تصنیف حیدر مبارک اور شکریہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسین عابد کی نظموں کی کتاب ،، بہتے عکس کا بلاوا ،، جوپچھلے دنوں انڈیا میں اردو اور ہندی اسکرپٹ میں شائع ہوئی ہے · جس میں حسین عابد کی دوست ہیری انوال اور تصنیف حیدر کی کاوشین شامل ہیں ، پچھلے دنوں اس کتاب پہ انڈیا میں ایک بہت ہی خوبصورت پروگرام ہوا ہے اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں ہیری انوال اور تصنید حیدر کی کاوشین شامل ہیں ۔۔ اج تصنیف حیدر نے اس پروگرام کی رپورٹ فیس بک کی وال پہ لگائی ہے جو بذت خود ایک خوبصورت تحریر ہے ، تصنیف نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس پروگرام کی ویڈیو بھی شیر کرے گا ہمیں اور خاص طور پہ مجھے اس ویڈیو کا شدت سے انتظار ہے
میں کوئی چار پانچ سال سے تقریبا ہر رات حسین عابد سے سکائیپ پہ گفتگو کر رہا ہوں جس میں ہم نہ صرف ایک دوسرے کو اپنی نظمیں سناتے سنتے ہیں بلکہ دنیا پھر کے ادب پہ بھی گفتگو کرتے ہیں حتاکہ ہم نے مشترکہ نظمیں بھی لکھی ہیں جو ،، قہقہہ انسان نے ایجاد کیا اور کاغذ پہ بنی دھوپ کی شکل میں شائع ہو چکی ہیں
حسین عابد کی اج کی جدید نظم پہ جنتی گرفت ہے میں نے اس کے ہمعصروں میں کم دیکھی ہے بلکہ جو نظم لکھتے لکھتے بوڑھے ہو کر قبروں میں پاوں لٹکائے شاعری کر رہے ہیں مگر ایک جوان اور زندگی سے بھر پور مصرعہ نہیں لکھ پائے
جو کام بہت پہلے ہو جاانا چاہیے تھا یعنی حسین عابد کی شاعری پہ گفتگو وہ ہیری وال اور تصنیف حیدر نے کر دیکھایا ہے ،، تصنیف حیدر کا ہر ادبی کام بہت معیار کا ہوتا ہے ، اور اُس نے اس کام میں بھی اپنے اس معیار کو برقرار رکھا ہے
تصنیف حیدر تمہیں بہت بہت مبارک ہو اور تمہارا بہت بہت شکریہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گرم راتوں میں جے این یو کی ہوا کھاتے ہوئے ہر ہاسٹل پر جب ہم نے یہ اعلان چسپاں کیا کہ چار جون 2016 کو حسین عابد کی نئی کتاب ’بہکتے عکس کا بلاوا‘پر قایک پروگرام ہونا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہندی۔اردو شاعروں کی ایک محفل سجائی جانی ہے تو ہمیں امید نہیں تھی کہ لوگ اس سخت ترین موسم میں ، کیمپس میں چلنے والی چھٹیوں کے باوجود اتنی تعداد میں وہاں جمع ہونگے اور کتاب پر مکمل گفتگو سننے کے ساتھ تمام شاعروں کا کلام بھی سنیں گے۔ وجہ یہ تھی کہ یہ کوئی نمائشی قسم کا پروگرام نہیں تھا۔ اس میں آنے والے تمام لوگ وہ تھے، جن کا خالصتاً ادب سے تعلق ہے، مشاعرے بازی اور سیمینار سازی سے نہیں۔معین الدین جینابڑے جو کہ جے این یو میں ہی استاد ہیں، مشہور افسانہ نگار ہیں، جن کی کتاب تعبیر پاکستان سے بھی شائع ہوچکی ہے اور بیانیے جیسے اہم موضوع پر جن کی غیر معمولی کتاب موجود ہے۔وہ نہ صرف ہماری درخواست پر اس کتاب پہ ہونے والی گفتگو کے دوران صدارت کرنے تشریف لائے بلکہ انہوں نے آصف زہری، معید رشیدی اور میرے خیالات اس کتاب کے تعلق سے سنے اور آخر میں اپنی تفصیلی رائے سے بھی نوازا۔حسین ایاز نے اس گفتگو میں ناظم کا کردار ادا کیا اور تمام شرکا سے بہت اہم سوالات پوچھے۔یہ پروگرام بہت جلد ویڈیو کی صورت میں آپ کے سامنے موجود ہوگا۔ اس پروگرام میں ہندی اور اردو کے نئے لکھنے والے شاعر و ادیب موجود تھے۔ظاہر ہے کہ تفصیلی گفتگو کبھی نہ کبھی ویڈیو کی صورت میں آپ لوگوں کے سامنے آجائے گی، مگر فی الحال یہ بتانا مقصود ہے کہ اس پروگرام میں شارق کیفی ، نعمان شوق، مہیش ورما اور مونیکا کمار جیسے اہم شاعر موجود تھے، جن کو یقیناًاس بات سے خوشی محسوس ہوئی کہ پہلی بار کسی مشاعرے میں نہ صرف بنیادی طور پر نظم کے ایک شاعرکے حوالے سے نہ صرف گفتگو ہوئی بلکہ بعد میں بھی زیادہ تر نظمیں سنائی گئیں۔میں حسین عابد اور ہیری اتوال کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ادبی دنیا کو یہ موقع دیا کہ وہ اس کتاب پر اہم افراد سے گفتگو کراسکیں۔پروگرام میں موجود تمام افراد نے تسلیم کیا کہ اس طرح کے پروگرام کتابوں پر ہونے والی گفتگو کے تعلق سے بہت اہمیت رکھتے ہیں اور ان کا جاری رہنا بہت ضروری ہے۔آصف زہری نے اس کتاب میں موجود نظموں کا باریکی سے تجزیہ کرتے ہوئے کچھ سوالات بھی قائم کیے، جن کا جواب معید رشیدی نے اپنی گفتگو میں دیا۔نظمو ں کے اسلوب، آہنگ، بنت اور موضوعات پر یہ مختصر گفتگو ہر لحا ظ سے جامع کہی جاسکتی ہے۔چونکہ یہ کتاب حسین عابد کے مختلف مجموعہ ہائے شاعری سے کیا گیا خود ان کا ایک انتخاب ہے، اس لیے اس سے شاعر کی اپنی پسند و ناپسند پر بھی بہت حد تک روشنی پڑتی ہے۔ ممکن ہوا تو بہت جلد اس پروگرام کی کوئی تفصیلی رپورٹ تیار کرکے آپ کے سامنے پیش کروں گایا پھر ممکن ہے کہ اس کا ویڈیو ہی پہلے آجائے۔بہرحال پروگرام کامیاب رہا۔جس کے لیے میں ادبی دنیا کے مزید معاونین طیفور اشرف اور نثار احمد کا تو شکر گزار ہوں ہی، لیکن خاص طور پر جس شخص کا مجھے بے حد شکریہ ادا کرنا چاہیے اور جس کے خلوص سے یہ پروگرام بہت اچھے طور پر اپنی تکمیل کو پہنچا اس کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی، اس لیے میں شرجیل الاسلام کا نہ صرف اس معاملے میں شکریہ ادا کرنا چاہوں گا، بلکہ انہیں پروگرام کی کامیابی پر مبارکباد بھی دینا چاہوں گا، وہ خود بھی نوجوان ہوتے ہوئے ادب کی بہتر سمجھ رکھتے ہیں اور ان میں سیکھنے ، سمجھنے اور جاننے کا جذبہ ہمارے عہد کے دیگر طلبا سے کہیں زیادہ ہے۔مشاعرے کے تمام شاعروں کے ساتھ ساتھ بے حد عمدہ نظامت کرنے کے لیے میں اپنے دوست اظہر اقبال کا بھی میں شکر گزار ہوں، جن کی محبت نے واقعی پروگرام کو کامیاب بنایا۔اب آئیے حسین عابد کی چند ایسی نظموں کا مطالعہ کریں جو ان کی شاعری کی بہترین نمائندگی کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ ایسے اہم شاعر پر گفتگو ہونا کیوں ضروری ہے۔شکریہ
https://www.facebook.com/masood.qamar/posts/10154276508958390
“