کانگرس اور مسلم لیگ کی حکومت جب 1946 میں بنی تو نہرو کو نائب صدر کا منصب ملا۔ نہرو کا اصرار تھا کہ عبوری حکومت کا درجہ کابینہ کا ہے اور وہ عملی طور پر وزیر اعظم ہو گا۔ قائد اعظم نے اس مماثلت کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ عبوری حکومت کا درجہ وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل سے زیادہ نہیں‘ اور اسے کابینہ کا درجہ دینا کانگرس کے دماغ کی اختراع ہے جس کی مدد سے وہ اپنا غلبہ مسلط کرنا چاہتی ہے۔ انہی دنوں خود وائسرائے نے عبوری حکومت کو کابینہ قرار دیا تو قائد اعظم کے ردّ عمل میں نہ صرف بلا کی حاضر جوابی تھی بلکہ طنز کی شدید کاٹ بھی! ’’وائسرائے نے نہرو کو خوش کرنے کے لیے ایسا کہا۔ چھوٹے دماغوں کو خوش کرنے کے لیے چھوٹی چیزیں کافی ہوتی ہیں۔ یوں بھی گدھے کو ہاتھی کہہ دینے سے وہ ہاتھی بنتا نہیں!‘‘ جب پٹیل نے ایک تقریر میں دھمکی دی کہ تلوار کا مقابلہ تلوار سے کیا جائے گا تو قائد اعظم کا تبصرہ اس پر یہ تھا۔‘‘ سردار پٹیل ایک طاقت ور شخص ہے اور طاقت ور زبان استعمال کرتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ الفاظ ہڈیوں کو توڑ نہیں سکتے! یوں بھی پٹیل کے پاس تلوار ہے کہاں‘‘؟
فرض کیجیے‘ اُس وقت ہمارے لیڈر قائد اعظم کے بجائے وہ حضرات ہوتے جو قدرت نے ہمیں آج کے پاکستان میں عطا کئے ہیں؟ اگر یوسف رضا گیلانی ہوتے؟ اگر راجہ پرویز اشرف ہوتے تو وائسرائے کے بیان پر کیا تبصرہ کرتے؟ وائسرائے کے ساتھ اور نہرو کے ساتھ مذاکرات میں ہماری قوت کیا ہوتی اور کتنی ہوتی؟
گاندھی نے جب قائد اعظم سے مذاکرات کرنا چاہے تو قائد اعظم نے اس معاملے کو طول دیا، لٹکایا اور اپنی شرائط منوائیں۔ پھر جب راضی ہوئے تو پورے برّصغیر کو اور وائسرائے سمیت برطانوی حکومت کو حقیقت کا احساس ہوا۔ یہ حقیقت کیا تھی؟ یہ تھی کہ پیش منظر پر دو ہی لیڈر ہیں۔ گاندھی اور محمد علی جناح! اس وقت اگر ہماری قیادت میاں محمد نواز شریف کے ہاتھ میں ہوتی تو کیا کامیابی اسی طرح مسلمانوں کے قدم چومتی؟ فرض کیجیے‘ اُوفا میں قائد اعظم ہوتے تو کیا وہ مودی سے ہاتھ ملانے کے لیے اتنے دور تک چل کر جانا پسند کرتے؟ اُن کا زرخیز ذہن وہیں‘ اُسی وقت‘ اس صورت حال سے باعزت باہر نکلنے کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کر لیتا۔ مودی تک پہنچنے سے پہلے‘ شاید‘ وہ اُن سب افراد سے مصافحہ کر کے بات چیت کرنا شروع کر دیتے جو راستے میں کھڑے تھے اور یوں مودی کو انتظار کراتے!
تقسیم سے پہلے کی عبوری حکومت میں‘ کانگرس نے وزارت خزانہ مسلم لیگ کو دی۔ چال یہ تھی کہ مالیات‘ اکائونٹس اور فنانس میں مُسلے ہمیشہ سے کمزور رہے ہیں اپنی تضحیک کرائیں گے۔ لیاقت علی خان وزیر خزانہ بنے۔ چوہدری محمد علی ان کے دستِ راست تھے تجارت اور صنعت ہندوئوں کے ہاتھ میں تھے۔ کانگرس کی مالی مدد بھی وہی کر رہے تھے۔ لیاقت علی خان نے کمال کی چال چلی۔ کابینہ کے اجلاسوں میں انہوں نے بجٹ کی تفاصیل اور ٹیکسوں کی تجاویز پیش ہی نہیں کیں۔ ایسا کرتے تو کانگرس شور مچا دیتی۔ ان اجلاسوں میں انہوں نے ’’بنیادی اصول‘‘ پیش کیے اور طے بھی کرا لیے۔ بجٹ اسمبلی میں براہ راست پیش کیا۔ اور ہندو صنعت کاروں اور تاجروں پر بھاری محصول لگائے۔کانگرس کو تب معلوم ہوا کہ ان کی چال انہی کے گلے میں پڑ گئی ہے۔ فرض کیجیے آج ہمارے امور مالیات لیاقت علی خان اور چوہدری محمد علی جیسے رہنمائوں کے ہاتھ میں ہوتے تو کیا ہم 50کروڑ کے یورو بانڈز پراکتالیس کروڑ کا ٹیکس ادا کرتے؟ چوہدری محمد علی نے بطور سابق وزیر اعظم اپنے علاج کے لیے اٹھارہ ہزار روپے حکومت سے قرض لیا ۔ پھر ایک ایک پائی واپس کی۔ لیاقت علی خان کمپنی باغ راولپنڈی میں شہید ہوئے۔ ان کی جیب میں چند روپے یا چند آنے تھے۔ پھر ایک اور وزیر اعظم اسی باغ میں شہید ہوئیں ۔ انہوں نے نیو یارک سے لے کر دبئی تک جائیدادوں کی لمبی چوڑی دمکتی کہکشاں چھوڑی۔ دونوں شہید ہوئے۔ پہلے شہید وزیر اعظم کا بیٹا بلاول نہ بن سکا کہ زندگی کا پہلا ووٹ ڈالنے جاتا تو وقت تھم جاتا۔ زمین و آسمان کی گردش رک جاتی۔ پروٹوکول کی گھٹائیں افق سے افق تک چھا جاتیں۔ خلق خدا کو بلیوں بلوں کی طرح‘ جہاں جہاں تھی‘ وہیں روک دیا جاتا!
فرض کیجیے ‘ شملہ میں اندرا گاندھی کے ساتھ مذاکرات کرنے ذوالفقار علی بھٹو کے بجائے آصف علی زرداری جاتے؟ کیا بات چیت کرتے؟ ہمارے آج کے لیڈروں میں سے کتنے
Myth of Independence
جیسی کتاب تصنیف کر سکتے ہیں؟ کسی کرائے کے لکھاری کی خدمات حاصل کیے بغیر؟
ہم کہاں تھے اور کہاں آ گئے ہیں! دوسری طرف بھارت کی لیڈر شپ میں کوئی خاص تنزل نہیں آیا۔ من موہن سنگھ تو حال کی پیداوار ہے۔ اس کی بیٹی کی کلاس فیلو نے فرمائش کی کہ کلاس کے نوٹس فیکس کر دو۔ اس نے جواب دیا کہ ہمارے گھر میں فیکس نہیں ہے۔ مودی کو دیکھ لیجیے‘ اوفا سے واپسی پر وہ وسط ایشیا میں رک گیا۔ برق رفتاری سے اس نے ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر منزلوں پر منزلیں مار کر طے کیا۔ معاہدے کیے۔ بھارت کی تجارت کو بڑھایا۔ سینکڑوں وسط ایشیائی مسلمان طلبہ بھارت میں تعلیم حاصل کریں گے پھر وہ یو اے ای گیا جس کا ماتم ہمارے ہاں بہت ہو چکا ہے اور سینہ کوبی کے ساتھ ہو چکا ہے ۔ اس نے وہاں بھارتیوں کے ایک جم غفیر سے خطاب کیا۔ آج تک ہمارے محترم وزیر اعظم کو بیرون ملک پاکستانیوں کا اتنابڑا اجتماع نصیب نہیں ہوا۔ ایسا نہیں کہ پاکستانی اپنے رہنما کی تقریر سننے آنا پسند نہ کریں۔ کوئی انہیں گھاس تو ڈالے۔ کوئی اعتماد میں تولے‘ کوئی دیگر مشاغل سے وقت تو نکالے۔ ہماری ترجیحات ہی اور ہیں۔ ہم خوش لباس ہیں۔ خوش خوراک ہیں۔ ہمارا طرز زندگی شاہانہ ہے۔ ہماری تو روایات ہی اور ہیں۔ مغل بادشاہ کشمیر جاتے تو بھمبر کے مقام پر ہاتھی اور اونٹ رک جاتے۔ آگے کا سفر قلیوں کی مدد سے طے ہوتا۔ شہنشاہ اورنگ زیب کا ذاتی سامان پانچ ہزار قلی اٹھاتے شاہ جہان شکار کو نکلتا تو ایک لاکھ ہمراہی ہوتے۔ یہ جو آج دوروں پر جہازوں کے جہاز بھرے ہوئے جاتے ہیں اور جنرل ضیاء الحق سے لے کر اب تک سرکاری عمروں پر معززین کے ہجوم تشریف لے جاتے ہیں تو یہ قصّہ آج کا تو نہیں بادشاہوں کے زمانے ختم ہی کہاں ہوئے ہیں؟ یہی کچھ ہمارے عوام کی اکثریت پسند کرتی ہے۔ فلاں قیمتی سوٹ پہنتا ہے! فلاں انگریزی اچھی بولتا ہے۔ فلاں نے گھڑی اتنے کروڑ کی باندھی ہوئی ہے۔ فلاں کا پروٹوکول ایسا ہے ؎
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے
چند ہفتے پہلے مودی ایک جلسہ عام میں ہاتھ جوڑ کر عوام کی منت کر رہا تھا کہ کوڑا کرکٹ ہر جگہ نہ پھینکو! کیا ہمارا بھی کوئی رہنما اتنی ہی دلسوزی کے ساتھ‘ اتنی ہی دلگیری کے ساتھ‘ عوام کی منت کر سکتا ہے؟
کل کی خبر یہ ہے کہ سینکڑوں ہزاروں جعلی سکولوں کے لیے لاکھوں کروڑوں کے فنڈ بھی حاصل کر لیے گئے! یہ ہے ہمارے حکمرانوں کی کارکردگی! یہ ہے ہمارے لیڈروں کا قوم اور ملک کے لیے خلوص! اب تو رونے اور چیخنے چلانے کی سکت بھی نہیں رہی! اب تو ہم وہ بے جان ڈھانچے ہیں جو میڈیکل کے طالب علموں کے لیے دیواروں پر لٹکائے جاتے ہیں!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔