پگمیلئین قبرصی عورتوں کی بے راہ روی سے اچھی طرح آگاہ تھا،اسی لئے بہتر یہی تھا کہ وہ اکیلا سوتا۔وہ نہایت عمدہ فنکار تھا اس نے فن پر توجہ دی اور ہاتھی دانت کا ایک ایسا زنانہ پیکر بنایا جو قبرصی عورتوں سے یکلخت مختلف اور اس کی تنہائی کا ساتھی تھا۔ یہ دوشیزہ ا س قدر خوبصورت تھی کہ روئے زمین پر اس کے حسن کا کوئی ثانی نہ تھا۔ ہاتھی دانت کی اس بے جان لڑکی سے فنکار کو محبت ہوگئی۔ یہ پیکر اس کی فنکارانہ صلاحیتوں کا مظہر تھا ایسا فن کہ پیگمیلئین کو خود پر قابو نہ رہا۔ وہ اس دوشیزہ کے وجود کو یوں چھوتا جیسے وہ بے جان پتلا نہ ہو بلکہ زندہ لڑکی ہو لیکن ایسا کرنے کے بعد وہ سہم جاتا کہ کہیں وہ حسن کامل کو داغدار نہ کردے۔وہ اس سے سرگوشیاں کرتا،اس کیلئے ایسے کپڑے اور زیورات لاتا جنہیں پہن کر کنواریاں خوش ہو تی تھیں۔وہ اسے یوں سنوارتا جیسے وہ کلورس کی ملکہ ہو جو آسمان سے فقط اس کیلئے دھرتی پر آئی ہو۔ سب سے بڑھ کر جاذب نظر تو مجسمے کی عریانی سے پھوٹنے والا وہ حسن تھا جو بستر میں جگمگاتا نظر آتا تھا۔ایک رات جانے کیوں اس نے مجسمے کو دیکھ کر رونا شروع کردیا۔ یہ وہ دکھ تھا جو کسی کو نہ پاسکنے کی بے بسی کا مظہر تھا۔وجود کی ساری محبت اور پریم کے وہ آنسو جنہوں نے آنکھوں سے ٹپک کر مجسمے کے قدموں کو بگھو یاساتویں آسمان پر موجود افرودیتی ( یونانی دیوی) کو بھا گئے اور وہ اس مجسمے میں سما گئی۔
تبھی بے قراری اور وجد کی حالت میں روتے ہوئے جب پیگمیلئین نے مجسمے کے خوابیدہ لبوں کو چوما تو وہ ملائم اور ر س بھرے تھے ۔ چھاتیاں نرم سانس سے جلد جلد لرزاں اور بے انتہا حرارت لئے ہوئے تھیں، فنکار پر نیم بدحواسی چھا ہوگئی۔ اس نے دوشیزہ کو دوبارہ چھوا تبھی اسے یقین ہوگیا کہ اس کی آرزو پوری ہوئی وہ دوشیزہ کو بے قراری سے پیار کرتا رہا اس وقت تک، جب تک کہ لڑکی نے آنکھیں مکمل کھول کر فنکار کو اپنے سینے سے نہ لگا لیا۔تبھی اچانک پیگمیلئین پر عجیب سا انکشاف ہوا وہ بھی قبرصی عورتوں کی طرح ہی بے راہ رو تھی ۔