’’زوال ہمیں زندگی کے تمام شعبوں ہی میں آیا ہے مگر جو حال ہم نے مذہبی رواداری کا کیا ہے، اس کی کوئی مثال نہیں! جس زمانے میں ہم بڑے ہو رہے تھے، مذہبی عدم برداشت کا وجود ہی نہ تھا۔ میں ایک کرسچین سکول میں پڑھتا تھا۔ وہاں بائبل پڑھائی جاتی تھی۔ میرے والدین نے اسے کبھی مسئلہ نہ بنایا۔ ہمارے گھر قرآن پاک پڑھانے جو قاری صاحب آتے تھے۔ وہ سنی تھے۔ انہوں نے ہمیں ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا سکھائی۔ ابا جان کے نزدیک یہ کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔ ہم ہمیشہ سے سنیوں کی محبت میں مبتلا رہے۔ ابا جان نے سنی خاتون سے شادی کی۔ پھر میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ میرے خیال میں تو ابا جان’’ شُنی ‘‘تھے (یعنی شیعہ اور سنی کا مجموعہ!) ۔ ابا جان محرم کی مجلس میں کبھی نہیں گئے۔ امی جان ضرور جاتی تھیں۔ اب میری بیگم اور بیٹیاں جاتی ہیں۔ اگرچہ میں کبھی نہیں گیا۔ محرم کے دنوں میں ہمارے محلے میں سبیلوں کا اہتمام سنی حضرات کیا کرتے۔ کرسچین سکول میں ہمارے عربی کے استاد مولوی عبدالعزیز تھے۔ کٹر سنی! بہت پارسا تھے۔ حد درجہ محتاط! ان کے عقیدت مندوں کی تعداد کثیر تھی۔ تعویذ دیتے تھے مگر معاوضہ نہیں لیتے تھے۔ مجھ پر بہت مہربان تھے۔ ان کے تعویذوں کی نقول میں تیار کیا کرتا۔ فٹ بال کے پیریڈ میں جب سب کھیل رہے ہوتے، میں تعویذ لکھا کرتا۔ پھرایک دن انہوں نے بتایا کہ چونکہ میں سید ہوں اس لئے وہ مجھے بابرکت سمجھتے تھے۔ میرا شیعہ ہونا ان کے لئے کوئی مسئلہ نہ تھا! پھر وہ دن بھی آئے کہ یہ مسئلہ بن گیا! ہمارا وطن اس نعرے سے لبالب بھر گیا جو ’’ک‘‘ سے شروع ہوتا تھا! جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں میں اسلام آباد میںرہتا تھا۔ گھر کے سامنے مسجد تھی۔ ہم شیعہ تھے نہ سنی۔ بلکہ شُنی تھے اور معیار صرف یہ تھا کہ نزدیک ترین مسجد میںجانا ہے خواہ سنیوں کی ہو یا شیعہ حضرات کی! مولوی صاحب سے اچھی خاصی گپ شپ تھی۔ حالات نے پلٹا کھایا اور وہ ایک کٹر تنظیم کے سرگرم رکن ثابت ہوئے۔ اب وہ لائوڈ سپیکر پر کھلم کھلا ’’ک‘‘ والا لفظ استعمال کرتے تھے۔ مگر میں نماز انہی کے ہاں پڑھتا رہا! ہر عید پر شیرخرما بھی ہم انہیں باقاعدگی سے بھیجتے رہے!
میں اکثر سوچتا ہوں کہ کیا ہم وقت کے پہیے کو الٹا گھما کر جنرل ضیاء الحق سے پہلے والے زمانے کو واپس لا سکتے ہیں؟ وہ زمانہ مذہبی رواداری کا اور ایک دوسرے کو محبت سے برداشت کرنے کا تھا!‘‘
یہ تحریر ہیوسٹن (امریکہ) سے ایک دردمند پاکستانی خالد رضوی صاحب نے بھیجی ہے! ہم میں سے اکثر کا بچپن اور لڑکپن اسی ماحول میں گزرا۔ ہمارے سکول کے ہیڈ ماسٹر سید فدا حسین شاہ شیعہ تھے۔(ان کے صاحبزادے سید ریاض نقوی فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین رہے) اس کالم نگار کے والد گرامی اسی سکول میں عربی اور فارسی کے استاد تھے اور شہر کی مسجد میں جمعہ کا خطبہ فی سبیل اللہ دیتے تھے۔ آدھا شہر نمازجمعہ ان کی اقتدا میں پڑھتا تھا۔ سید فدا حسین شاہ صاحب کے ہاں ہم لوگوں کا،اور ان کے کنبے کا ہمارے ہاں آنا جانا یوں تھا۔ جیسے ایک ہی گھر ہو۔ شاہ صاحب کے سارے قریبی دوست سنی تھے۔ کبھی کسی نے شیعہ سنی کا مسئلہ نہ اٹھایا۔ شہر کے سارے سنی علماء سے ان کا یارانہ تھا!
ہمارے علاقے تحصیل فتح جنگ میں سردار زمان خان دُھلیال زمیندار تھے اور شیعہ عالم بھی! اس کالم نگار کے جدامجد سے، جو فقہ اور فارسی ادب کے مانے ہوئے استاد تھے، ان کی دوستی تھی! وہ گھوڑے پر سوار آتے، کئی دن قیام فرماتے، بحث مباحثے ہوتے، دعوتیں ہوتیں، پھر وہ سواری بھیجتے اور دادا جان کو بلاتے۔ یہ وہاں کئی دن ٹھہرتے، مسائل پر گفتگو ہوتی۔ کھانے کھائے جاتے، نمازیں اکٹھی پڑھتے۔ سردار زمان خان دُھلیال کے پوتے سردار تاج خان سول سروس میں انکم ٹیکس کے اعلیٰ منصب سے ریٹائر ہوئے۔ ایک بار ان کے گھر ہم سب دوست جمع تھے۔ مغرب کی نماز کا وقت ہوا۔ دوستوں نے پکڑ کر مجھے آگے کھڑا کردیا۔ سلام پھیر کر رخ پیچھے کی طرف کیا تو دیکھا کہ سردار صاحب نے بھی نماز ہم سب کے ساتھ پڑھی تھی! ایک زمانے تک مسجدیں مشترک تھیں۔ سنی اساتذہ شیعہ بچوں کو ان کے طریقے کے مطابق نماز سکھاتے۔
ہم سکول سے کالج میں پہنچے ،بخدا ہمارے ذہنوں کے کسی دور افتادہ گوشے میں بھی یہ خیال کبھی نہ آیا کہ کون سنی ہے اور کون شیعہ۔ ہم ایک دوسرے کے گھروں میں کھاتے پیتے۔ ہماری مائیں ہم سب دوستوں کو اپنے بچوں کی طرح چاہتیں، پیار کرتیں اور کھانے کھلاتیں۔ ہم نے کبھی محرم کے احترام میں فرق دیکھا نہ کبھی کسی صحابی رسولؐ کے بارے میں کوئی قابل اعتراض بات سنی!
پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب میری بیٹی نے، جو پرائمری میں پڑھتی تھی، ایک دن معمول کی گپ شپ میں بتایا کہ اس کی جماعت میں فلاں لڑکی فلاں مسلک کی ہے۔ میں دوسرے دن ہیڈ مسٹریس صاحبہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور تشویش کا اظہار کیا۔ میرا نکتہ یہ تھا کہ جب ہمیں اپنے سکول کالج کے زمانے میں یہ نہیں معلوم تھا کہ کون کیا ہے، تو اب ان بچیوں کے ذہن میں یہ ’’معلومات‘‘کیوں ڈالی جا رہی ہیں۔ ہیڈ مسٹریس نے بے بسی میں دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور کہا کہ یہ سب کچھ سکول میں نہیں بتایا جا رہا۔ گھروں سے سن کر آتی ہیں یا ماحول پر چھائے ہوئے غبار کا اثر ہے۔
یہ آغاز تھا! یہ فرقہ واریت کی ابتدا تھی۔ اس کے بعد سارا سفر ڈھلوان کا تھا۔ ابھی تک ہم نشیب کی طرف ہی جا رہے ہیں، نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں! بگٹٹ بھاگے جا رہے ہیں۔ عقیدے سینوں کے اندر سے باہر نکل آئے ہیں اور دیواروں پر، مسجدوں کی پیشانیوں پر، گھروں کی چھتوں پر اور گاڑیوں کے عقبی شیشوں پر منتقل ہوگئے ہیں۔ اگر نہیں ہیں تو سینوں میں نہیں ہیں! افسوس! سینے ان خالی مکانوں کی طرح ہوگئے جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ خانۂ خالی را دیو می گیرد! خالی دماغ میں کوئی بھی بلا گھس سکتی ہے! ہم بلائوں کے نرغے میں ہیں! بلائوں کو دعوت بھی خود دیتے ہیں اور پھر واویلا بھی برپا کرتے ہیں!
آج ہم جس پاتال میں رہ رہے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ گزشتہ چند دنوں کے دوران چالیس سے زیادہ علماء کو حراست میں لینا پڑا۔ 1160، علماء کرام کو یہ تنبیہہ کرنا پڑی کہ وہ فلاں فلاں شہر میں تشریف نہ لے جائیں۔ ان میں شیعہ، دیوبندی، اہلحدیث، بریلوی سب شامل ہیں۔ 640 آگ اگلنے والے مقررین پر الگ پابندی لگانا پڑی اور جھگڑے کیا ہیں؟ جلوس کے راستے، اوقات، لائوڈ سپیکر کا ناروا استعمال ، نفرت انگیز مواد کی تقسیم، دیواروں پر نعروں کا لکھا جانا! ہوائی فائرنگ، ہتھیاروں کی نمائش! صوبے کی پولیس نے تقریباً نوے حضرات کے خلاف قانون شکنی کے مقدمے درج کیے ہیں۔ لاہور، فیصل آباد، سرگودھا، ساہیوال، ملتان، گوجرانوالہ، جھنگ، رحیم یار خان، چنیوٹ اور راولپنڈی کو حساس شہروں میں شمار کیا گیا ہے! فوج سے 75 کمپنیاں اور رینجر سے 12 دستے منگوانا پڑے ہیں۔ چالیس ہزار مرد اور خواتین رضاکار امن و امان قائم کرنے کے لئے متعین کیے گئے ہیں! 39 ڈرون کیمرے لگائے گئے ہیں۔ پولیس کے جوانوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس ہو کرتقریروں کی ویڈیو ریکارڈنگ کریں!
یہ ایک صوبے کا حال ہے۔ پورا ملک حالت جنگ میں ہے! بھارت نے حملہ کیا ہے نہ افغانستان سے دراندازی ہوئی ہے! ہم خود ہی ایک دوسرے کے مقابل صف آراء ہیں۔ ہم خود ہی ایک دوسرے کے دشمن ہیں! یہ فوجی کمپنیاں یہ رینجر کے دستے جو دشمن کے لئے بنے تھے، ہماری اپنی ضرورت بن گئے ہیں! پولیس جو چوروں، ڈاکوئوں کے لئے تیار کی گئی تھی، پڑھے لکھے’’رہنمائوں‘‘ کو کنٹرول کرنے میں صرف ہو رہی ہے! یہ جو ہم یہودوہنود کی دہائی دن رات دیتے ہیں تو یہودوہنود کو کیا پڑی ہے کہ اپنا وقت ضائع کریں! جو کام انہوں نے کرنا تھا، وہ ہم خود کر رہے ہیں اور شاید ان سے کہیں بہتر کر رہے ہیں!
آخر میں شاعر خوش نوا علی زریون کی ایک مختصر مگر درد مند تحریر…’’جی ہاں! درست کہا آپ نے! میری محبت اور میں ناقص ہوں! مگر میں علیؓ کی محبت میں عمرؓ کو برا کسی صورت بھی نہیں کہہ سکتا! میں عمر کی محبت میں علی سے انکار نہیں کرسکتا۔ یہ مجھ سے کسی بھی صورت کسی بھی جنم میں نہیں ہوگا! یہ میری روح ہی کے خلاف ہے۔ ایسی کوئی محبت محبت نہیں! یہ سیدھا سیدھا میرے محمدؐ کے خلاف ہے۔ جی ہاں! میرے محمدؐ جو میرے بہت اپنے ہیں! بہت زیادہ اپنے! جو مجھے بہت پیارے ہیں۔ مجھ سے یہ نہیں ہوگا! لکھوا لیجیے مجھ سے! گولی مار دیجیے مجھے، مگر مجھ سے یہ تفریق نہیں ہوتی۔ یہ نام میرے لئے محض چند ہستیوں کے اسماء نہیں ہیں۔ یہ تمام راستے ہیں۔ یہ تمام نسبتیں ہیں۔ روشن نسبتیں! آپ کا عقیدہ کچھ بھی ہو مجھے کوئی اعتراض نہیں! مجھے فرقوں میں نہیں الجھنا، مجھے جینے دیجئے۔ میرا علی ؓمیرا عمر ؓمیرا عثمان ؓمیرا صدیق ؓمجھ سے مت چھینیے۔ اب بس ہو جانی چاہیے۔ یقین کیجیے۔ اب بہت ہوگیا ہے۔ بہت سر کٹ چکے۔ بہت خون بہہ چکا۔ بہت کچھ برباد ہو چکا۔ یہ محبتیں بچا لیجیے۔ ہمارے پاس بچانے کو اور ہے بھی کیا۔ ؎
یہ بارگاہ عشق ہے بے خوف ہو کے آ
مسلک کی نفرتوں سے یہ دالان پاک ہے‘‘
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“