دھنی آب شار
تحریر:صحرا گرد محمد ہشام
زمانہ:گزرا ہوا
مظفر آباد سے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک آب شار ہے.جو پہٹیکہ سے ذرا سے فاصلے پر ہے.ہم وہیں جا رہے تھے. چچا جان ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے تھے. جب کہ رضوان، رانا، عبدالمنان اور صحرا گرد پیچھے براجمان تھے. تب صحرا گرد اتنا موٹا نہیں تھا تھوڑا موٹا تھا.
رانا کا نام اللہ جانے کیا تھا مجھے تو رانا ہی بتایا گیا تھا. آب شار کی ایک سائیڈ پر گاڑی لگائی اور نیچے اتر آئے. میرے پیچھے چند قدم کے فاصلے پر ایک چائنیز کھڑا چندھائی ہوئی آنکھوں سے آب شار کا جائزہ لے رہا تھا.
مجھے دیکھ کر وہ مسکرایا اور میں نے بھی دانت نکال دیے. پاک چین دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے میں اس کی طرف بڑھا اور اس سے ہاتھ ملایا.
اس نے بڑے خلوص سے مجھے گالیاں دیں.مجھ جیسے پینڈو پنجابی جب کسی غیر زبان والے سے ملتے ہیں تو اس کی باتوں سے یہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ شاید وہ ہمیں گالیاں دے رہا ہے. میں نے بھی دل میں اسے صلواتیں سنائیں اور آب شار کی طرف متوجہ ہوا.
دھنی آب شار،اس پر نظر پڑی تو جامد ہو کر رہ گیا. اتنا صاف شفاف پانی، جو بلندیوں سے گرتا ہے اور شور کرتا ہے. اس میں موسیقیت ہے. جیسے بہت سے سازوں کی مترنم آواز یکجا ہو.
میں اس کے قریب ہوا. وہ مسکرائی اور ویلکم کیا. میں نے اس کے پانیوں کو چھوا، میرے اندر تک نمی چلی گئی اور اس کی معطر خوشبو مجھے مدہوش کر گئی.
اس کے بلندی سے آنے والے پانی کے چھینٹے پھوار بن کر مجھ پر برس رہے تھے. وہ میرے اوپر حاوی ہونے لگی، جیسے لیلی، مجنوں پر حاوی ہو.میں اس کے سحر میں ڈوبنے لگا. آس پاس کے پہاڑ مجھے گھورتے تھے اور حیرت زدہ تھے کہ یہ صحرا گرد آج ہمارے پاس کیوں کر آیا ہے. کتنا غرصہ ہوا اسے دیکھے ہوئے لیکن اس کے پانیوں کا لمس اور خوشبو ابھی تک میرے اندر ہے.وہ اب بھی مجھے بلاتی ہے اس کے پہاڑوں نے مجھ سے دوستی کر لی تھی. وہ پہاڑ بھی مجھے یاد کرتے ہیں.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“