دیوتاﺅں بارے اک خواب
(ہرمن ہیسے کی ’Ein Iraum von den Göttern ‘ نامی یہ کہانی پہلی بار جرمن جرنل ’ Jugend ‘ میں 1914 ءمیں شائع ہوئی تھی ۔ ہیسے اُس وقت 37 برس کا تھا اوراُس برس 28 جولائی کو پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی تھی ۔ اس کہانی کا انگریزی ترجمہ ’A Dream About the Gods ‘ مِنیسوٹا یونیورسٹی میں جرمن زبان کے پروفیسرجیک زیپیز ’ Jack Zipes‘ نے کیا جو اس کی کتاب ’Fairy Tales of Hermann Hesse‘ میں شامل ہے ۔ یہ 1995 ء میں شائع ہوئی تھی ۔ )
ہرمن ہیسے، اردو قالب؛
میں اکیلا اور بے یارومدگار چلا جا رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ میرے ادرگرد ہر شے بے شکل اور تاریک ہو گئی ہے ۔ میں ، چنانچہ ، دوڑنے لگا اورمتلاشی ہوا کہ روشنیاں کدھر گئیں ۔ اچانک میں نے ایک نئی عمارت دیکھی جس کی کھڑکیاں منور تھیں اور اس کے دروازوں پر لگی روشنیاں ، دن کا سماں پیش کر رہی تھیں ۔ میں مرکزی دروازے سے ہوتا تیز روشنیوں سے جگمگاتے دیوان خانے میں داخل ہوا ۔ وہاں بہت سے لوگ خاموش لیکن مرکوز توجہ کے ساتھ بیٹھے تھے کیونکہ وہ سائنس کے پنڈتوں سے دلاسا لینے اور روشنی حاصل کرنے آئے تھے ۔ اِن لوگوں کے سامنے ایک چبوترے پر سائنس کا ایک پنڈت کھڑا تھا ۔ وہ کالے کپڑوں میں ملبوس ، ذہین لیکن تھکی ہوئی آنکھوں والا ایک افسردہ آدمی تھا ۔ وہ صاف ، دھیمی اور قائل کرنے والی آواز میں حاضرین میں سے بہت سوں کی طرف دیکھتے ہوئے بول رہا تھا ۔ اس کے پاس بہت سے چارٹ تھے جن پر لگی بتیاں بہت سے دیوتاﺅں کی تصاویر کو روشن کر رہی تھیں ۔ وہ ایک چارٹ پر بنے جنگ کے دیوتا کے پاس گیا اور سننے والوں کو بتانے لگا کہ یہ دیوتا ایام قدیم میں بہت پہلے، اس وقت کے لوگوں ، جن کو ابھی دنیا کے اتحاد کی طاقت کی پہچان نہ تھی ، کی خواہشات اور ضروریات کے باعث وجود میں نہیں آیا تھا بلکہ لوگ اس وقت اشیاء کو اکائی اور ان کے عارضی ہونے کے حوالے سے دیکھتے تھے چنانچہ ان پس ماندہ لوگوں نے ہر شے کے لئے الگ اور مخصوص دیوتا تخلیق کر لئے تھے۔ ۔ ۔ دھرتی اور سمندر کے دیوتا ، شکار اور جنگ کے دیوتا ، بارش اور سورج کے دیوتا ۔ پس جنگ کا دیوتا بھی وجود میں آیا ۔ واعظ نے سامعین کو نرمی سے اور کھلے انداز میں بتایا کہ اس دیوتا کا پہلا مجسمہ کب ایستادہ کیا گیا تھا اوراولین قربانیوں کا چڑھاوا کب شروع ہوا تھا ، یہاں تک کہ ’ علم‘ کی وجہ سے یہ دیوتا اضافی سمجھا جانے لگا ۔
جیسے ہی اُس نے اِس چارٹ پر جلتی بتی کو بجھانے کے لئے ہاتھ ہلایا ، جنگ کا دیوتا مدہم ہوا اور غائب ہو گیا ۔ اب اس کی جگہ نیند کے دیوتا کی تصویر نے لی ۔ اس تصویر کی وضاحت بہت عجلت سے کی گئی ، جبکہ میں اس مہربان دیوتا کے بارے میں مزید سننا چاہتا تھا ۔ اس تصویر کے غائب ہوتے ہی دوسری سامنے لائی گئیں ۔ ۔ ۔ مشروبات کا دیوتا ، پُر مسرت محبت کا دیوتا ، کاشت کاری ، شکار اور گھر کی دیویاں ۔ ان الوہی ہستیوں میں سے ہر ایک میں ایک منفرد شکل اور خوبصورتی اس طرح خارج ہوتی دکھائی دیتی تھی جیسے انتہائی دوری سے تمدن کی ابتدائی سطح سے خراج عقیدت منعکس ہو رہا ہو ۔ انہیں بھی بیان کیا گیا اور دلیلوں سے وضاحت کی گئی کہ یہ کب اور کیونکر فالتو قرار پائیں تھیں ۔ واعظ ایک کے بعد ایک نقش بجھاتا گیا اور ہر بار جب تصویر غائب ہوتی تو ایک مُنا سا احساسِ فتح ہمارے دماغوں میں گھر کرتا جس کے ساتھ ہمدردی اور تاسف بھی دل میں در آتا ۔
کچھ لوگ ، البتہ ، سارا وقت ہنستے رہے اور تالیاں بجا کر چلاتے رہے ، ” انہیں دفع کرو! “ وہ دانا کے آخری الفاظ نہ سنتے اور تصویر کے غائب ہونے کا انتظار بھی نہ کرتے ۔
توجہ سے سننے کے بعد ہم نے یہ جانا کہ نہ تو پیدائش و موت کو خاص علامتوں کی ضرورت رہی تھی نہ ہی محبت ، حسد ، نفرت یا غصے کو ، کیونکہ انسانیت کچھ عرصہ قبل ہی ان سارے دیوی دیوتاﺅں سے تھک کر الگ ہوئی تھی اور اس نے یہ حقیقت جانی تھی کہ انسانوں کی ارواح میں قوتیں اور خصوصیات الگ تھلگ موجود نہیں ہوتیں یا خشکی و سمندر میں پنہاں نہیں ہوتیں ۔ ہاں ، ابتداء سے ہی ایک قوت موجود تھی اور انسانیت کا اگلا بڑا کام یہ تھا کہ وہ اس’ ست ‘ کو تلاش کرے ۔
دیکھتے ہی دیکھتے دیوان میں اندھیرا چھانے لگا اور وہ تاریک ہوتا گیا ۔ مجھے صحیح اندازہ نہ تھا کہ ایسا تصویروں پر لگی بیتاں بجھ جانے سے ہوا تھا یا اس کی وجوہات کچھ اور تھیں جن سے میں لاعلم تھا ۔ وجہ کچھ بھی تھی ، میں نے ، البتہ ، یہ سمجھا کہ تمام اشیاء کا خالص اور لافانی منبع اس مندر میں روشن نہ ہو گا اور میں نے اس عمارت سے فرار کی ٹھانی تاکہ زیادہ روشن جگہوں کو تلاشا جا سکے ۔
لیکن اس سے پہلے کہ میں اپنے فیصلے پر عمل درآمد کرتا ، میں نے دیکھا کہ اس بڑے کمرے کا افق اور زیادہ بے کس و تاریک ہو گیا تھا اور لوگوں میں بے چینی بڑھ رہی تھی ۔ انہوں نے چیخنا چلانا شروع کر دیا تھا اور ایک دوسرے سے دھکم پیل شروع کر دی تھی جیسے طوفان کی آمد پر بھیڑیں اس سے خوفزدہ ہو کر ایک دوسرے سے بھِڑنے لگتی ہیں ۔ اب واعظ کو کوئی نہ سننا چاہتا تھا ۔ ہجوم پر ایک ہولناک خوف طاری ہو گیا تھا اور وہ دیوانے ہو کر بے قابو ہو رہے تھے ۔ میں نے چیخیں اور آہ وبکا سنی اور لوگوں کو دروازوں تک پہنچنے کے لئے طاقت کا مظاہرہ کرتے دیکھا ۔ ہوا گرد سے بھر گئی اور گندھک کی طرح دبیز ہو گئی ۔ یہ منظر انتہائی غمگین تھا اور بڑی کھڑکی کے پار یہ بھی دیکھا جا سکتا تھا کہ وہاں کچھ دہک رہا تھا اور اس میں ایک دھیمی لال چمک تھی جیسے آگ میں ہوتی ہے ۔
میں بے ہوش ہو کر فرش پر ڈھیر ہو گیا ۔ بہت سے لوگ مجھ پر سے ٹاپتے اور مجھے کچلتے بھاگنے لگے تھے ۔
جب میں ہوش میں آیا اور میں نے اپنے زخمی اور خون آلود ہاتھوں سے خود کو ٹٹول کر جانچا تو میں اس خالی اور تباہ شدہ عمارت میں اکیلا تھا ۔ عمارت کی دیواریں گر رہی تھیں اور یوں چٹخ رہی تھیں جیسے مجھ پر ہی گرنے کی دھمکی دے رہی ہوں ۔ مجھے دورسے شور ، طوفانی دھاڑ اور وقفے وقفے سے اٹھتی گرجدار آوازوں کی دھمک سنائی دے رہی تھی ۔ آگ کے شعلے ٹوٹی ہوئی دیواروں سے آتی ہوا میں ایسے ڈول رہے تھے جیسے درد سے بلبلاتے خون آلود چہروں والے لوگ لڑکھڑا رہے ہوں ۔ اس ہوا کی وجہ سے ، البتہ ، دم گھونٹے والی اداسی کی فضا چھٹ گئی تھی ۔
میں ، جیسے ہی ، کہنیوں کے بل رینگتا ’علم ‘ کے اس مندر سے باہر نکلا ، میں نے آدھے سے زیادہ شہر کو جلتے دیکھا اوراس سے اٹھتے گرم دھویں کے ستون تاریک آسما ن پرلہراتے ہوئے بلند ہو رہے تھے ۔ عمارتوں کے ملبے پر یہاں وہاں لوگوں کی لاشیں پڑی تھیں ۔ میرے چاروں طرف خاموشی تھی ، البتہ میں دورشعلوں کے اس سمندر میں چٹخنے کی آوازوں ، جو سرگوشی کی مانند سنائی دے رہی تھیں ، کو سن سکتا تھا ۔ اورمیں اس سے دور پرے جنگلی کتوں جیسی آواز اور ہولناک چیخ و پکار بھی سن رہا تھا جیسے دنیا بھر کے لوگ ایک نہ ختم ہونے والی آہ و بکا میں مصروف ہوں ۔
دنیا ڈوب رہی تھی لیکن میں اس پر کچھ زیادہ حیران نہ تھا ، جیسے مجھے ایک لمبے عرصے سے اس کا انتظار تھا ۔
مجھے ایک بچہ نظر آیا جو شعلوں اور زمین بوس ہوتے شہر سے باہر آ رہا تھا ۔ اس کے ہاتھ جیبوں میں تھے ، وہ ایک پیر سے دوسرے پر ٹاپتا ہوا چل رہا تھا اور ایک مخصوص اندازمیں سیٹی بجا رہا تھا ۔ یہ ہمارے ہائی سکول کے زمانے کی ’ دوستی ‘ کی ایک دھن تھی اور یہ بچہ میرا دوست گستوو تھا جس نے بعد ازاں یونیورسٹی میں طالب علمی کے زمانے میں خود کو گولی مار کر ہلاک کر لیا تھا ۔ اچانک میں بھی اس جیسا ہو گیا ؛ ایک بارہ سالہ بچہ ۔ ہمیں جلتا شہر ، دور اٹھتا رعد اور چاروں اطراف سے آگے بڑھتا گھن گرج اوردھاڑ سے بھرپور طوفان ہمارے کھڑے کانوں کو عجیب طرح کی خوشی دے رہا تھا ۔ اوہ ، اب سب کچھ بھلا لگ رہا تھا اور وہ بھیانک خواب ، جس میں ، میں نے بہت سے کڑے سال گزارے تھے ، نظر سے اوجھل ہو کرختم ہو گیا تھا ۔
گستوو نے نے ہنستے ہوئے ایک قلعے اور اس کے مینارکی طرف اشارہ کیا جو اسی وقت ایک دوسرے کے ساتھ زمین بوس ہوئے تھے ۔ اس کاٹھ کباڑ کو ڈھیر ہی ہونا چاہئیے تھا ! یہ کوئی حقیقی نقصان نہ تھا ۔ بندہ نئی اور زیادہ خوبصورت اشیاء بنا سکتا تھا ۔ خدا کا شکر تھا کہ گستوو پھر سے وہاں تھا اور زندگی میں پھر سے مطلب در آیا تھا ۔
اسی وقت ، شاہی عمارت کے ملبے سے اٹھنے والے گرد کے بڑے بادل سے ایک بھاری بھرکم جسم نے خود کو آزاد کیا ۔ ہم دم بخود خاموشی سے اسے گھورتے رہے ۔ آہستگی سے ایک دیوتا کا سر لمبے بازوﺅں کے ساتھ ہوا میں ابھرا اور اس دیوتا کے جسیم جسم نے فاتحانہ انداز میں دھویں سے اٹی دنیا میں قدم رکھا ۔ یہ جنگ کا دیوتا تھا ، بالکل ویسا ہی جیسا میں نے’ علم ‘ کے مندر میں چارٹ پر بنا دیکھا تھا ، فرق صرف یہ تھا کہ یہ زندہ اور بہت بڑا تھا ۔ اس کے دہکتے روشن چہرے پر ایک تکبر بھری مسکراہٹ تھی ، جیسے جوش و جذبے سے بھرے ایک لڑکے کے چہرے پر ہوتی ہے۔ اسی لمحے ، ہم نے ، بِنا کچھ کہے ، اس کی پیروی کرنا شروع کر دی اور اس کے تعاقب میں چل پڑے جیسے ہمیں پر لگ گئے ہوں اورہم رعد کی سی تیزی سے اس لمبی ، پھڑپھڑاتی اور طوفانی رات میں جلتے شہر پر اڑ رہے ہوں جس سے ہمارے دل بے قراری و فرحت سے اچھل رہے تھے ۔
جنگ کا دیوتا پہاڑ کی چوٹی پر جا کر رک گیا ۔ وہ ایک فاتح کی طرح مسرور تھا ۔ اس نے اپنی گول ڈھال لہرائی ۔ ۔ ۔ اور دنیا کی تمام اطراف کی دوریوں سے بھاری بھرکم الوہی اجسام ابھرے اور اس کی طرف بڑھے ۔ یہ دیوتا ، دیویاں ، یکش اور جن بھوت شاندار اور ان گنت نظر آتے تھے ۔ محبت کا دیوتا ہوا میں تیرتا ہوا آیا ، نیند کا دیوتا بھی قلا بازیاں کھاتا آ موجود ہوا ، نازک اندام شکار کی دیوی ناگواری سے منہ بنائے ہوئے تھی ۔ وہ آتے چلے گئے یہاں تک کہ ہماری نظر میں کوئی جگہ خالی نہ رہی اور میں ، چونکہ ، ان کے شاندار جثے دیکھ کر اندھا ہو چکا تھا ، نے اپنی نظریں جھکا لیں ۔ جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ میں اپنے دوست کے ساتھ تنہا نہیں ہوں ۔ ہمارے اردگرد نئی طرح کے بہت سے لوگ کھڑے تھے ۔ ہم سب نے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے اور ان دیوتاﺅں کے سامنے رکوع میں چلے گئے ۔ ۔ ۔ دیوی دیوتا جو گھر لوٹ آئے تھے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔