چین پر ایک بڑا اور طاقتور دشمن حملہ آور ہے۔ یہ دشمن ریت کا اژدھا ہے جو اس کی بقا کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ چین اس زرد اژدھے کے مقابلے کے لئے ایک عجوبہ کھڑا کر رہا ہے۔ یہ عجوبہ عظیم دیوارِ چین ہے۔ ایسا ہی چین نے کچھ صدیاں پہلے کیا تھا لیکن اس بار دشمن مختلف ہے تو یہ دیوار بھی مختلف ہے۔ اکیسویں صدی کے چین میں بننے والی یہ عظیم دیوار سبز ہے۔
"ماحول کی حفاظت امیروں کے شوق ہیں اور یہ ہمارا مسئلہ نہیں"۔ چین میں یہ سوچ بہت عرصے تک رہی۔ یہاں تک کہ انہوں نے اس کے اثرات خود نہیں دیکھ لئے۔ چین میں جنگلات کے رقبے کا تناسب اپنے ہمسائے جاپان کی نسبت صرف پانچواں حصہ ہے۔ دنیا کی بارہ فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتا ہے۔ سلفر ڈائی آکسائیڈ میں پہلا نمبر ہے۔ کوئلے کے ذریعے کھاد کے کارخانے چلانے کی وجہ سے پانی کا استعمال اس صنعت میں گیس کے مقابلے میں بیالیس گنا زیادہ ہے۔ یانگ زی اور ییلو دریا دنیا کے دو بڑے دریاؤں میں سے ہیں۔ آبپاشی کے پراجیکٹس اور ماحولیاتی اثرات کا خیال کئے بغیر بڑے ڈیمز کی وجہ سے آبی ایکوسسٹم تباہ ہو چکا ہے۔ سال میں چھ ماہ ان میں پانی نہیں بہتا۔ نو فیصد زرعی زمین مکمل طور پر بنجر ہو چکی ہے اور نوے فیصد ڈی گریڈ ہو رہی ہے۔ جنگل کٹنے کی وجہ سے زمین کا کٹاؤ تیزرفتار ہے اور بارشوں میں تباہ کن سیلاب آتے ہیں۔ بڑے سیلاب جانی نقصان کے ساتھ اربوں ڈالر کا مالی نقصان کرتے ہیں۔ وہ طوفان جو تیس سال میں ایک آدھ بار آتے تھے، اب ہر سال آتے ہیں۔ پانی کی کمی کا شکار ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنا اسی فیصد پانی دوبارہ ویسٹ ٹریٹمنٹ کے ذریعے سائکل کر لیتے ہیں، چین میں یہ صرف بیس فیصد ہے۔ اپنی صنعتوں کے لئے یہ دنیا بھر سے الیکٹرانکس کا کچرہ امپورٹ کرتا ہے۔ اس کے ڈھیر اس کی زمین میں بڑھ رہے ہیں۔ صرف آندھیوں سے ہونے والے نقصانات ستر کروڑ ڈالر کے سالانہ ہیں۔ صحرا اس کی زمین کو تیزی سے نگل رہا ہے۔ شہری آبادی پچھلے ساٹھ برس میں سات گنا زیادہ ہو چکی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے صحت کے شعبے میں اضافی خرچ چون ارب ڈالر ہے۔ کلائمیٹ ریفیوجی باقاعدہ سٹیٹس ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اپنی آبادیاں چھوڑنا پڑ رہی ہیں کیونکہ اب اس علاقے میں رہنا ناممکن ہو چکا ہے۔
آج سے پچیس سال پہلے ایک چینی ایکولوجسٹ نے سٹیٹمنٹ دی تھی۔ "دنیا کا خاتمہ آگ سے ہو یا برف سے یا پانی سے۔ لیکن چین کا خاتمہ کچرے کے ڈھیر میں دب کر ہو گا"۔
لیکن چین خاموش نہیں۔ واپس مقابلہ کر رہا ہے۔
چین میں جس قدر تیزی سے تجارتی راستے بنانے اور دفاع پر خرچ میں اضافہ کر رہا ہے، اس سے زیادہ خرچ اب اپنے ماحول پر۔ اس حوالے سے چین میں بہت سے اقدامات لئے جا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک سبز دیوارِ چین ہے۔
صحرائے گوبی چین کی طرف شمال سے بڑھ رہا ہے۔ اس علاقے سے جنگلات چئیرمین ماؤ کے دور میں منصوبہ بندی کے ساتھ کاٹے گئے تھے۔ اب صحرا اس علاقے کو ہڑپ کر چکا ہے۔ ہر سال تین ہزار سکوائر کلومیٹر علاقہ صحرا میں بدل رہا ہے اور یہاں سے اڑنے والی زرد ریت اب ہوا میں اس قدر معلق رہتی ہے کہ بیجنگ شہر میں حدِنگاہ بڑی حد تک کم ہو گئی ہے۔
چین کی سبز دیوار اس کے آگے درختوں کی مدد سے بند باندھنے کا طریقہ ہے۔ یہ سات ارب ڈالر کا پراجیکٹ اب چوتھے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ اب تک چھیاسٹھ ارب درخت لگائے جا چکے ہیں اور یہ پروگرام 2050 تک جاری رہے گا۔ اس پروگرام کے آخر تک یہ دیوار ساڑھے جار ہزار کلومیٹر لمبی اور پندرہ کلومیٹر چوڑی ہو گی۔
یہ آسان پراجیکٹ نہیں اور کامیابی کی گارنٹی نہیں۔ کئی جگہ پر سیٹ بیک ہوئے ہیں، لیکن جہاں پر یہ مکمل ہو چکی ہے، وہاں پر صحرا کی پیشقدمی رک گئی ہے اور کچھ مقامات پر ان درختوں نے صحرا کو پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا ہے۔ صحرائے گوبی کی ریت کا زرد اژدھا اس سبز دیوار سے سر ٹکرا رہا ہے۔ یہ چین کا اپنے اس انوکھے دشمن سے مقابلے کا ایک ہتھیار ہے۔
چین اس وقت اپنے جی ڈی پی کا چودہ فیصد ماحول کو بہتر کرنے والے پراجیکٹس پر خرچ کر رہا ہے اور اس تناسب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ اس سیارے پر جاری جنگ کا ایک بڑا محاذ ہے۔
اس پر ایک رپورٹ