(Last Updated On: )
جنوبی امریکہ کے صحرا ناذکا کی سطح پر سینکڑوں فٹ لمبی اور چوڑی عجیب و غریب اشکال بنی ہوئی ہیں
یہ شکلیں اپنے اندر بہت سے اسرار سموئے ہوئے لگتی ہیں
بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ شکلیں کسی دوسری دنیا یا کسی اور سیارے سے آئی ہوئی مخلوق نے بنائی ہیں
ان شکلوں کو آپ زمین پر کھڑے ہو کر دیکھ نہیں سکتے ان کو دیکھنے کے لیے آپکو کسی بلند و بالا پہاڑ کی چوٹی پر جانا ہوگا یا پھر کسی جہاز کی سواری کرنی ہوگی
ان اشکال کا فضائی نظارہ بہت ہی حیران کن لگتا ہے اور پر اسرار محسوس ہوتا ہے
آپ بجا طور پر سوچ سکتے ہیں کہ اس میں حیرت کی ایسی کون سی بات ہے، ایسی اشکال اور مصوری کے قدیم نمونے تو دنیا میں بے شمار دریافت ہو چکے ہیں اور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ خطوط اس لحاظ سے تحیر خیزہیں جیساکہ میں نے پہلے کہا یہ خطوط زمین پرچلتے ہوے سمجھ میں نہیں آتے۔ ممکن ہے جب آپ اس خطے سے گزر رہے ہوں تو آپ کے لیے ان کی کوئی اہمیت نہ بن پائے۔
آپ یہ ہی سمجھتے ہوے گزر جائیں گے کہ کسی نے بے ہنگم لکیریں کھینچ دی ہیں۔ یہ اشکال آپ پر تب کھلتی ہیں جب آپ اس خطے پر سے ہوائی جہاز میں پرواز کر رہے ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اس قدر بڑی بڑی ہیں کہ انہیں فضاء ہی سے دیکھا جائے تو واضح ہوتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہیں پہلی بار 1927 میں پیرو کے ماہر آثار قدیمہ توریبو میجیا زسپے (Toribo Mejia Xesspe) نے یہاں کوہ پیمائی کی ایک مہم کے دوران دریافت کیا تھا۔ ان صاحب نے 1939 میں لیما میں منعقدہ ایک کانفرنس کے دوران ان کا ذکر بھی کیا تھا تاہم اس وقت ان خطوط کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تھا۔ بعد میں لونگ آئی لینڈ یونی ورسٹی کے ایک ماہر تاریخیات پال کوسوک 1940-41 میں آب پاشی کے قدیم نظاموں کا مطالعہ کر رہے تھے اور اسی سلسلے میں انہوں نے یہاں پر سے پرواز کی۔
دوران پرواز انہوں نے محسوس کیا کہ زمین پر ایک پرندے کی دیوپیکر شبیہ بنی ہوئی ہے۔ وہ حیرت سے دوچار ہوے۔۔۔۔۔
اُنکی دلچسپی بدولت دیگر ماہرین کی توجہ اس صحرا کی جانب مبذول ہوئی اور آہستہ آہستہ اسے شہرت ملنا شروع ہوئی
صحرائے نازكا براعظم جنوبی امریکہ کے ملک پیرو کے صدر مقام لیما سے کوئی 400 کلومیٹر دور جنوب کی سمت ہے جو 80 کلومیٹر کے بارانی سطح مرتفع پر نازکا اور پالپا کے شہروں کے درمیان ہے۔ اس مقام کو پامپادی جمانا (Pampa de Jumana) بھی کہا جاتا ہے،
صحرائے نازکا دوسرے صحراؤں کی طرح کا ہی ایک صحرا ہے۔ مگر ان پراسرار اشکال نے اس صحرا کو دوسرے صحراؤں سے منفرد بنا دیا اسے
بعد میں باقی گزرنے والے جہاز سواروں نے بھی تصدیق کی کہ واقعی صحرا میں یہ عجیب و غریب شکلیں بنی ہوئی ہیں
اس سے پہلے بھی سولہویں صدی میں کچھ سیاحوں نے کہا تھا کہ انہوں نے اس صحرا میں سڑکیں/راستے بنے دیکھے، جوکہ یقیناً یہی شکلیں تھیں جو بلندی سے واضح دکھائی دیتی ہیں۔ مگر اس وقت کے لوگوں نے کوئی خاص دلچسپی نہیں لی
یہ خطوط میل دو میل پر نہیں پھیلے ہوئے بلکہ انہوں نے 5 سو مربع کلومیٹر کا علاقہ گھیر رکھا ہے۔ ان میں سب سے بڑی شکل 890 فٹ پر بنی ہوئی ہے۔ ہمنگ برڈ کی شکل 310 فٹ، کونڈو کی شبیہ 440 فٹ، بندر کی 310 X 190 فٹ اور مکڑی کی ’’تصویر‘‘ ڈیڑھ سو فٹ پر پھیلی ہوئی ہے
2011 میں جاپان کی یاماگاتا یونی ورسٹی کی ایک ٹیم نے یہاں دو نئی مگر چھوٹی اشکال دریافت کی ہیں۔ ان میں ایک انسان کے سر سے مشابہ ہے اور اس کی قدامت نازکا تہذیب کے اوائل یا غالباً اس سے بھی قدیم تر ہے۔ دوسری شکل ایک جانور کی ہے لیکن اس کی قدامت کا اندازہ فی الحال نہیں ہو پایای
اب تک ہونے والی تحقیقات میں ماہرین
1150 سے زائد مختلف شکلیں دریافت کرچکے ہیں، جن میں پودوں، جانوروں کی شکلیں اور جیومیٹری کی اشکال سے ملتے جلتے نقوش شامل ہیں۔ تحقیقات یہ بھی بتاتی ہیں کہ یہ شکلیں یہاں بسنے والی ڈھائی ہزار سال پرانی نازکا تہذیب نےبنائی تھیں۔
یہاں ایک اور سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ صحرا کی ریت پر بنائی گئی یہ شکلیں اتنا عرصہ
محفوظ کیسے رہیں؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ
یہ سب کچھ بے تغیر موسم کی وجہ سے آج تک یوں محفوظ ہیں جیسے کچھ عرصہ پہلے بنائی گئی ہوں۔ واضح رہے کہ دشتِ ناز کا دنیا کے خشک ترین خطوں میں سے ایک ہے، اس کا درجہ حرارت سال بھر 25 سینٹی گریڈ یا 77 فارن ہیٹ ہی رہتا ہے اور ہوا کا گزر انتہائی کم ہے۔ ہوا اگر وہاں اپنی موجود رفتار سے تیز چلتی تو ممکن ہے گرد اس بین الاقوامی ورثے کو اب تک تہہ خاک کر چکی ہوتی
یہاں انسان کی آمد ورفت بھی بہت برائے نام رہی ہے جس کی وجہ سے یہ خطہ قدیم عرصہ سے تنہا اور الگ تھلگ سا چلا آ رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ خطوط کسی طرح کی دست برد سے محفوظ رہ گئے ہیں ورنہ یہ کندہ کاری زمین میں بہت گہری نہیں ہے البتہ جب سے انہیں 1994 میں اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے زیراہتمام عالمی ورثہ (Unesco world Heritage site) قرار دیا ہے۔
تب سے سیاحوں کا رخ ادھر ہوا ہے جس سے خدشہ پیدا ہو چلا ہے کہ یہ اشکال مٹ نہ جائیں
ادارے نے ان اشکال کو نقصان پہنچانا ایک جرم قرار دیا ہے اس جرم میں ملوث کئی افراد کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے
نازکا تہذیب کی جانب یہ اشکال بنانے کی وجہ تاحال معلوم نہیں، لیکن کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ نازکا تہذیب خُدا سے رابطے کے لیے یا خُدا کو خوش کرنے کے لیے یہ اشکال بناتی تھیں، جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ یہ کوئی فلکیاتی کیلنڈر ہوسکتا ہے اور نازکا تہذیب نے ستاروں کو دیکھ کر فلکیاتی کیلنڈر ترتیب دیتے ہوئے یہ اشکال بنائی ہوں۔
پرانے آثار، نسلیات اور عمرانیات کے ماہرین قدیم ناز کا تہذیب کے مطالعے میں مسلسل مصروف ہیں تاکہ ان خطوط کے اسرار کو بے نقاب کیا جا سکے۔ ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ نازکا دیوتا پرستوں نے اتنی عظیم الجثہ اشکال اس لیے تخلیق کی ہیں تاکہ آسمانوں پر بیٹھے ’’خدائوں کے گروہ‘‘ انہیں با آسانی دیکھ سکیں۔ کوسوک اور ریشے انہیں نجومیات اور فلکیات سے منسلک کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خطوط دراصل ایک طرح کی رصدگاہ ہیں جن کے ذریعے دور افق میں ان دور دراز مقامات کا تعین کیا جا سکے جہاں سورج اور دوسرے اجرامِ فلکی طلوع وغروب ہوتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ امریکا کے مختلف علاقوں اور دنیا کے دیگر مقامات پر زمین پر متعدد ایسے کام کیے گئے ہیں جن کا مقصد کائنات کی الوہی تشریح کرنا تھا وہ اپنے دعوے کے حق میں کاہوکیا کے مسس پی کلچر کی مثال دیتے ہیں جو آج کل ریاست ہائے متحدہ امریکا میں شامل ہے۔ اس کی اور مثال انگلستان کے سٹون ہنج کی ہے۔ انتھونی ایوینی اور جیرالڈ ہاکنز جیسے ماہرین اس مفروضے کو رد کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس مفروضے کو کوئی استدلال تقویت نہیں دیتا۔
ریشے کا کہنا ہے کہ ان میں سے خاص طور پر بعض اور عمومی طور پر تمام خطوط اور شبیہیں کائنات کی نمائندگی کرتی ہیں۔ شکاگو میں ایڈلرپلینی ٹیریئم کی ماہر فلکیات فیلس پٹلوگا نے اخذ کیا ہے کہ ان میں جو شبیہیں جانوروں کی ہیں وہ آسمان پر دکھائی دینے والی اشکال کو ظاہر کرتی ہیں وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ یہ شبیہیں افلاک پر نظر آنے والی اشکال کی نقول نہیں بل کہ ان کا رد ہیں تاہم وہ بھی اپنے دعوے کو تفصیل کے ساتھ ثابت نہیں کر پائیں۔
1985 میں ایک معروف ماہر آثار قدیمہ جوہن رینہرڈ نے ایک تفصیل شائع کی جس میں انہوں نے واضح کرنے کی کوشش کی کہ نازکا مذہب میں پہاڑوں اور آبی وسائل و ذخائر کے مقامات کی پوجا کی جاتی تھی۔ سو یہ سیکڑوں میل پر پھیلے خطوط اور اشکال دراصل ان کی ایسی مذہبی رسومات سے متعلق ہیں جو مذکورہ وسائل کی دیویاں یا دیوتا ہیں تاکہ وہ خوش ہو کر انہیں پانی اور دوسرے لوازمات زندگی سے نوازتے رہیں اور فصلیں لہلہاتی رہیں۔ یہ خطوط دراصل ان مقامات کی طرف لے جاتے ہیں جہاں پوجا کی رسومات ادا کرنا ہوتی تھیں تاہم تاحال ان پر اسرار خطوط کے بارے میں کوئی متفقہ رائے سامنے نہیں آ پائی۔
۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
یہ اشکال پراسرار تو ہیں ہی کیا یہ بہت پیچیدہ فن ہے یا ان کو بنانے کے لیے کوئی ایسی سائنس کارفرما ہے جس کو دیکھ کر سائنسدان حیران ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔
سائنسدانوں نے ان اشکال سے منسوب تمام توہمات کو رد کر دیا کیونکہ اگر نازکا صحرا کی ارضی ساخت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ صحرا ریت کی دو پرتوں پر مشتمل ہے، ریت کی پہلی پرت آئرن آکسائیڈ پر مشتمل ہے جس وجہ سے اس صحرا کا رنگ لال اور براؤن ہے جیسے زنگ آلود لوہے کا رنگ ہوتا ہے،
اس کی دوسری پرت عام صحرائی ریت پر مشتمل ہے۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ ریت کی پہلی پَرت اتنی ہلکی ہے کہ اس کو محض ہاتھ سے ہٹا دینے سے نیچے سے عام صحرائی ریت دکھائی دینا شروع ہوجاتی ہے یوں ہم بآسانی ایسی اشکال بنا سکتے ہیں، نازکا تہذیب کو ان اشکال کو بنانے میں کسی قسم کی دقت پیش نہیں آئی ہوگی اور نہ ہی ان اشکال کو بنانے کے لیے کوئی ایسی تکنیک چاہیے تھی جو ہمیں معلوم نہ ہو یا جس کی وجہ سے ان اشکال کو خلائی مخلوق کا کارنامہ کہا جاسکے۔ اس متعلق کچھ ریسرچ پیپرز بھی چھپے کہ ان خطوط کو کھینچا کیسے گیا ہے۔ نظریہ ساز دانش وروں کا کہنا ہے کہ ناز کا لوگوں نے ان کے لیے سادہ سادہ سے اوزار اور سروے کے سیدھے سبھائو آلات استعمال کیے ہیں۔ آثار کے سروے کرنے والوں کو بعض خطوط کے اختتام پر لکڑی کی بعض نوکیلی کھونٹیاں سی ملی ہیں جس سے ان کے خیال کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ جوئے نِکل نامی ایک ماہر نے، جو کنٹکی یونی ورسٹی میں پڑھاتے ہیں، نازکا عہد کے لوگوں کے اوزاروں اور آلات کے خاکے بھی تیار کر دیے۔ جنہیں دی نیشنل جیوگرافک نے اصل خطوط کی ہیئت کے قریب تر تسلیم کرکے اسے جوئے نکل کا ’’قابل ذکر‘‘ کام قرار دیا اور کہا کہ چند افراد کی ایک چھوٹی سی ٹیم محتاط منصوبہ بندی اور انتہائی سادہ ٹیکنالوجی کے ذریعے چند دنوں ہی میں نازکا خطوط سے زیادہ بڑی اشکال بنا سکتے ہیں اور اس کے لیے کسی فضائی نگہ داری کی ضرورت بھی نہیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
سب گتھیاں سلجھا لینے کے بعد بھی
ان کی پر اسراريت بدستور قائم ہے۔۔۔۔ تاحال ان اشکال کو بنائے کی وجہ دریافت نہ ہوسکی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
آپکی دلچسپی کے لیے صحرائے نازکا میں بنی اشکال میں سے چند کی تصاویر فوٹو سیکشن میں موجود ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر کے ذرائع:
ویکیپیڈیا،ایکسپریس نیوز اینڈ بی بی سی اردو