سارے میں برف ایسے پڑی ہے جیسے مائی زینب نے رُوئی سُکھانے چھت پہ ڈال رکھی ہو… سورج سوا نیزے پہ بھی ٹھنڈا ہوا پڑا ہے … دستانے پہنے ہاتھوں میں کافی کے گرم مگ سے اور منہ سے دھواں نکل رہا ہے اور ہوا میں گھل رہا ہے… لوہے کے بینچ پہ بیٹھا برف، کافی کے مگ اور اپنی سانسوں سے نکلتا دھواں دیکھ رہا ہوں، سارا منظر دھواں لگ رہا ہے ….
رسوئی (باورچی خانہ) میں دھواں ہی دھواں بھرا تھا اور اماں پھونکنی سے گیلی لکڑی سلگانے کے لیے اپنے پھیپھڑے پھاڑ رہی تھی… میں سکول سے آیا تھا اور بھوک سے پیٹ کمر سے لگا ہوا تھا…
"اماں، بھوک لگی ہے"… اماں دھوئیں سے چھابڑی میں ایک روٹی، اور روٹی پہ ہری مرچ کا اچار رکھے نمودار ہوئی .. اماں کی داہنی آنکھ کے اوپر خون جما ہوا تھا اور جانے وہ رو رہی تھی کہ دھوئیں نے آنکھیں دھو دی تھیں.. میں بھوکا روٹی پہ جھپٹ پڑا، تین چار لقموں کے بعد ہی لقمے گلے میں اٹکنے لگے، اماں دھوئیں میں چلی گئی تھی اور میری آنکھوں میں دھواں بھرنے لگا….
اماں کا دن تہجد سے بھی پہلے شروع ہو جاتا تھا.. گھر داری کے سبھی کام اماں اکیلے کرتی تھی، اس کے علاوہ تین بھینسوں اور دس مرغیاں بمع اہل و عیال کے کھانے پینے، نہلانے وغیرہ کے کام بھی اماں کے ذمے تھے..
ابا صبح اٹھتے، مونہہ نہار دو چار گالیاں دیتے اور پھر ناشتہ کھاتے اور کھیتوں کو نکل جاتے، دن بھر کھیت ہوتے اور شام کو چوہدری لطیف کی بیٹھک… بیچ میں وقت ملتا تو گھر آتے اور کسی نہ کسی بات پہ اماں کو گالیاں دیتے یا دو چار مُکے اور ٹھڈے مار کے حقہ اٹھائے گھر سے نکل جاتے….
اماں ابا کی خدمت عین دین سمجھ کے کرتی تھیں.. کبھی شکایت یا غصہ اماں کو کرتے دیکھا ہی نہیں تھا… اماں بس ایک بار غصہ ہوئی تھیں جب میں نے Latvia جانے سے انکار کیا تھا… ماموں رشید لاتویا کے شہر جرمالا میں ایک ڈھابہ نما ریسٹورنٹ چلاتے تھے…
زمینوں کی زرخیزی متاثر ہو رہی تھی، گھر کا خرچہ چل سکتا تھا مگر وقت ویسا نہیں رہا تھا کہ جہاں نائی اور درزی گندم کے عوض بال کاٹتے، دیگیں بناتے یا کپڑے سیتے… ماموں رشید کی منتیں کی تھیں اماں نے کہ جمشید کو وہاں بلا لو کسی طرح… پہلے پہل میں خوش ہوا مگر جب جانے کا سوچتا تو اماں سے اتنا ٹوٹ کے پیار جانے کہاں سے امڈ آتا کہ لگتا مر ہی جاؤں گا جو جدا ہوا… جانے کا سوچتا تو ابا کے سفید بال اور کمر پہ ہاتھ دھرے رک رک کے چلنا دل چیرنے لگتا… مگر اماں بضد تھیں اور پھر ایک دن اماں کے آنسوؤں نے مجھے جہاز پہ بٹھا کے ہی چھوڑا.. اماں دوپٹے کا کونا منہ میں دبائے رو رہی تھی اور ہاتھ ہلا رہی تھی، میں چلتا جاتا اور مڑ کے دیکھتا جاتا.. آنکھیں دھواں ہوتی گئیں اور پھر سارا منظر دھواں ہو گیا….