا کہ لیفٹ کی سیاست کرنے والی جماعتوں نے اگر 2013 الیکشنز کی کیمپین بھی چلائی تو انہیں نشانہ بنایا جائے گا اور اسکا عملی مظاہرہ پیپلز پارٹی، ANP اور متحدہ قومی موومنٹ نے بھگتا بھی۔ اس الیکشن میں طالبان نے نواز شریف، عمران خان اور سعودی نظریات کی پرچارک مذہبی سیاسی جماعتوں کو ناں صرف سپورٹ کیا بلکہ اپنی عملداری کے علاقوں میں باقاعدہ سپیکروں پر انکے خلاف ووٹ ڈالنے والوں کو موت کی دھمکیاں بھی دیں۔ ظاہر ھے ان دھمکیوں کے ثمرات بھی نکلے اور مرکز میں نواز شریف اور ہختونخواہ میں طالبان کے حمایئت یافتہ عمران خان نے حکومتیں بنائیں۔
پیپلز پارٹی کو سندھ اور ANP کو باچا خان مرکز میں دھکیلنے میں طالبان نے کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستانی لیفٹ کی جماعتیں جو پروگریسیو تاریخ رکھتی تھیں انہیں اور انکے سپورٹرز کو ایسا خوفزدہ کیا گیا کہ نواز شریف کے پورے دور میں ملکی سطح پر اگر کوئی تحاریک اٹھیں تو وہ رائٹ ونگ سے تھیں۔ ناں عمران خان کے دھرنے کے ناچ گانوں پر لال مسجد سے کوئی آوازہ اُٹھا ناں طاہر القادری کو کسی نے ہاتھ ڈالا یہاں تک کہ مولوی خادم رضوی (سارے بائیں بازو والے) اسلامآباد کے انٹری پوائیٹ پر کھڑا ہوکر ملک کے چیف جسٹس اور منتخب حکومت کو ننگی گالیاں نکالتا رہا اور ایک پتہ بھی ناں ہلا، اُلٹا سپریم کورٹ میں یہ کھُلا کہ یہ سارا ناٹک قومی سلامتی کے اداروں کی آشیرباد پر رچایا گیا۔
اس ساری سیاسی دھاندلی کے باوجود 2018 کے الیکشنز میں RTS کا سہارا لینا پڑا تا کہ کٹھپُتلی (رائٹ ونگ) حکومت کو جمہوری رنگ دیا جا سکے لیکن لیفٹ کی جماعتیں جو اس ملک کے عوام کی حقیقی نمائندہ تھیں اور جنکے ووٹ بنک کو طالبان دکھا کر تو کبھی خلائی مخلوق چڑھا کر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چھینا جا رہا تھا خاموش رہیں۔
آج بھی عمران خان کی کٹھپُتلی سرکار کیخلاف ایک ملاں کو کھڑا کر کے اور جیل میں بیٹھے نواز شریف (دونوں رائٹ ونگ) میں ہوا بھری جا رہی ھے اور انہیں عوامی طاقتیں بنا کر پیش کیا جا رہا ھے اور بائیں بازو والے علاقائی، صوبائی یا پھر لسانی سیاست میں پھنسے ہوئے ہیں۔ خلائی مخلوق نے کھُلے بندوں سارے سیاسی نظام پر اپنے شکنجے گاڑھ رکھے ہیں اور مجال ھے کہ کوئی سچ بولے۔
اس مقبوضہ ریاست کے سیاسی و سماجی خدوخال اگر مقتدر بدماشیہ نے ہی طے کرنے ہیں تو پیپلز پارٹی، ANP، PTM اور کسی حد تک MQM سمیت بائیں بازو کے تمام کارکنان کو اپنی سیاست ہر فاتحہ پڑھ لینی چاہیئے کیونکہ ملکی بدماشیہ نے جو کھیل رچایا ھے اس سے برآمدگی کشت و خون کے بنا ممکن نہیں ہوگی اور اسکی پہلی کُنجی سچ ھے۔ بائیں بازو کیا قیادت اگر آج اپنے کارکن کو سچ سے مسلح کر دے تو بدماشیہ کے فراڈ کا پردہ چاک کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔
ع۔ شائید کہ تیرے دل میں اُتر جائے مری بات