(Last Updated On: )
میں ایک لمبی مسافرت کا دکھ سہنے کے بعد لٹا پٹا پریشان حال اس کٹیا تک پہنچا تھا۔ کٹیا میں وہ جانے کب سے پڑا تھا اس کا کچھ کچھ اندازہ اس کی لٹوں کی صورت موجود سر کے بالوں اور لمبی الجھی داڑھی سے لگایا جا سکتاتھا۔ کُٹیا میں سوائے فقیر کی گدڑی‘ ایک مٹی کے پیالے اور جائے نماز کے کچھ بھی نہ تھا۔ میں کئی دنوں کا بھوکا تھا۔اس ویرانے میں اسے گزر بسر کے لئے کھانا کہاں سے ملتا تھا۔۔ میرے جی میں پہلا خیال یہی آیا تو وہ میری طرف دیکھ کر مسکرا دیا پھراس نے پیالے کو گدڑی سے ڈھانپا‘ کچھ دیر انتظار کیا اور اسے میری جانب بڑھا دیا۔ میں نے دیکھا پیالے میں موجود کھانے سے یوں بھاپ اٹھ رہی تھی جیسے اسے ابھی ابھی تیار کیاگیا ہو۔ حیران ہونے کے باوجود میں نے سیر ہو کر کھانا کھا یا۔ کھانا کھاتے ہی میں اونگھنے لگا تھا اور پھر سو گیا لیکن وہ شائد مجھ سے کچھ کہنا چاہتا تھا۔
میں دن بھر سوتا رہا۔ اور جب جاگا تو وہ کہیں جانے کے لیے بالکل تیار کھڑا تھا۔
میں نے اس سے پوچھا کہ کہاں کی تیاری ہے۔
”جب مجھے نہیں بتایا گیا تھا تو میں تمھیں کیوں بتاؤں۔۔تمہارے لیے اتنا جان لیناہی کافی ہے کہ پہرا بدل گیا “ اس نے کہا تھا۔ میں اس کی بات سن کر پریشان ہوگیا لیکن تسلی اس بات کی تھی کہ پیالے کی موجود گی مجھے اس ویرانے میں بھوکا مرنے سے بچا سکتی تھی کیو نکہ گدڑی‘ مٹی کے پیالے اور جائے نماز کو وہ وہیں چھوڑے جا رہا تھا، میری اس سوچ پر وہ ایک بار پھر مسکرایا اور تسلی کی خاطر، میرا ہاتھ سہلاتے ہوئے کٹیا کے باہر کی طرف چل دیا۔ جب وہ کچھ دور چلا گیا تو میں نے گدڑی سے پیالے کو ڈھانپاکچھ دیر انتظار کیا اور پھر پیا لے کو گھورنے لگا پیالہ بالکل خالی تھا تبھی میں اس کی آخری مسکراہٹ کا مطلب بھی سمجھ گیا جس کا مطلب تھا”ریاضت“۔