آجکل میں نے یہاں نیویارک کی ہڈسن ویلی کہ جنگلوں میں بسیرا کیا ہوا ہے ۔ کیا کمال کا قدرتی حسن ہے ۔ چاروں اطراف درخت ہی درخت ، ہرنوں کا رقص ، پانی کا شور اور پرندوں کا چہچہانا ۔ خزاں کا موسم شروع ہو گیا ہے ، پتوں نے زردی رنگ میں رنگنا شروع کر دیا ہے ۔ ہوا کا شور پتوں کی سرسراہٹ کو عجب انداز سے کسی سُر میں بدل رہا ہے ۔ یہی جنت ہے ۔ یہی اس دنیا کا جشن ہے جس کہ لیے ہم پیدا ہوئے ۔ کل میں اپنے بیٹے کو کہ رہا تھا کہ تم دو قسم کی دنیا میں رہ رہے ہو ایک وہ جو فیکٹری میں جہاں تم semi conductor چپس بنانے والی مشینوں کو oversee کر رہے ہو ۔ دوسری جو اس پہاڑ والے گھر میں گزارتے ہو ۔ مجھے کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے یہاں دنیا ختم ہو گئ ہے میں ایک eternal bliss میں رہ رہا ہوں ۔ میری تنہائ انسانوں سے ہے قدرت سے نہیں ۔
کل میں دوپہر کو نزدیکی ٹاؤن گیا جسے ابھی بھی fishkill village کہا جاتا ہے ، گو کہ اب وہاں وال مارٹ بھی ہے ، سٹار بکس ، کیفے اور بارز ۔ صرف کتابوں کی دوکان نہیں تھی ۔ وہ آج میں یہاں سے پانچ میل دور ایک اور ٹاؤن Beacon ہے ، وہاں جاؤں گا اور ضرور دیکھوں گا ۔ ان دو شہروں میں وہ لوگ رہتے ہیں جو یا تو نزدیکی فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں یا کھیتی باڑی ۔ کچھ میرے جیسے بوڑھے لوگ اپنی زندگی کہ یادگار اور پرسکون ایام گزارنے یہاں مقیم ہیں ۔ جن کہ بچہ بڑے شہروں لاس اینجلس ، شکاگو ، نیویارک سٹی، سیییٹل اور نجانے کہاں کہاں روزی روٹی کہ لیے آباد ہیں اور والدین کہ ساتھ کرسمس یا کوئ اور تہوار منانے آتے ہیں ۔ کاش وہ بھی اس بڑے تہوار کا حصہ ہوتے جو میں منا رہا ہوں ، ان کہ والدین منا رہے ہیں ۔ پیسہ تو صرف روزی روٹی کا سبب بنتا ہے ، زندگی کی رونق ، دمک اور جان تو یہ رقص ہے جس کا حصہ اس وقت میں ہوں اور آپ پڑھنے والے اگر آپ اپنے آپ کو یہاں میرے ساتھ پانے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔
کل مجھ سے کوئ پوچھ رہا تھا کہ مراقبہ کیا ہے ؟ میں پچھلی دفعہ جب نیویارک اپ سٹیٹ آیا تو ایک آشرام میں کچھ دیر ٹھہرا ، جہاں یوگا کروایا جاتا تھا ۔ نہ اس آشرام کی مالک کو یوگا آتا تھا اور نہ مراقبہ ۔ صرف ایک پیسے بٹورنے کا زریعہ ۔ جب میں نے ایک وہاں لیکچر مراقبہ پر دیا تو مجھے اس نے دوڑا دیا کہ کیوں میری روزی پر لات مار رہے ہو ۔ دکھ جس بات کا مجھے ہوا کہ عبادت ، مراقبہ اور چلہ وغیرہ جو انسان سکون اور شکرگزاری کہ لیے کرتا ہے وہ بھی دھندے کی نظر ہو گئے ہیں ۔ پیسہ کمانے کا زریعہ ۔ میں آپ سب سے درخواست کروں گا کہ کبھی اس کا حصہ نہ بنیں ان لوگوں کہ فریب میں نہ آئیں ۔ آپ سب میں وہ صلاحیت موجود ہے ۔ اس ک لیے ضرورت صرف اور صرف تنہائ اور توجہ کی ہے ۔ کوئ بھی سکون والا کونا ، گھر میں یا پارک میں پکڑ لیں اور اپنے جسم کو بلکل ڈھیلا چھوڑ دیں ۔ زہن میں خیالات کی توجہ بھی جسم پر مرکوز کریں ۔ کسی بھی سابقہ خوبصورت واقعہ کی یاد لائیں ، کوئ کامیابی کی یاد ، جیسے ثاقب نثار صاحب ، صدیق جان کی سپریم کورٹ کی یو ٹیوب کی وڈیو سن کر مراقبہ میں جا سکتے ہیں ۔ کوئ منترہ یا تلاوت یا سورہ بھی پڑھی جا سکتی ہے جو توجہ ناپسندیدہ خیالات سے ہٹا دے ۔ جیسے اللہ گروپ والے دل کی دھڑکن کو اللہ کہ ورد کہ ساتھ ملا دیتے ہیں اور سکون میں آ جاتے ہیں ۔ ساری کائنات اس اللہ کی دھڑکن میں سموئ ہوئ ہے ۔
سکون پانے کی نشانی یہ ہو گی کہ آپ کو نیند آنی شروع ہو جائے گی ۔ بے شک سو جائیں اگر گھر میں ہی ہیں تو ۔ اگر آپ کا الگ کمرہ ہے تو مراقبہ سے پہلے وہاں کوئ اچھا incense موم بتی میں جلائیں ۔ روشنی بہت مدھم ہو ۔ چاہیں تو کوئ بھی relaxation یا meditation کا میوزک اپنے سمارٹ فون پر لگا لیں ۔ بہت سارے ایپ آپ کہ موبائل کہ سٹور میں موجود ہیں ۔ اصل چیز آپ نے منفی سوچوں کہ چنگل سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہے ۔ان کا web توڑنا ہے ۔
یہ پہلا اسٹیج ہے سکون میں آنے کا ، منفی سے مثبت کی طرف سفر ۔ دوسرا اسٹیج وہ ہے جو میں نے کل ہراری کو quote کیا تھا ۔ وہ ہے اپنے جزبات پر قابو اور زندگی کی سمت قدرت کہ ساتھ ٹیون کرنا ۔ جیسا کہ اس نے ایک سال سے سمارٹ فون کا استمعال بند کر دیا ہے ۔ میٹیریل چیزوں کی محتاجی سے چھٹکارہ ، یہ بہت ضروری ہے ۔ قدرتی عمل یا زمدگی اور مادہ پرستی دو متضاد poles ہیں ۔ آپ کوئ ضرورت کی مادہ پرستی بطور means تو اپنا سکتے ہیں جیسے کھانا پینے کی چیزیں ، کپڑا لتا، لیکن اسے end نہیں بنا سکتے ۔ جیسے ہراری کہتا ہے کہ انسان کسی بھی طرح کسی پروسیس کا means نہیں بن سکتا ہے ۔ وہ اپنے آپ میں ایک end ہے جسے میں کل اپنے ہونے کی پہچان کہ رہا تھا ۔
اس دنیا میں ۹۰ فیصد لوگ پیسہ کہ چکر میں زلیل خوار ہو رہے ہیں ۔ میرے اپنے بھائ ارب پتی ہیں ، کھرب پتی ہونے کی خواہش ۔ ایک بھائ جو PAS میں ہے اس کو طاقت کا نشہ اور شوق سکون سے سونے نہیں دیتا، کہتا ہے میں نے چیف سیکریٹری بننا ہے ۔ یہ پیسہ اور طاقت کہ شوق سارے ہی ایک بہت بڑا دھوکہ ہے ۔ ایک illusion ہے ، artificial زندگی ہے ۔ بیماریوں کی جڑ ہے ۔ انسانی قدروں کہ یکسر متضاد اور مخالف ۔
ابھی بھی وقت ہے نجات کا ، جشن کا ، مسرتوں کا اور راحتوں کہ لامتناہی سلسلہ کا اس کی طرف خدارا گامزن ہوں ۔ اس کی تلاش میں نکلیں ، وہ ملے گا ، پیار ، محبت اور شکرگزاری میں ۔ بہت خوش رہیں ۔ اللہ نگہبان ۔
حیوانی جبلت، مکھیوں کا دیوتا، مکڑیوں بھرا جزیرہ اور ہم
( نوبل انعام یافتہ ولیم گولڈنگ کے ناول ’ لارڈ آف فلائیز ‘، 1954ء پر تبصرہ ) یہ پچھلی صدی...