چند سال پہلے فیملی کی ایک محنتی لڑکی کا ذکر ہورہا تھا۔ میرے بھائی نے کہا اس کے بنک کے ایک کولیگ کی بیوی بھی ایسی ہی ہے۔ کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہے۔ یونیورسٹی میں پڑھاتی ہے۔ جلدی ترقی کرگئی ہے۔
ایک ڈیڑھ سال پہلے فیس بک پر فرینڈ شپ ریکویسٹ دیکھ رہا تھا۔ ایک بہاولپور کی تھی۔ بہاولپور والوں کیلئے میں ویسے بھی جگہ بنا ہی لیتا ہوں۔ پروفائل دیکھی تو یہ وہی خاتون تھیں جن کا ذکر میرے بھائی نے کیا تھا۔
فیس بک کے ذریعے ان کے بارے میں مزید جانتا گیا۔ معلوم ہوا کہ فارسی انہوں نے محض اتفاق یا مجبوری سے پڑھی تھی لیکن پھر فارسی کے نقش ہائے رنگ رنگ نے ان کا دامن دل پکڑ لیا۔ اور فارسی اوڑھنا بچھونا بن گئی۔
اب فارسی میں پی ایچ ڈی کر چکی ہیں، تھوڑا عرصہ پہلے اسلامیہ یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کی سربراہ بنی ہیں۔ وہاں اگر روٹیشن سسٹم نہیں اور صدر شعبہ مستقبل ہوتے ہیں تو ڈاکٹر عصمت درانی شاید سب سے زیادہ عرصہ سربراہ رہیں گی کیونکہ کم عمری میں ہی یہ اعزاز مل گیا ہے۔
عصمت درانی نے پی ایچ ڈی تو پاکستان میں فارسی غزل کے موضوع پر کی لیکن ایک تو وہی کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی عادت اور دوسرے تحقیق کا چسکا کہ اب بھی ایک وقت میں کئی موضوعات پر مواد کی تلاش اور ترتیب کا کام جاری رکھتی ہیں۔ ان کی جستجو اور محنت کا اندازہ اس سے ہوا کہ انہوں نے ایک شخصیت پر میری اہلیہ پروفیسر مسرت کلانچوی سے کچھ معلومات چاہیں، معلوم ہوا کہ مسرت سے زیادہ معلومات پہلے ہی جمع کر چکی ہیں حالانکہ وہ شخصیت مسرت کے نانا کی تھی۔
یہ نہ سمجھیے گا کہ وہ اپنے سبجیکٹ تک محدود ہیں، ان کی تحقیق کے موضوعات گوناں گوں ہیں۔
عصمت درانی کا آبائی تعلق بھیرہ سے ہے۔ بھیرہ سے تعلق رکھنے والی کچھ شخصیات کو جانتا تھا۔ پچھلے دنوں کئی اور علم میں آئی ہیں تو بھیرہ کی مردم خیزی پر مزید یقین ہوگیا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ڈاکٹر عصمت درانی کی ایک کتاب شائع ہوئی۔ مجھے اب ملی ہے۔
ایک تحقیق کے دوران لائبریری دولت خانہ عالیہ، ریاست بہاولپور کی کتابوں کی فہرست ان کے ہاتھ لگی۔ ایک استاد نے مشورہ دیا کہ اسے ازسرنو مرتب کریں اور کتب خانہ سلطانی کا تعارف بھی شامل کریں۔ انہوں نے کام شروع کیا تو یہ پھیلتا چلا گیا۔ نتیجہ اس کتاب کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ اب اس کتاب میں صرف کتابوں کی فہرست نہیں، ریاست بہاولپور کی مختصر تاریخ بھی ہے، عباسی حکمرانوں کے قائم کردہ تمام کتب خانوں اور تعلیمی اداروں کا تذکرہ اور علمی ادبی سرگرمیوں کی جھلکیاں بھی۔ یوں یہ بہاولپور کی علمی و ادبی تاریخ کا کیپسول سا بن گیا ہے۔ کتاب میں تصویریں بھی خاصی تعداد میں ہیں۔ لیکن کئی غیر ضروری بھی ۔ ان کی جگہ کچھ اور تصویریں شامل کی جاسکتی تھیں جن کی میں توقع کررہا تھا۔ کتاب میں ایک جگہ صدیق طاہر مرحوم کا ذکر ایس ای کالج کے تاریخ کے پروفیسر کے طور پر کیا گیا ہے۔ وہ پروفیسروں سے بہت زیادہ لائق، محنتی اور محبتی انسان تھے۔ جو بھی کام کیا بہت اعلیٰ معیار کا۔ صرف 52 سال کی عمر میں چل بسے۔ زندگی مہلت دیتی تو انہوں نے بہت کام کرنا تھا۔ لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے وہ پروفیسر نہیں رہے، محکمہ اطلاعات اور نیشنل سنٹر میں کام کیا۔ ہوسکتا ہے کبھی جزوقتی تدریس کی ہو، کوئی دوست بتائے۔