دھیان یا mindfulness کیا ہے ؟
ہم اکثر بڑوں کہ ساتھ گاڑی پر بیٹھے ہوتے ہیں تو بزرگ بار بار ڈرائیور کو مخاطب کرتے ہیں ‘تیان کر، تیان کر’ دراصل اکثر ہم گاڑی یا زندگی ‘بغیر دھیان’ کے چلا ، یا گزار رہے ہوتے ہیں ۔ ہم ایک عرصے سے کوئ کام کرتے ہوئے بہت میکینیکل ہو جاتے ہیں ۔ میں اکثر جب لمبے سفر پر ایک دم گاڑی چلاتے ہوئے دھیان دیتا تھا گاڑی کہ چلانے پر ، تو سوچتا تھا یہ کیسے گاڑی چلتی رہی ، میں نے تو اس دوران اتنے زیادہ حساب کتاب کیے اور مختلف خیالات کو مرکز توجہ بنائے رکھا ، اور ڈر بھی جاتا کہ اگر کوئ حادثہ پیش آ جاتا ۔ ہوتا یہ ہے کہ جو کام آپ ایک عرصے سے کرتے رہتے ہیں وہ پھر آپ کہ دماغ میں فیڈ ہو جاتا ہے ۔ اور آپ کہ زیادہ دھیان اور توجہ کی ضرورت نہیں رہتی ۔
مراقبہ بھی دراصل دھیان کی مشق ہے ۔ آپ سانسوں پر دھیان دے کر اپنی توجہ دنیا کہ معاملات خاص طور پر اپنی پریشانی والے معاملات سے ہٹاتے ہیں ۔ یہ بہت ضروری اور بہت آسان ہے اور ہر شخص کو دن میں دو تین بار کم از کم پانچ منٹ کہ لیے ضرور کرنا چاہیے ۔ اس سے دماغ تازہ ہو جاتا ہے ۔ جسم بہت ہلکا پُھلکا محسوس کرتا ہے ۔ یہ صرف مراکبہ سے ہی نہیں کسی چیز سے ہو سکتا ہے ، ہلکی پھلکی چہل قدمی کوئ ڈرائنگ بنانی ۔ کچھ لکھنے سے ، شاعری پڑھنے یا گانا سننے سے ۔ یا جیسے Wordsworth صرف daffodils کا سوچ کر بھی اتنا خوش ہوا جتنا اس کو دیکھ کر ۔
In vacant and in pensive mood, they flash upon thy inward eye in a bliss of solitude
تیسری آنکھ سے دیکھنے کا معاملہ ہے ۔
حقیقت میں انسان بنیادی طور پر سوچوں ہی کا مجموعہ ہے ۔ سوچ ہی کائنات کہ ساتھ لنک اور روح کا حصہ ہے ۔ مثبت سوچیں روح کی روشنی کو منور کرتی ہیں اور منفی مدھم ۔ بہت آسان ، سادہ اور قدرتی عمل ہے ۔ کاش ہم دنیا کی بھول بھلیوں میں اتنا غرق نہ ہوتے اور خوشگوار زندگیاں گزار رہے ہوتے ۔ پریشانی والی سوچیں ہی بیماری لاتی ہیں اور ڈیپریشن میں مبتلا کرتی ہیں ۔ مجھے جب ۲۰۰۲ میں ڈیپریشن ہوا تو میں نے اس وقت اس کی حقیقت کو جانا اور اس کا روحانی علاج شروع کیا ۔ اللہ تعالی کہ فضل و کرم سے میں روحانیت ہی سے اس پر قابو پانے میں کامیاب ہوا اور اصل میں میرا روحانیت کا سفر بھی تب سے شروع ہوا جس کو کوئ بیس سال ہونے کو ہیں ، میرے لیے قدرت تمام چیزیں آسان کرتی رہی اور میرے لیے دنیا ہی جنت بنی ہوئ ہے ، الحمد اللہ ، اللہ تعالی کا بہت شکر ہے ۔
آج میں جب رُوزویلٹ پارک میں مراکبہ کر رہا تھا تو آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے اور اتوار کی چھٹی کی وجہ سے رُوٹ ون پر بھی بلکل خاموشی تھی ، میں جہاں بھی اپنے آپ کو لے کہ جانا چاہتا تھا الحمد اللہ لے گیا اور اپنے آپ کو بے انتہا سکون اور مسرت میں پایا ۔ میں اکثر جب نوکری کرتا تھا تب بھی اپنے دفتر کہ دوران بھی کچھ منٹ کہ لیے روٹین توڑتا تھا ۔ اس سے بہت فرق پڑتا تھا ۔ یہ غصہ پر کنٹرول اور پریشانیوں سے نکلنے کا سب سے آسان طریقہ ہے ۔ اکثر ہم گنگناتے ہیں یا موسیقی سننے کا شوق رکھتے ہیں اس میں بھی ہم اپنے آپ کو سوچوں کی منفی گردش سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں ۔ بہت عرصہ کی بات ہے کہ ایک رات میں میریٹ کراچی کے نادیہ ریسٹورنٹ میں ڈنر کر رہا تھا کہ ایک سامنے بیٹھے میاں بیوی میں سے آدمی نے گانے والے کو “اے دل کہیں اور چل “ گانے کی فرمائش کی ۔ میں بے ساختہ بولا “سر جی اتنے تنگ پڑ گئے ہیں زندگی سے ؟” بولا گانے کہ بعد بتاؤں گا ۔ گانے کہ دوران اس نے فلور پر ڈانس بھی کیا ، بہت سرور میں آ گیا تو مجھے بھی ڈانس کہ لیے مجبور کیا گو کہ میں تو دل کو ادھر ہی لگائ بیٹھا تھا ۔ دراصل وہ اپنی mind کی دنیاوی conditioning سے باہر آ رہا تھا اور میں پہلے ہی باہر تھا ۔ یہ ساری چیزیں ایک دائرہ میں ہوتی ہیں ۔ linear سلسلہ نہیں ہے ، نہ ماضی حقیقت ہے اور نہ مستقبل ۔ کل میری لاہور سے ایک دوست نے اس linear سوچ پر اچھی پوسٹ کی تھی کہ یہ دراصل linear طریقے سے معاملات کو دیکھنا ہی نہایت غلط approach ہے ۔
زندگی بہت آسان ہے بہت سادہ ، سارے دنیا کے جھنجھٹ ہمارے اپنے ڈالے ہوئے ہیں ، میری والدہ اکثر کہتی تھیں ‘کاکا مر کہ جان چُھٹے گی ‘ میں کہتا تھا مرنا دراصل منتقلی ہے ایک اور جہاں میں ، آپ اس زندگی کو بھی enjoy کر سکتے ہیں اگر چاہیں ۔ میری بہت دعا ہے کہ آپ سب بہت خوش رہیں اور اس زندگی کہ سفر کو حتمی نہ سمجھیں بلکہ ایک سیڑھی اور کئ جہانوں میں پہنچنے کی ۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کہ امتحان اور بھی ہیں
اللہ نگہبان ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔