راولپنڈی کی مغربی مضافاتی پہاڑی ویسٹرج کے پاس ریس کورس گراؤنڈ کے بالمقابل فوجی قبرستان ہے۔ جب میں پہلے پہل یہاں آیا تھا تو پرانی سالخوردہ روشوں کے اطراف آباد پلاٹوں میں قبروں کی گنتی ابھی کم تھی۔ <img class="" src="https://pbs.twimg.com/media/GmsyHb5WMAALUPV?format=jpg&name=small" alt="Image" width="510" height="408" /> ابھی دہشت کے خلاف جنگ (War on Terror) کے عفریت سے ہمارا پالا نہیں پڑا تھا اور ایک تواتر کے ساتھ کثرت سے شہید افسروں، سپاہیوں اور سویلینز کے جسدِ خاکی اعزازی فائر اور آخری سلام کی الوداعی دھن میں زمین کو دان نہیں کیے جاتے تھے۔ سبز ہلالی پرچم اسقدر فراوانی سے تابوتوں کو ڈھکنے اور زمین کی امانت مٹی کولوٹادینےکےبعد تہہ ہوکراپناسب کچھ مادرِوطن پرنثارکردینےوالےپسماندگان کی جھولی کی زینت نہیں بنتاتھا۔ پریڈ لین میں ہنستے کھیلتے جیتےجاگتےجسموں کواس قبرستان کارزق بننےمیں ابھی دیرتھی۔ قبروں کےدرمیان چلنےوالی روشیں ابھی کم کم اورپرانی تھیں اورجنازہ گاہ کی مسجد بھی۔ یہیں ایک طرف کو ہٹ کر عام سے ایک قطعے میں جنرل ٹکا خان کا مدفن تھا، آج بھی ہے۔ وہی ٹکا خان جو مارچ 1971 میں جب لیفٹیننٹ جنرل تھے مشرقی پاکستان میں اپنے پیشرو سے کمانڈر ایسٹرن کمانڈ اور گورنر مشرقی پاکستان کا چارج سنبھالنے ڈھاکہ ایئر پورٹ پر اترے تو کمانڈر 14 ڈویژن میجر جنرل خادم راجہ سے ایک رعونت کے عالم میں مخاطب ہوکر گفتگو کو فوجی تڑکا لگاتی bloody اور hell کی ترکیبیں استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا ڈویژن اس سارے عرصے میں کیا کرتا رہا تھا کہ مشرقی پاکستان کے حالات ’کچرے کا ڈھیر‘ بن گئے تھے۔ <img class="" src="https://pbs.twimg.com/media/GmsytkGWgAArapr?format=jpg&name=900x900" alt="Image" width="508" height="406" /> جنرل ٹکا اصل میں اپنا غصہ لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب خان کے تدبیراتی فیصلے اور استعفے پر نکال رہے تھے۔ بریگیڈیئر کرار علی آغا اپنی کتاب 1971 Witness to Carnage (جس کا سلیس اردو میں ترجمہ 1971 کی بربادی کا عینی شاہد ہوگا) میں لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کی طرز کا ایک منصوبہ پہلے پہل دسمبر 1970 کے انتخابات کے وقت متوقع ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔ آپریشن Blitz (برق رفتار) کے منصوبہ ساز ہمارے صاحبزادہ یعقوب خان تھے۔ ٹاپ سیکرٹ نوعیت کی اس دستاویز کی گنتی کی نقول اس وقت تقسیم کی گئی تھیں مگر اس پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ <img class="" src="https://pbs.twimg.com/media/GmszHbtbQAILU_9?format=jpg&name=900x900" alt="Image" width="534" height="427" /> گزرتے وقت کے ساتھ آپریشن بلٹز کے خالق صاحبزادہ یعقوب خان کے خیالات میں تبدیلی آئی اور آپ مشرقی پاکستان کے سیاسی حل کے حامی ہوگئے اور اس کا لازمی نتیجہ ان کے استعفےٰ کی صورت سامنے آیا۔ مگر ان کی جگہ لینےوالے ٹکا خان کےارادےکچھ اور تھے جس کا برملا اظہار انہوں نے ڈھاکہ وارد ہوتے ہی میجر جنرل خادم راجہ کے سامنے کردیا تھا۔ صاحبزادہ کے چھوڑے ’کچرے کے ڈھیر‘ پر بے گناہ بنگالی اور بہاری خون کا رائتہ پھیلانے کی اب ان کی باری تھی۔ بقول بریگیڈیئر کرار علی آغا، لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان کی دی گئی آپریشن سرچ لائٹ کی ہدایت اصل میں صرف ایک جملہ تھا ’اوہ کچھ ہورہا ہے، تیاری میاری کرلو‘۔ بریگیڈیئر صاحب کا کہنا ہے کہ سرچ لائٹ آپریشن Blitz کے چھاپے کی ’مسلمان کردہ‘ شکل تھی۔ اکہتر کے پرآشوب مارچ کی پندرہ تاریخ کو صدرِ پاکستان جنرل آغا محمد یحییٰ خان اپنی بری فوج کے چیف آف سٹاف کے ساتھ ڈھاکہ پدھارے۔ <img class="" src="https://pbs.twimg.com/media/GmszYYmWUAAzskn?format=jpg&name=900x900" alt="Image" width="561" height="421" /> اسی شام صدر کو دی جانے والی بریفنگ میں وطن کے مشرقی بازو کی فضائیہ کے کمانڈر ایئر کموڈور ظفر مسعود نے صورتحال کی سنگینی کے تناظر میں اپنی رائے دیتے ہوئے کسی بھی طرز کے فوجی لائحۂ عمل کی کھلے الفاظ میں مخالفت کی۔ مسعود کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی بھی قدم مشرقی پاکستان میں موجود بہاری اور مغربی پاکستانی باشندوں کی جان ومال کو خطرے میں ڈال دے گا۔ صدر کے سامنے اس برملا اظہارِ رائے کا انہیں خمیازہ بھگتنا پڑا۔ ایئرکموڈور ظفر مسعود، ہلالِ جرات مشرقی پاکستان میں اپنے فرائض سے سبکدوش کردیئے گئے اور آنے والے دنوں میں صورتحال سے دلبرداشتہ ہوکر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ جنرل آغا محمد یحییٰ خان کی ہٹ دھرمی پاک فضائیہ کا ایک قابل افسر نگل گئی، مگر یہ ایک الگ قصہ ہے۔ <img src="https://pbs.twimg.com/media/GmszjuRWAAAHwNi?format=jpg&name=small" alt="Image" /> ہم واپس جنرل ٹکا خان کی اور پلٹتے ہیں جنہوں نے 17 مارچ کو اپنے دو ماتحت افسروں میجر جنرلز خادم راجہ اور راؤ فرمان کو طلب کیا۔ اول الذکر سے تو اوپر کی سطروں میں تعارف ہوچکا، ثانی الذکر مشرقی پاکستان میں گورنر کے مشیر اور مارشل لا کے فرائض کی ادائیگی میں سول معاملات سے متعلق تھے۔ <img class="" src="https://pbs.twimg.com/media/Gmszw0ebEAA7RhL?format=jpg&name=900x900" alt="Image" width="548" height="411" /> ٹکا خان نے افسروں کی اس جوڑی کو ملٹری آپریشن کی منصوبہ بندی کا کام سونپا کیونکہ شیخ مجیب سے ’مذاکرات‘ ناکام ہوگئے تھے۔ 25 / 26 مارچ کو رات گئے جب سرچ لائٹ کے احکام پر عملدرآمد کرتے ہوئے مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے دستے حرکت میں آئے تو مملکت پاکستان کا سربراہ مغربی بازو کے صدر گھر کی کمین گاہ میں اتر چکا تھا۔ اسی دن ایک نیند کے خمار اور چند گھنٹوں کی دوری پر چھبیس مارچ کی شام سوا سات بجے (مغربی پاکستانی) قوم سے خطاب میں دھاڑتے ہوئے یحییٰ خان نے کہا تھا ’ہم اقتدار کے بھوکے چند غدار لوگوں کو بارہ کروڑ عوام کی قسمت سے نہیں کھیلنے دیں گے۔ <img src="https://pbs.twimg.com/media/Gms0CRnXQAA5Yvp?format=jpg&name=small" alt="Image" /> میں نےمسلح افواج کو اپنا فرض ادا کرنے اورحکومتی اجارہ داری بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔ عوامی لیگ کی ہر قسم کی سرکاری سرگرمیوں پر پابندی لگائی جاتی ہے۔‘ صدرِ پاکستان شاید بھول رہے تھے کہ بارہ کروڑ کے ہندسے میں نصف سےکہیں زیادہ عوام کی قسمت سےکھیلنے کاحکم خود انہوں نے فوج کو دےدیاتھا۔ اس حساب سے’اقتدار کےبھوکے چندغدار لوگوں‘ کی ترکیب کس فریق پرموزوں ہوتی تھی اس کے لیےعاقل قاری کو کوئی عادِاعظم یاذواضعاف اقل نکالنےکی ضرورت نہیں سرچ لائٹ نےہتھیاروں سےلیس پاک فوج کےدونوں دھڑوں کوایک دوسرےکےمقابل کردیاتھاجس کی بھاری قیمت افسروں، جوانوں اوران کے بیوی بچوں نےادا کی۔ مستنصر حسین تارڑ کی راکھ کا ایک کردار ہے مردان۔ کیپٹن مردان جس نے کُھلنا بیرکس میں بہہ کر جم جانے، خاک نشیناں کے زمین کا رزق ہوجانے والے خون کے لوتھڑوں میں پاک فوج کے کڑیل جوانوں کو بے بس پُتلیوں کی طرح اُلٹے لٹکے ہوئے دیکھا تھا ’اس بہن یا بنگال میں کچھ بھی ٹھیک نظر نہ آتا تھا۔ ہر شے الٹی تھی۔ اور اسی لیے وہ سب اُلٹے نظر آتے تھے۔ کھلنا بیرکوں کے شہتیروں سے لٹکے ہوئے ۔۔۔ وہ تقریباً دو پلٹنیں تھیں ۔۔۔ وہ مادر زاد ننگے لٹکتے تھے۔ شاید انہیں ننگے کہنا مناسب نہ تھا کیوںکہ ان کے نفس کٹے ہوئے تھے اور وہاں صرف خون کے لوتھڑے تھے اور ان کے کان بھی نہیں تھے اور ناکیں صرف دو سوراخ تھے اور خون تھا جما ہوا۔ انہیں بے خبری میں مُکتی باہنی نے آلیا تھا اور پورے بنگال کا بدلہ ان کے کانوں، ناکوں اور نفسوں سے لیا تھا۔ وہ ایک عجیب بے ہنگم رِدھم کے ساتھ اُلٹے جھولتے تھے۔ اور اس سے اگلے روز ٹکا خان نے کہاتھا کہ مجھے بنگالی نہیں بنگال کی زمین چاہیے ۔۔ شوٹ دے باسٹرڈز ۔۔۔ بچرز آل آف دیم۔‘ ٹکا خان کے پھیلائے رائتے کو بنگالی قوام اور پان کے پتوں کا تڑکا لگانےجنرل نیازی تشریف لائیں گے۔ اس ساری اُٹھا پٹخ میں میجرجنرل راؤ فرمان وہیں رہیں گےاورسقوط کی شام جنرل نیازی اورایڈمرل شریف کےساتھ ڈھاکہ کوڈوبتادیکھیں گے ’اوئے کجھ پلّے ہے!‘ حیرت انگیز طورپرحمودالرحمٰن کمیشن راؤفرمان کو الزامات اور’سقوط‘ کےسانحےمیں کسی بھی ذمہ داری سےمبرا قراردےگا۔ بعدازریٹائرمنٹ آپ جنرل ضیاء الحق کےدور میں مزید فیوض و برکات سمیٹیں گے مگر وہ ایک الگ کہانی ہے۔ <img class="" src="https://pbs.twimg.com/media/Gms1hGobYAA2uQa?format=jpg&name=900x900" alt="Image" width="605" height="454" /> بعدازسقوط لیفٹیننٹ جنرل ٹکاخان جنہیں آپریشن سرچ لائٹ کی بدولت بچر آف بنگال کالقب مِلا کو کٹے پھٹے پاکستان کی تاریخ کاپہلا سویلین چیف مارشل لاایڈمنسٹریٹر جسےہم آپ اب قائدِعوام کہتے ہیں چھاتی پر ہلالِ جرات کی رشوت لگا جنرل کےعہدے پر ترقی دےکر پاکستان کاپہلاچیف آف آرمی سٹاف بنادے گا <img class="" src="https://pbs.twimg.com/media/Gms2Fa6XIAAYci2?format=jpg&name=900x900" alt="Image" width="564" height="705" /> بنگالیوں کورعونت کےعالم میں آزادی منہ پرماردینےوالےبھٹوکواب ایک بچےکھچے پاکستان کی باگ دوڑسنبھالنےکےبعدجنوب مغرب کی قبائلی شورش کواسی آہنی ہاتھ سے نپٹنے کی ضرورت تھی۔ بچر آف بنگال جنرل ٹکا خان، ہلالِ جرات نےڈھاکہ میں’سرچ لائٹ‘کےبعد بلوچستان کےپہاڑوں میں’ماوٗنٹین گوٹ‘ لانچ کرناتھا ویسٹرج کے فوجی قبرستان میں، جس سے کہ اس کہانی کا آغاز ہوتا ہے، جنرل ٹکا خان کے مدفن سے تھوڑا اِدھر کوہلو کی پہاڑیوں میں اپنی جان کا خراج ادا کرتے ہمارے ہر دلعزیز پلاٹون کمانڈر اور پاک فوج کے کمانڈو کرنل عامر اعوان کی قبر ہے۔ وہی کوہلو کی پہاڑیاں جن کی طرف ایک نگاہِ غلط انداز سے دیکھتے ہوئے ہمارے سپہ سالار اور صدر نے بلوچستان کے نواب کو دھمکی دی تھی، ’they won't know what has hit them‘ کوہلو کے پہاڑوں میں اماوس کی اس رات کرنل عامر اور نواب اکبر بگٹی کے ساتھ ہمارا کورس میٹ شینہہ ورگا جوان کیپٹن ضمیرعباس بھی مادرِ وطن پر اپنی جان ہار گیا تھا۔ <img class="" src="https://pbs.twimg.com/media/Gms20xSXgAAAdTP?format=jpg&name=900x900" alt="Image" width="586" height="584" /> کوہلو کی وہ رات اسقدر سفاک تو نہیں تھی کہ اتنی جانوں کو ایک لقمے میں نگل جائے، مگر اب یہ بات بھی پرانی ہوئی۔ ستر کی دہائی میں بلوچستان کے پہاڑوں میں فوجی آپریشن سے ہوتے کوہلو کے نواب کے قتل سے دامن بچاتے، جعفر ایکسپریس پر بولان پاس کی قربت میں ہوئے باغیوں کے حملے تک پہنچتے ہم آپ کافی دور نکل آئے ہیں۔ اتنا دور کہ بقول ہمارے بلوچستان کا درد رکھنے والے صحافی محمد حنیف، ہم اب غلطاں و پیچاں ہیں کہ ’what just hit us‘ اور بھی بہت کچھ بدل گیا ہے۔ ریاستی دھمکیاں اورتدبیریں بھی بدل گئی ہیں’شوٹ دے باسٹرڈز، بچرز آل آف دیم!‘ کی جگہ’رولز آف انگیجمنٹ وِل بھی چینجڈ‘ نےلےلی ہے۔ ہمارےاربابِ اختیارنالاں ہیں کہ دنیاکی صفِ اول کی جمہوریتوں بھارت اورامریکا میں بھی تولوگ غائب کیےجارہےہیں توہمارےیہاں کی جبری گمشدگیوں پر اتناواویلاکیوں ہے صاحبو امریکا فلسطین کی حمایت میں مظاہرے کرنے والوں کو دن دہاڑے غائب کررہا ہے۔ اگر آپ ہندوستان کے کشمیر میں ہیں اور مسلمان ہیں تو بہت امکان ہے کہ اٹھا لیے جائیں گے۔ بات بھی سچ ہے کہ آج کی دنیا میں فلسطینی، کشمیری یا پھر بلوچ دہشت گرد ہی تو ہیں یا پھر غدار۔ پسِ تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انعم ذکریا نے 1971 پر ایک عرق ریز کتاب لکھی تو وہیں احمد سلیم کی ایک باغیانہ نظم کی خبر بھی لائیں Two nights have befallen us Poor old forgetful mom! One night we saw moon blossoming in thy plait: On the other, we witnessed sun singeing your forehead. Two nights have befallen us Poor old forgetful mom! ……. ’لانگ لِو بنگلہ دیش‘ عرف جیےبنگلہ کےعنوان سے یہ نظم احمدسلیم نےمارچ 1971 میں لکھی تھی۔ انکےبقول یہ نظم اس شاعرکا نوحہ ہےجسکےحصے میں دوراتیں ہی آئیں۔ پہلی جسمیں اس نےچاندکو دیکھا اوردوسری جب آگ برساتا سورج اس کےسر پراترا۔ <img class="" src="https://pbs.twimg.com/media/Gms3wk-WsAAaCJR?format=jpg&name=900x900" alt="Image" width="589" height="278" /> اکہتر کے مارچ میں اس نظم کی اشاعت کے بعد ہمارے شاعر نے فوجی عدالت سے چھ مہینے قید، چھ کوڑوں کی سزا اور دوہزار روپے جرمانے کا تاوان بھرا ۔ اپنی کتاب 'We Owe an Apology to Bangladesh' کے ایک باب میں احمد سلیم لکھتے ہیں کہ اکہتر کے پرآشوب دور میں پنجاب کے فیض احمد فیض، حبیب جالب، <img class="" src="https://pbs.twimg.com/media/Gms31FMbYAAFSlz?format=jpg&name=900x900" alt="Image" width="416" height="589" /> فہمیدہ ریاض، عطا شاد، سندھ کے شیخ ایاز، بلوچستان کے گل خان نصیر، خیبر پختونخواہ کے اجمل خٹک اور چند دوسرے لکھاریوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا جو ملک کے مشرقی بازو پر ڈھائے گئے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھاتا۔ ایسے بہت سے لکھنے والے تھے جو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور جماعتِ اسلامی کی پیش کی گئی غدار بنگالیوں کی تھیوری کے خلاف تھے مگر خود ایک مجرمانہ خاموشی کے زیرِ اثر تھے۔ مادھو لال حسین اور دلا بھٹی کی دھرتی لاہور جو مغلوں کے راج میں مزاحمت کا استعارہ تھی، یہی لاہور تھا جہاں اکہتر کے اپریل میں رائٹرز گلڈ ہاوٗس نے مشرقی پاکستان میں ہندوستان کی دخل اندازی کی مخالفت میں ایک قرارداد منظور کی کہ قومی تشخص کی بقا کے لیے اٹھائے گئے ہر قدم بشمول فوجی آپریشن میں رائٹرز گلڈ حکومتِ پاکستان کی حامی تھی۔ لاہور میں ہوئے اس اجلاس کی صدارت ابوالاثر حفیظ جالندھری نے کی۔ بڑےبڑےنامی لیکھک بشمول احمدندیم قاسمی، جمیل الدین عالی، میرزا ادیب، قتیل شفائی، ڈاکٹر انور سجاد، عشرت رحمانی اوربہت سے دوسرے حکومتی اقدام کے دستِ راست بنے۔ اردو ادب کی ان قد آور شخصیات کے نزدیک پاکستان کی سلامتی اور بقا کے لیے اٹھایا گیا ہر فوجی قدم جائز و مباح تھا۔ ایک پرآشوب مارچ سے جنمے اکہتر کے خون آشام برس کے دسمبر کی جنگ میں ڈھلنے تک بڑے بڑے نام ممتاز مفتی، سید ضمیر جعفری، کرنل محمد خان، ادا جعفری، مجید امجد، شورش ملک اور بہت سے دوسرے اس بہتی دھارا میں فوجی حکومت کے دستِ راست تھے۔ عوام جنگی ترانوں اور اپنی گاڑیوں پر کرش انڈیا کے سٹیکرز کے خمار میں گم تھی۔ پاکستان کونسل کے ڈپٹی ڈائرکٹر عکسی مفتی نے تو چودہ دسمبر 1971 کو ایک سجے سجائے ٹرک پر لکھاریوں اور شاعروں کی ایک ریلی بھی نکالی تھی جہاں ادا جعفری اور باقی صدیقی کے ترانوں نے شرکاء کا لہو گرمایا تھا۔ صاحبو 2025 کا ایسا ہی پرآشوب مارچ ہے۔ جعفر ایکسپریس پر ہوئے تازہ حملے کو بہت دن نہیں گزرے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر قوم پرستی، غداری، دہشت گردی کی صداوٗں سے شرکاء مجلس کا خون گرم ہے۔ غیرملکی مداخلت کے جلو میں آہنی ہاتھوں سے نمٹنے، رولز آف انگیجمنٹ کو بدلنے اور سرکردہ سیاسی و سماجی شخصیات کی طرف سے مذمتوں کا غلغلہ ہے۔ اس ابھاگن دھرتی کے ایک صوبے میں حقوق اور دہشت کی جنگ جاری ہے مگر اس ملک کے لیکھک ایک دفعہ پھر مصلحت کوشی کے سناٹے میں چُپ سادھے بیٹھے ہیں۔ کچھ بول کر نہیں دیتے۔ برا مت منائیے گا وقت پڑنے پر ایسی چُپ تو مردے ہی سادھتے ہیں۔ راولپنڈی کی مغربی مضافاتی پہاڑی ویسٹرج کے پاس آرمی گریویارڈ میں، جہاں کے مکینوں میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے طفیل اب اضافہ ہوچلاہے، پرانے کتبوں کی قطار میں جنرل ٹکا خان اور ان سے تھوڑا آگے میجر جنرل راؤ فرمان علی خان، آپریشن سرچ لائٹ کے کلیدی کردار ایک دوسرے کے ساتھ ابدی نیند سو رہے ہیں۔ سرچ لائٹ کو نصف صدی کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ کوئی راز افشا نہیں کرتے، کسی سوال کا جواب نہیں دیتے۔ صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُـمْ لَا يَرْجِعُوْنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ <img class="" src="https://pbs.twimg.com/media/Gms4jtyaMAAdC_a?format=jpg&name=small" alt="Image" width="458" height="366" />