(Last Updated On: )
دوردراز کے اس گاؤں میں اتفاقیہ طور پر ایک شام میں نے اس بوڑھے آدمی کو دریافت کیا، جس کے بارے میں بیان کیا جاتا تھا کہ وہ دنیا کا قدیم ترین فوجی ہے۔ سال 1915، یاشاید اس سے بھی کہیں پہلے کا۔اس کا آگے تھا نہ کوئی پیچھے اور نہ ہی کوئی مستقل ٹھکانہ تھا: جیسا کہ لوگ سمجھتے تھے۔بوڑھے نے پھٹے ہوئے فوجی جوتے پہنے ہوئے تھے اور جسم پر ٹکڑوں کے نام پر سالخوردہ تمغوں سے مزین فوجی وردی بھی موجود تھی۔میں نے حیرت سے سوچا کہ وہ خود کو اور اس وردی کو اب تک وقت کی مار سے کیسے بچائے ہوئے تھا۔ جب میں نے اس سلسلے میں اس کی تعریف کی اور اپنے تجسس کا اظہار کیاتو اس کی جھریوں کے مابین مسکراہٹ کی لہر دوڑ گئی — لیکن اس نے میری بات کاکوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا۔
بعد ازاں اس کے منہ سے نکلے چند مہمل جملوں سے جنہیں سمجھ پانا قدرے مشکل تھا میں یہ جان پایا کہ وہ نازیوں کے ساتھ مل کر دشمن سے اب بھی لڑ رہا تھا اور ایک بیش قیمت فوجی راز اپنے سینے میں چھپائے دشمن سے چھپتا پھر رہا تھا اس کا ٹھکانہ گھنا جنگل تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اردگرد سب کچھ بدل چکا ہے اور جنگ کا خاتمہ ہوئے ایک مدت ہوگئی یا پھر وہ جاننا ہی نہیں چاہتاتھا اور شاید کوئی بھی فوجی اپنی زندگی میں یہ جاننا نہیں چاہتا کہ جنگ ختم ہوگئی اوراب کسی کو اس کی ضروت نہیں رہی۔ یہ با لکل ایسے ہی جیسے کسی زرتشت کوکہا جائے کہ آگ کا راز افشا ہو چکا اور ستاروں کی پوجا کرنے والے صابی سے کہا جائے کہ ستاروں کی حقیت سے پردہ اٹھ چکا۔اب ڈرامے بازی بند کرو۔میں نے مذاق ہی مذاق میں اس سے اس گہرے راز کے بارے میں دریافت کرنے کی سعی کی جس نے بوڑھے کو اتنے عرصے تک زندہ رکھا تھا۔ جیسا کہ جانا جاتا ہے، ہربڑا مقصد انسان کے اندر خفی توانائی کو جنم دیتا ہے(انسان کو کبھی موت نہیں آئی وہ خود ہی اپنی موت کا سامان کرتا رہتا ہے)۔
کچھ ایسا ہی سامان اس قدیم فوجی نے اپنے لئے کیا تھا۔ میرے خیال میں شائدوہ اپنے سینے کے بوجھ کو ہلکا کرنا چاہتا تھا اسی لئے مجھے وہ جانے کیوں الجھے پرسرار اور خطرناک راستوں سے گزارتا ہوا اس قدیم مورچے تک لے گیا جس میں زنگ آ لود لوہے کے بند صندوقچے پڑے تھے‘ جن کی رکھوالی وہ اپنی فوجی کمانڈ اور ساتھیوں کی واپسی کی امید لئے ہوئے ایک صدی سے کرتا آرہا تھا۔۔”ان میں آخر ہے کیا؟“ یہ پوچھتے ہوئے میری آنکھیں تجسس اوراس کے لئے رحم کے جذبات سے مزین تھیں۔اس کے دعوے کے مطابق،صندوقچوں میں خزانہ تھا او ردشمن ان کی ٹوہ میں تھا۔ مجھے یقین دلانے کے لئے اس نے عجیب و غریب قصے کہانیاں بیان کرنا شروع کر دیں۔ میں سمجھ گیا یہ سب اسے سکھایا گیا تھا۔ میں نے پوچھا کہ کبھی اس نے ان صندوقچوں کو کھول کر بھی دیکھا ہے۔ اس نے حیرت سے میری جانب ایسے دیکھا جیسے میں کوئی دشمن ہوں اور خلاف معمول بات کہہ رہاہوں۔ وہ یقینا لکیر کا فقیر تھااحکامات کا پابند جیسے ہر فوجی ہوتا ہے۔ ان کی حفاطت ہی اس کی ڈیوٹی تھی جسے وہ نبھا رہا تھا مزید کچھ جاننے کی اسے تمنا تھی نہ ہی خواہش۔ اس نے آخر میں کہا کہ وہ کبھی رات بھر اطمینان سے سو نہیں سکا کہ کہیں یہ خزانہ دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائے جو ایک طرح سے قوم کی امانت ہے۔اس نے یہ سب کچھ بتانے کے بعد میری جانب دیکھا جیسے وہ سننا چاہتا ہو کہ اس نے اپنی گذشتہ ڈیوٹی کیسے سر انجام دی ۔ میں نے جانے کیوں آگے بڑھ کر بوڑھے کو سینے سے لگا لیا وہ اپنی سادگی کے باعث میرے لئے قابل احترام تھا جب میں نے اسے خود سے جدا کیا تو اس کی آنکھیں جذبات سے دھندلا رہی تھیں اور ہاتھ کپکپانے لگے تھے۔پھروہ ایک لمبی اور پرسکون نیند سونے کے لئے لیٹ گیا۔(''وہ رات ان راتوں میں سے ایک تھی جب بارش اپنی ساری حدیں پھلانگ جاتی ہے، کچھ لوگوں کے خیال میں اس رات آسمان کے سارے فرشتے بارش کے پانی میں ڈوب گئے تھے جب انہیں معلوم پڑا کہ جن صندوقچوں کی رکھوالی میں فوجی نے اپنی ساری حیاتی تیاگ دی تھی وہ تو فقط ماٹی سے بھرے ہوئے تھے '' لیکن میرے خیال میں یہ پہلے سے بالکل مختلف کہانی ہے اسے قدیم فوجی کی داستان سے نتھی نہ کیا جائے۔ یا پھر اپنی ماٹی اور دھرتی سے بڑا کوئی خزانہ نہیں اسے یوں لکھا اور پڑھا جائے)