دُھند، بارش اور کتاب !
مری میں دُھند کا راج ہے اور میرے ہاتھ میں کتاب ہے…ایک ایسی کتاب جسے میں عمر بھر نہیں بھول پاوں گا. جس کا ایک ایک لفظ تیر کی طرح لگا… آج تک بے شمار کتابیں پڑھیں بہت سی کتابوں نے متاثر بھی کیا مگر اس کتاب نے رُلا دیا بلکہ ہلا دیا….امرتا کی لاڈلی سارا شگفتہ کی داستاں. ایک ۲۹ سالہ لڑکی کی داستاں جس نے خودکشی کرکے اس بے رحم سماج سے نجات پائ. امرتا آپا نے اردو ادب پر احسان کیا جو سارا کی داستان لکھ دی….امرتا کی کتاب "ایک تھی سارا" یونہی اٹھالی مگر کتاب کی آخری سطر پڑھنے تک کتاب سے نظر نہ ہٹا سکا. اس کتاب نے مجھے ساکت کردیا.. کتاب ختم کی تو سارا کی نظمیں تلاش کیں ریختہ پر سارا شگفتہ کی نظمیں پڑھیں تو سارا کے الفاظ کی کڑواہٹ زبان پر محسوس ہوئ …اتنی کڑوی و سچی شاعری میں نے آج تک نہیں پڑھی…موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہیں گئ نظمیں..بقول شارق کیفی لمحے کی شدت کے دوران لکھنے والی شاعرہ….جس کا کہنا ہے "میری ابتدا بے ضمیری سے ہوئ اس لیے تمام عمر ضمیر کی تلاش کرتی رہی…بڑی مشکل سے لکھتی ہوں کچھ بھی تو نہیں میرے پاس قلم کی نوک دل میں ڈبوتی ہوں لاشعور لکھتی ہوں"
سارا جو چیخ کر کہتی ہے….
تجھے جب بھی کوئی دکھ دے
اس دکھ کا نام بیٹی رکھنا۔
سارا کے امرتا آپا کو لکھے ہوے ایک خط سے اقتباس…
"آج سے پانچ برس پہلے کہنے کو ایک شاعر میرے ساتھ فیملی پلاننگ میں سروس کرتا تھا ۔ میں بہت بانماز ہوتی تھی ۔ گھر سے آفس تک کا راستہ بڑی مشکل سے یاد کیا تھا ۔ لکھنے پڑھنے سے بالکل شوق نہیں تھا۔اتنا ضرور پتہ تھا ۔ شاعر لوگ بڑے ہوتے ہیں …….
ایک شام شاعر صاحب نے کہا مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ پھر ایک روز ریستوراں میں ملاقات ہوئی۔ اُس نے کہا…… شادی کرو گی؟
دوسری ملاقات میں شادی طے ہو گئی۔
اَب قاضی کے لئے پیسے نہیں تھے۔ میں نے کہا ۔ آدھی فیس تم قرض لو' اور آدھی فیس میں قرض لے لیتی ہوں۔
چونکہ میرے گھر والے شریک نہیں ہوں گے میری طرف سے گواہ بھی لیتے آنا۔
ایک دوست سے میں نے اُدھار کپڑے مانگے اور مقررہ جگہ پر پہنچی اور نکاح ہو گیا۔قاضی صاحب نے فیس کے علاوہ مٹھائی کا ڈبہ بھی منگوا لیا تو ہمارے پاس چھ روپے بچے۔
باقی جھونپڑی پر پہنچے، تو دو روپے، بچے.
میں لالٹین کی روشنی میں گھونگھٹ کاڑھے بیٹھی تھی…….شاعر نے کہا ، دو روپے ہوں گے؟ باہر میرے دوست بغیر کرائے کے بیٹھے ہیں۔ میں نے دو روپے دے دئے۔
اس نے پھر کہا…. ہمارے یہاں بیوی نوکری نہیں کرتی۔ نوکری سے بھی ہاتھ دھوئے۔
گھر میں روز تعلیم یافتہ شاعر اور نقاد آتے اور ایلیٹ کی طرح بولتے۔ کم از کم میرے خمیر میں علم کی وحشت تو تھی ہی لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی بُھوک برداشت نہ ہوتی ۔روز گھر میں فلسفے پکتے اور ہم منطق بھگارتے.
ایک روز جھونپڑی سے بھی نکال دیئے گئے، یہ بھی پرائی تھی۔ ایک آدھا مکان کرائے پر لیا۔ میں چٹائی پر لیٹی دیواریں گِنا کرتی ۔اور اپنے جہل کا اکثر شکار رہتی۔
مجھے ساتواں مہینہ ہوا۔ درد شدید تھا. عِلم کے غرور میں وہ آنکھ جھپکے بغیر چلا گیا۔ جب اور درد شدید ہوا تو مالِک مکان میری چیخیں سُنتی ہوئی آئی اور مجھے ہسپتال چھوڑ آئی ۔ میرے ہاتھ میں درد اور پانچ کڑکڑاتے ہوئے نوٹ تھے۔
تھوڑی دیر کے بعد لڑکا ہوا۔ سردی شدید تھی اور ایک تولیہ بھی بچے کو لپیٹنے کے لئے نہیں تھا۔
ڈاکٹر نے بچے کو میرے برابر اسٹریچر پر لِٹا دیا۔
پانچ منٹ کے لئے بچے نے آنکھیں کھولیں اور کفن کمانے چلا گیا۔
بس'جب سے میرے جسم میں آنکھیں بھری ہوئی ہیں….. سسٹر مجھے وارڈ میں لٹا گئی۔ میں نے سسٹر سے کہا میں گھر جانا چاہتی ہوں کیونکہ گھر میں کسی کو عِلم نہیں کہ میں کہاں ہوں ۔ اُس نے بے باکی سے مجھے دیکھا اور کہا ، تمہارے جسم میں زہر پھیلنے کا ویسے بھی ڈر ہے ۔ تم بستر پر رہو ۔
لیکن اب آرام تو کہیں بھی نہیں تھا…….
میرے پاس مُردہ بچہ اور پانچ رُوپے تھے۔
میں نے سسٹر سے کہا ، میرے پاس فیس کے پیسے نہیں ہیں میں لے کر آتی ہوں، میرے لئے اب مشکل ہے ہسپتال میں رہنا.
تمہارے پاس میرا مُردہ بچہ امانت ہے، میں پیسے لےبکر آتی ہوں. بھاگوں گی نہیں.
میں سیڑھیوں سے اُتر گئی۔ مجھے ایک سو پانچ ڈگری بُخار تھا۔ بس پر سوار ہوگئی ، گھر پہنچی۔ میرے پستانوں سے دُودھ بہہ رہا تھا ۔میں دودھ گلاس میں بھر کر رکھ دیا ۔ اتنے میں شاعر اور باقی منشی حضرات تشریف لائے ۔ میں نے شاعر سے کہا ، لڑکا پیدا ہوا تھا ، مَر گیا ہے…..
اُس نے سرسری سنا اور نقادوں کو بتایا….کمرے میں دو منٹ خاموشی رہی اور تیسرے منٹ گفتگو شروع ہوگئی.
……فرائڈ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟
…..راں بو کیا کہتا ہے ؟
…….سعدی نے کیا کہا ہے ؟
…….اور وارث شاہ بہت بڑا آدمی تھا…….
یہ باتیں تو روز ہی سُنتی تھی لیکن آج لفظ کُچھ زیادہ ہی صاف سُنائی دے رہے تھے۔ مجھے ایسا لگا جیسے' یہ سارے بڑے لوگ تھوڑی دیر کے لئے میرے لہو میں ہوں، اور راں بو اور فرائڈ میرے رحم سے میرا بچہ نوچ رہے ہوں۔
جانتی ہو امرتا ! اُس روز علم میرے لہُو میں قہقہے لگا رہا تھا اس روز علم میرے گھر میں پہلی بار آیا تھا اور ۔ میرے بچے کا جنم دیکھو ! چنانچہ ایک گھنٹے کی گفتگو رہی اور خاموشی آنکھ لٹکائے مجھے دیکھتی رہی۔
وہ لوگ عِلم کے نالے عبُور کرتے کمرے سے جُدا ہوگئے۔
میں سیڑھیوں سے ایک چیخ کی طرح اُتری……
اب میرے ہاتھ میں تین رُوپے تھے…..
میں ایک دوست کے ہاں پہنچی اور تین سو روپے قرض مانگے ۔ اُس نے دے دیئے ۔ پھر اُس نے دیکھتے ہوئے کہا
کیا تمہاری طبیعت خراب ہے ؟
میں نے کہا ، بس مجھے ذرا ا بخار ہے ، میں زیادہ دیر رُک نہیں سکتی ۔ پیسے کسی قرض خواہ کو دینے ہیں ، وہ میرا انتظار کر رہا ہوگا……
ہسپتال پہنچی ۔ بِل ۲۹٥ روپے کا بنا۔ اب میرے پاس پھر مُردہ بچہ اور پانچ روپے تھے۔ میں نے ڈاکٹر سے کہا۔ آپ لوگ چندہ اکٹھا کر کے بچے کو کفن دیں، اور اِس کی قبر کہیں بھی بنا دیں۔ میں جارہی ہوں۔
بچے کی اصل قبر تو میرے دل میں بَن چکی ہے……
میں پھر دوہری چیخ ےک ساتھ سیڑھیوں سے اُتری اور ننگے پیر سڑک پہ دوڑتی ہوئی بس میں سوار ہوئی۔ ڈاکٹر نے سمجھا شاید صدمے کی وجہ سے میں ذہنی توازن کھو بیٹھی ہوں۔ کنڈکٹر نے مجھ سے ٹکٹ نہیں مانگا چونکہ میرے کپڑوں سے خون چھلک پڑا تھا. میں بس سے اُتری، کنڈکٹر کے ہاتھ پر پانچ روپے رکھتے ہوئے ، چل نکلی۔ گھر ؟ گھر!! گھر پہنچی….
گلاس میں دودھ رکھا ہوا تھا۔کفن سے بھی زیادہ اُجلا……
میں نے اپنے دودھ کی قسم کھائی ….. شعر میں لکھوں گی! شاعری میں کروں گی ! میں شاعرہ کہلاؤں گی !
اور دودھ باسی ہونے سے پہلے ہی میں نے ایک نظم لکھ لی.
لیکن تیسری بات جھوٹ تھی، مجھے کوئ شاعرہ نہ کہے. شاید میں کبھی اپنے بچے کو کفن دے سکوں۔
امرتا! آج چاروں طرف سے شاعرہ! شاعرہ! کی آوازیں آتی ہیں، لیکن ابھی تک کفن کے پیسے پُورے نہیں ہوئے……"
سارا کی شاعری پڑھتے ہوے انسان دکھ و درد کی شدت سے پاگل ہوجاتا ہے تو سارا نے تو یہ سب جھیلا ہے…سارا ایک باغی جس نے سماج کا حقیقی چہرہ دکھایا ..سارا جو کہتی ہے حشر کے روز میری اکیلی قبر کا اکیلا خدا ہونا چاہیے ! سارا جس کے کفن کے پیسے ابھی پورے نہیں ہوئے…..
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔