یہاں سے تیرا دیوانہ یہاں تک پہنچا
دیوندرستیارتھی
(مختصرسوانحی خاکہ(
1908ء دیوندرستیارتھی 28 مئی کوبھدوڑ ، ضلع سنگرور (پنجاب)میں پیدا ہوئے۔
1923ء مڈل اسکول پاس کیا۔ انھی دنوں گیتانجلی کا اردو ترجمہ پڑھنے کے بعد خیال آیا کہ اگر گیتانجلی پر نوبل پرائز مل سکتا ہے تو انھیں گاؤں میں بکھرے مدھر اورر نگیلے سجیلے لوک گیتوں پر کیوں نہیں مل سکتا۔
1925ء متھراداس ہائی اسکول موگا(پنجاب) سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔آریہ سماج کے سلورجبلی کے موقع پر گاندھی جی سے ملنے کا موقع ملا۔پہلے پٹیالہ کے ایک کالج میں انٹرمیڈیٹ کے لیے داخلہ لیا، وہاں کا ماحول سازگار نہ ہونے کی وجہ سے لاہور کے ڈی۔اے۔وی۔ کالج چلے گئے۔
1927ء کالج کی پڑھائی چھوڑ کرخانہ بدوشی کا آغاز کیا، لوک گیت اکٹھا کرنے کی دھن میں کشمیر سے کنیا کماری اور کلکتہ سے پیشاور تک کا سفرکیا، اسی سفر کے دوران شانتی نکیتن میں رابندرناتھ ٹیگور،روی نندن ناتھ ٹھاکر، نندلال بسو،ہزاری پرساد دویدی، مصورراماکنکر وغیرہ سے ملاقات ہوئی۔کچھ دن اجمیر میں بھی گزارے۔
1929ء دو برس کے بعد گھر لوٹے توگھمکڑی اور آوارگی پر روک لگانے کے لیے والدین نے 29 جون کو ان کی شادی کردی لیکن آوارگی کا نشہ نہیں ٹوٹا ۔ اس سال کچھ دنوں تک اجمیر میں پروف ریڈر کی حیثیت سے کام کیا۔ وہاں سے شائع ہونے والے ’ ’ستیارتھ پرکاش‘‘کی نسبت سے اپنے نام کے ساتھ ستیارتھی لکھناشروع کیا۔اسی سال کلّو، شملہ، کلکتہ اور گوہاٹی کا سفر کیا۔
1931ء دوبرس بعد گھر لوٹے ۔ اس عرصے میں بیوی بھی ساتھ تھیں۔پریم چند ، جے شنکر پرساد، رام چندر شکل وغیرہ سے ملاقات ہوئی۔
1932ء پہلی بیٹی کویتا کا جنم ہوا، اسی برس برما کاسفرکیا۔ اس کا سفرنامہ’ہنس‘ اور’وشال بھارت‘ میں شائع ہوا۔
1933ء بیوی اور بیٹی کے ساتھ مسوری اور دہرادون کا سفر کیا۔ دہرادون میں مہادیوی ورما سے پہلی ملاقات ہوئی ۔
1934ء ’ماڈرن ریویو‘ میں لوک گیتوں کی اہمیت پر پہلا مضمون شائع ہوا۔یہ مضمون انھوں نے رامانندچٹرجی کی درخواست پر لکھا تھا۔ اس مضمون سے انھیں کافی شہرت ملی۔
1935ء مہاتما گاندھی کو پہلا خط لکھا اور انھیں لوک گیت اکٹھا کرنے کے لیے کی گئی یاترا کے متعلق بتایا۔ افغانستان کے لوک گیتوں پر ان کا مضمون ’ایشیا‘ میں شائع ہوا۔ اسی سال ان کی ملاقات بلراج ساہنی اور ہندی کے ادیب اگیے سے ہوئی۔
1936ء گاندھی جی نے کاکاکالیلکر کو بھیج کر کانگریس کے اجلاس میں شرکت کے لیے بلایا۔اسی برس پنجابی زبان میں لوک گیتوں کا مجموعہ’ گِدّھا‘ شائع ہوا جس کا دیباچہ پرنسپل تیج سنگھ نے لکھا تھا۔
1937ء ممبئی کا سفر کیا۔ گاندھی جی کے حکم سے انھیں اسی کمرے میں ٹھہرایاگیا جوگاندھی جی کے لیے مخصوص تھا۔ انھوں نے وہاں تقریباً چار مہینے گزارے۔
1939ء جنوبی ہندوستان کا سفر کیا۔ چنئی کے YMCA کے ایک پروگرام میں لوک گیت پر لکچر دیا۔ اس پروگرام کی صدارت چکرورتی راج گوپال آچاریہ نے کی تھی۔
1940ء بیوی اور بیٹی کے ساتھ سری لنکا کا سفرکیا۔ رابندرناتھ ٹیگور سے ان کی آخری ملاقات ہوئی تھی۔
1941ء پنجابی زبان میں ’دیا بلے ساری رات‘(لوک گیتوں کا تجزیاتی مطالعہ)’دھرتی کی آوازیں‘ (نظموں کا مجموعہ) اور’ کنگ پوش‘ (کہانیوں کا پہلا مجموعہ )شائع ہوئے۔ امرتاشیرگل سے ملاقات ہوئی۔
1942ء اردو میں پہلا افسانوی مجموعہ ’نئے دیوتا‘ شائع ہوا۔( ستیارتھی کے علاوہ دوسرے لوگوں نے نئے دیوتا کاسالِ اشاعت 1942ء لکھا ہے لیکن مجموعہ پر 1943ء درج ہے۔(
1943ء حیدرآباد سندھ کے راستے احمدآباداورممبئی کا سفر کیا۔ وہاں بھائی ٹھکر اور گلبدن سے ملاقات ہوئی۔ اس سفر کی روداد’کاش میگھنی سے ملے ہوتے‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
1944ء آل انڈیا ریڈیو ،لاہور سے ’میں ہوں خانہ بدوش‘ ڈرامہ کی شکل میں نشر ہوا۔ اس وقت ستیارتھی نے بہت دنوں بعد اپنی داڑھی-مونچھ صاف کرائی تھی،لیکن وہ چہرہ انھیں کچھ اجنبی سا محسوس ہوا۔ اس کا ذکر ساحر لدھیانوی نے بہت دلچسپ انداز میں کیا ہے۔
1945ء اردو کہانیوں کا دوسرا مجموعہ ’اور بنسری بجتی رہی‘ شائع ہوا،(حالانکہ کتاب پر 1946ء درج ہے) ان کی ملاقات رام منوہر لوہیا اور بدری وشال پتّی سے ہوئی۔
1946ء انگریزی میں لوک گیتوں پر ان کی مشہور کتاب ’MEET MY PEOPLE‘ شائع ہوئی۔ ایم.ایس.رندھوا کی درخواست پر دہلی آگئے اور’ انڈین فارمنگ‘ کے مدیرمقرر ہوئے۔ اردو میں لوک گیتوں کا دوسرا مجموعہ ’گائے جا ہندوستان‘شائع ہوا۔
1948ء آجکل) ہندی( کے چیف ایڈیٹرمقررہوئے، ان کی دوکتابیں ’دھیرے بہو گنگا‘ اور ’دھرتی گاتی ہے‘ شائع ہوئیں۔ستیارتھی کے مطابق ’دھرتی گاتی ہے‘ راج کمل پرکاشن کی پہلی کتاب تھی۔ 6نومبرکوان کی دوسری بیٹی الکا کی پیدائش ہوئی۔
1949ء بھاشا وبھاگ پٹیالہ نے اعلی نثر نگار کا ایوارڈ دیا۔ ان کی چار کتابیں’بیلا پھولے آدھی رات‘(لوک گیتوں کا تجزیاتی مطالعہ)، ’چائے کا رنگ ‘(افسانوی مجموعہ)،’ایک یگ: ایک پرتیک‘(مضامین کا مجموعہ)او ’ریکھائیں بول اٹھیں‘ (خاکوں کا مجموعہ)شائع ہوئیں۔
1950ء ہندی میں افسانوں کے دو مجموعے (نئے دھان سے پہلے اورسڑک نہیں بندوق) اور خاکوں پرمشتمل ایک کتاب’کیا گوری کیا سانوری‘ شائع ہوئی۔پنجابی میں ’مڈکا تے کنک‘ (افسانوی مجموعہ)شائع ہوا۔ دہلی میں ان کی ملاقات پابلونرودا سے ہوئی۔
1951ء ’چتروں کی لوریاں‘نام سے ہندی لوک گیتوں کا مجموعہ شائع ہوا۔ یکم اکتوبر کو ان کی چھوٹی بیٹی پارول کی پیدائش ہوئی۔اس سال وہ ممبئی بھی گئے جہاں ساحرلدھیانوی اور بلراج ساہنی کے ساتھ کچھ وقت گزارا۔ انھیں فلم کی اسکرپٹ لکھنے کی پیش کش ہوئی مگر ستیارتھی نے منع کردیا۔
1952ء لوک گیت کی مشہور کتاب ’باجت آوے ڈھول‘ اور پہلا ناول’رتھ کے پہیے‘کی اشاعت عمل میں آئی۔
1953ء افسانوی مجموعہ ’ دیوتا ڈگ پیا‘پنجابی زبان میں شائع ہوا۔ شعری مجموعہ ’بوڑھی نہیں دھرتی‘ بھی منظرعام پر آیا۔
1954ء ناول ’کٹھ پتلی‘اور سوانح عمری کا پہلا حصہ ’چاند سورج کے بیرن‘شائع ہوا۔
1955ء یادوں پر مشتمل ہندی کتاب ’کلا کے ہستاکشر‘ شائع ہوئی۔
1956ء ناول ’برہم پتر‘شائع ہوا۔ ’ آجکل‘ (ہندی) کی ادارت سے سبکدوش ہوئے۔
1957ء شعری مجموعہ ’ لک ٹنوں ٹنوں‘ پنجابی میں شائع ہوا۔
1958ء 22ستمبر کو بڑی بیٹی کویتا کی شادی ہوئی۔ ستیارتھی کا ناول’دودھ گاچھ‘شائع ہوا۔
1959ء پاکستان سرکار کی خاص دعوت پرپنجابی شاعر کی حیثیت سے پاکستان کا سفرکیا۔
1960ء چار مہینے تک بنارس میں رہے جہاں ان کی ملاقات سدھاکر پانڈے،ترلوچن شاستری ، نامورسنگھ، ٹھاکرپرساد سنگھ اور دوسرے ادیبوں سے ہوئی۔ ان کا مشہور ناول ’کتھا کہو اروشی‘ بھی شائع ہوا۔
1961ء ’تین بوہیاں والا گھر‘ ہوا۔9دسمبر کو ان کی بڑی بیٹی کویتا کا زچگی کے دوران ہولی فیملی ہسپتال میں انتقال ہوگیا۔
1965ء پنجابی ادب میں بحث چھیڑنے والا تجرباتی ناول ’گھوڑاپادشاہ‘شائع ہوا۔
1968ء ستیارتھی ممبئی گئے۔انھوں نے کے.آصف کی فلم کے لیے بطور مددمہاراجہ برودرہ سے دس لاکھ روپے دلوائے۔ کے.آصف نے انھیں اداکاری کی پیش کش کی لیکن وہ تیار نہیں ہوئے۔
1969ء کہانیوں کا مجموعہ’پیرس کا آدمی‘ شائع ہوا۔ 20ستمبر کو دوسری بیٹی الکا کی شادی ہوئی۔
1976ء لوک گیت پر ان کے عظیم کام کے پیش نظر بھارت سرکار نے انھیں ’پدم شری‘کے اعزاز سے نوازا۔ 21جنوری کو چھوٹی بیٹی پارول کی شادی ہوئی۔
1977ء پنجاب سرکار نے ’شریشٹھ ہندی لیکھک ‘کا اعزاز عطاکیا۔
1982ء تجرباتی ناول’سوئی بازار‘(پنجابی)کی اشاعت ہوئی۔
1984ء ’کتاب نما ، دہلی‘ نے مارچ میں دیوندر ستیارتھی پر ایک گوشہ شائع کیا ، جسے اردو کے منفرد افسانہ نگار بلراج مین را نے مرتب کیا تھا۔یہ گوشہ بلراج مین را کے افسانوی مجموعہ’ مقتل‘ مطبوعہ موڈرن پبلشنگ ہاؤس دہلی،2007 ء اور ’سرخ و سیاہ‘ مرتبہ سرورالہدیٰ 2004 ء میں شامل ہے۔
1985ء خودنوشت ’نیل یکشنی‘(ہندی میں)شائع ہوئی۔
1988ء ’پنجابی ساہتیہ اکادمی‘ نے انعام سے نوازا۔اسی سال پنجاب کے پس منظر میں لکھا گیا ناول ’تیری قسم ستلج‘ شائع ہوا۔
1989ء ’سفرنامۂ پاکستان شائع ہوا۔ ہندی میں ستیارتھی کے افسانوں کا ایک انتخاب ’چنی ہوئی رچنائیں‘( مرتبہ، پرکاش منو)شائع ہوا۔ ہندی اکادمی دہلی نے خاص اعزاز دیا۔
1991ء انڈین کلچرل ایسوسی ایشن نے ستیارتھی کی جائے پیدائش بھدوڑ میں ایک پروگرام منعقد کیا اور اس میں انھیں ایوارڈ سے نوازا۔اسی سال ان کے مشہور پنجابی ناول ’گھوڑاپادشاہ‘ کا ہندی ترجمہ اور اوم پرکاش سنگھل کی مرتبہ کتاب’یایاور دیوندر ستیارتھی‘ کی اشاعت ہوئی۔
1992ء پرکاش منو کی مرتبہ کتاب’دیوندرستیارتھی:تین پیڑھیوں کاسفر‘شائع ہوئی جس میں دیوندر ستیارتھی کی شخصیت اور کارناموں پرمشہور ادیبوں اور دانشوروں کے مضامین شامل ہیں۔ ذہن جدید‘نئی دہلی نے ستمبر-نومبر میں دیوندر ستیارتھی پر ایک گوشہ شائع کیا۔
1994ء کہانیوں کا مجموعہ ’مس فوک لور‘شائع ہوا۔
1995ء پنجابی ماہنامہ ’آرسی‘نئی دہلی نے خصوصی نمبر شائع کیا اور ایک لاکھ روپے کا انعام دیا۔ اسی سال خودنوشت کا تیسرا حصہ’ہیلو گڈمین دی لالٹین ‘منظرعام پر آیا۔
1996ء آجکل نئی دہلی)اردو) نے مئی میں دیوندرستیارتھی نمبر شائع کیا۔ جس میں ان کے پانچ افسانے اور ان کے فکر و فن پر کئی مضامین شامل ہیں۔
1998ء 91ویں یوم پیدائش کے موقع پر ہندی رسالہ’ساپکش‘نے خاص نمبر شائع کیا۔جس میں ایک مضمون ’نوے برس کا سفر‘( دیوندرستیارتھی کے طویل مکالمہ کی تبدیل شدہ صورت )شائع ہوا۔
1999ء خودنوشت کا چوتھااور آخری حصہ’ناچ مری بلبل‘کی اشاعت ہوئی۔
2000ء مشہور ادیبوں اور نامور شخصیات سے متعلق یادوں کا مجموعہ ’یادوں کے قافلے‘(مرتبہ پرکاش منو اور سنجیوٹھاکر) شائع ہوا۔
2001ء پنجابی ناول’سوئی بازار‘ کا ہندی ترجمہ شائع ہوا۔
2003ء لمبی علالت کے بعد 12 فروری کو اپنی رہائش گاہ دہلی میں انتقال ہوا۔
2003ء دیوندر ستیارتھی کے انتقال کے بعد اپریل میں اردودنیا، دہلی نے ایک گوشہ شائع کیا۔
2004ء نند کشور وکرم نے ’’عالمی اردو ادب ‘‘جلد 22،میں دیوندر ستیارتھی پر ایک گوشہ شائع کیا۔ انھوں نے ستیارتھی کے تعلق سے کئی مضامین بھی لکھے ۔
2012ء ’شہرشہر آوارگی‘کے نام سے دیوندرستیارتھی کی منتشر کہانیاں دو جلدوں میں شائع ہوئیں۔
2014ء نیشنل بک ٹرسٹ نے دیوندرستیارتھی کی پچاس کہانیوں کا انتخاب شائع کیا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔