پہلی صدی عیسوی میں برطانیہ کے موجودہ شہر ’باتھ‘ کے حماموں میں نہانے کے لیے آنے والے لوگوں کے کپڑے چوری ہو جاتے تھے۔ اور ایسی صورتحال میں انھیں پتہ ہوتا تھا کہ مدد کے لیے کسے پکارنا ہے۔ جی ہاں، اسی ’سُولس‘ نامی دیوی کو جس کے بارے میں لوگوں کو یقین تھا کہ اس کا سایا شہر میں واقع تمام گرم اور ٹھنڈے پانی کے حماموں اور تالابوں پر موجود رہتا ہے۔
لوگوں کو یقین تھا کہ ’سُولس دیوی‘ نہ صرف انھیں شفا بخشتی ہے بلکہ وہ آپ کے ساتھ بُرا کرنے والوں سے بدلہ لینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ شہر باتھ میں واقع سولس دیوی سے منسوب چشمے کی کھدائی کے دوران ایسی ایک سو سے زیادہ ٹِکی نما اینٹیں اور پتھر ملے ہیں، جن پر دیوی کے نام التجائیں لکھیں ہوئی تھیں کہ جس شخص نے بھی ان کے کپڑے یا دوسری قیمتی چیزیں چرائی ہیں، دیوی انھیں قرار واقعی سزا دے۔
مجھے سولس دیوی کی یاد اس لیے آئی کہ کچھ عرصے سے لندن کے برٹش میوزیم میں ’فیمینِن پاور‘ (عورتوں کی طاقت) کے نام سے جاری ایک نمائش میں اس دیوی کا مجسمہ بھی شامل ہے۔ اس نمائش کا مقصد ایسی دیویوں کا جائزہ لینا ہے جو گذشتہ کئی صدیوں میں دنیا کی مخلتف تہذیبوں میں ایک خاص مقام رکھتی تھیں اور مختلف مذاہب کے لوگ انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
برٹش میوزیم کی اس گیلری میں سولس کے ساتھ ساتھ رومن دور کی دیوی ’منروا‘ سے لے کر قدیم مصری دیوی ’سخمت‘، ہندو مت کی ’کالی دیوی‘، جاپانی دیوی ’کانون‘ اور میکسیکو کی دیوی ’کائوٹیکیو‘ سب شامل ہیں۔
یہ بات حیران کُن ہے کہ ان میں سے بہت سی دیویوں کی پوچا متضاد صلاحیتوں کی وجہ سے کی جاتی تھی۔ مثلاً سولس کو جہاں شفا دینے والی دیوی سمجھا جاتا تھا، وہیں لوگ یہ بھی سمجھتے تھے کہ اس دیوی کا انتقام بہت بُرا ہوتا ہے۔
اسی طرح قدیم عراق و مصر میں دیوی ’انانا‘ کو جنسی طاقت اور جنگ، دونوں کی دیوی سمجھا جاتا تھا۔ ایک قدیم دعا میں اسے ایک خوفناک دیوی کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو میدان جنگ میں مردوں کے لیے موت کا پیغام لاتی ہے اور پھر مرنے والے کے لواحقین کے ساتھ ماتم بھی کرتی ہے۔
زمانہ قدیم کی کچھ دوسری تحریروں میں اسے ایک ایسی دیوی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو اگر کسی مرد پر مہربان ہو جائے تو اسے جنسی طاقت سے مالا مال کر دیتی ہے۔ اس زمانے کے بادشاہ پوری کوشش کرتے تھے کہ وہ نہ صرف اس دیوی کے ساتھ تصور میں ہمبستری کر کے اپنی جنسی طاقت بڑھائیں بلکہ میدان جنگ میں یہی دیوی انھیں مرنے سے بھی بچا لے گی۔
ایک خاص چیز جو ان دیویوں کو زمین پر موجود عام عورتوں سے ممتاز کرتی تھی وہ یہ تھی کہ دیوی مردوں اور عورتوں کے درمیان حائل معاشرتی حدود کو عبور کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ مثلاً انانا دیوی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ مرد کو عورت بنانے کی طاقت رکھتی تھے اور اگر چاہتی تو عورت کو مرد بنا دیتی تھی۔ شاید اسی لیے اسے کبھی دیوتا کہا جاتا تھا اور کبھی دیوی سمجھا جاتا تھا۔
حالیہ نمائش کے منتظمین میں سے ایک، پروفیسر میری بیئرڈ کہتی ہیں کہ یونانی تہذیب میں علم کی دیوی اتھینا میں اس قسم کی لڑاکا صلاحتیں بھی سمجھی جاتی تھیں جو اس تہذیب میں عورت کے تصور سے متصادم تھیں۔
رومن دیوی وِینس نے بھی مرد و زن کے درمیان موجود صدیوں پرانی معاشرتی سرحدوں کی خلاف ورزی کی تھی۔ انانا کی طرح اس نے بھی مَردوں کے دلوں میں جگہ میدان جنگ میں بھی بنائی اور ان کی خواب گاہوں میں بھی۔
میری بیئرڈ اس کی وضاحت یوں کرتی ہیں کہ ’یہ وِینس اور اس کی طاقت کے لیے بے پناہ ہوس ہی تھی جس نے سلطنتِ روم کو پے در پے فتوحات سے ہمکنار کیا۔ یہاں تک کہ جولیئس سیزر کا دعویٰ بھی یہی تھا کہ اس کا سلسلۂ نسب بھی وِینس سے ملتا ہے۔ اس کے بعد کے بادشاہ اور بڑے بڑے رہنما بھی وِینس اور دوسری رومن دیویوں کو اپنی طاقت کا منبع سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ منروا دیوی کو نپولین اور ملکہ الیزبتھ اوّل کے دور تک طاقت کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے۔‘
تاریخ اس بات کی نفی کرتی ہے کہ قدیم دور کی طاقتور عورتیں اور دیویاں مَردوں کے مقابلے میں خواتین کے لیے زیادہ اہم رہی ہیں۔
آٹھویں صدی کے ایک فرعون کے دور میں یہاں تک ہوا کہ فرعون وقت نے دریائے نیل کے کنارے اپنے مجوزہ مزار کے لیے سخمت دیوی کے بے شمار مجسمے تیار کرنے کا حکم دیا تھا کیونکہ اسے یقین تھا کہ دیوی اس کے مرنے کے بعد بھی اس کی سلطنت کو وبائی امراض اور طاعون سے محفوظ رکھے گی۔ ان میں سے کچھ مجسمے آج بھی سلامت ہیں۔
برٹش میوزیم میں ہونے والی نمائش کی منتظم بلنڈا کریرر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اکثر مجسموں کے بارے میں ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ مَردوں نے بنائے تھے یا عورتوں نے، لیکن ہمیں لگتا ہے کہ یہ مَردوں نے ہی بنائے تھے، لیکن ضروری نہیں یہ درست ہو۔ مثلاً اس نمائش میں ایک تانبے کی مورتی بھی رکھی گئی ہے، جو لگتا ہے کہ بنائی تو کسی مرد نے تھی لیکن اس کا بناؤ سنگھار عورتوں نے کیا تھا۔‘
خوف اور احترام ایک ساتھ
اگرچہ بہت سی دیویوں کے بارے میں سوچا جاتا تھا کہ وہ حاملہ ہونے اور بچوں کی پیدائش میں خواتین کی مدد کرتی ہیں، لیکن وہاں ایسے کردار بھی موجود تھے جنھیں اس سے الٹ کرنے کی طاقت کا سہرا دیا جاتا تھا۔
مثلاّ شیر کے سر اور گدھے کی منہ والی لماشتو دیوی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ جب کسی عورت کے ہاں بچہ پیدا ہو رہا ہوتا تھا تو لماشتو بچہ چرانے کے لیے چپکے سے گھر میں داخل ہو جاتی تھی۔ اسی طرح للتھ دیوی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ نوزائیدہ بچوں کو مار دیتی ہے اور عورتوں کو بانجھ کر دیتی ہے۔
اس قسم کے دیوتا اور دیویاں دراصل انسانوں کے حقیقی خوف کی عکاسی کرتی ہیں، جیسے نوزائیدہ بچے کا زندہ نہ بچنا یا ماں کا ہمیشہ کے لیے بانجھ ہو جانا وغیرہ۔ اس لحاظ سے یہ کہنا درست ہو گا کہ انسانوں کی بے چینی نے کئی ایسی کہانیوں کو تشکیل دینے میں مدد دی ہے جن میں ہمیں عورتوں یا دیویوں کی طاقت نظر آتی ہے۔
بہت سی قدیم تہذیبوں میں خود زمین کو بھی مؤنث سمجھا جاتا تھا یا یہ سمجھا جاتا تھا کہ زمین پر جو ہو رہا ہے وہ مختلف دیویوں کے ہاتھ میں ہے۔ مثلاً یونانی دیومالائی قصوں میں زمین پر بدلتے موسموں کی وضاحت ’دمیتر‘ اور ’پرسیفون‘ نامی دیویوں کے حوالے سے کی جاتی تھی۔
دمیتر کی کہانی کچھ یوں تھی کہ جب اس نے سُنا کہ اس کی بیٹی کو کچھ غنڈوں نے اغوا کر لیا ہے تو دمیتر سوگ میں چلی گئی اور یوں زمین پر اگنے والی وہ فصلیں جن کی حفاظت دمیتر کرتی تھی، ان فصلوں نے اُگنا چھوڑ دیا۔
اسی طرح پرسیفون کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ انار دانہ کھاتی تھی جس کی وجہ سے وہ ہر سال کچھ عرصے کے لیے تاریکی میں چلی جاتی تھی۔ اور پھر جب وہ واپس زمین پر اُبھرتی اور اپنی ماں کو خوش کرتی تو زمین پر بہار آ جاتی اور درختوں پر پھل آ جاتا۔
کچھ ایسی ہی کہانیاں ہندو مت کے دیومالائی قصوں میں ملتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شری لکشمی ایک دن غصے میں زمین کو جب چھوڑ کے جا رہی تھی تو اس نے کھیتوں میں تباہی پھیلا دی تھی۔
ان دیومالائی کہانیوں میں نظر آنے والی دیویوں کے ہاتھ میں ہمیں وہی طاقت نظر آتی ہے جس کا تصور انسان کے دماغ میں ہمیشہ سے رہا ہے۔
شیوا کی بیوی ستٌی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اپنی موت کے بعد اس کا وجود پوری کائنات میں بکھر گیا اور کچھ ٹکڑے ریاست آسام میں گرے اور جس خاص مقام پر اس کی شرمگاہ گری، عین اس مقام پر کاماکھیا کا مندر بنایا گیا۔ آج بھی ہر سال مون سون کے دنوں میں وہاں ایک تہوار منایا جاتا ہے اور زائرین اس وقت حیران ہو جاتے ہیں جب ایک قدرتی چشمے سے نکلنے والا پانی (آئرن آکسائیڈ کی وجہ سے) سُرخ ہو جاتا ہے۔ زائرین کے خیال میں سرخ پانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دیوی کے ماہواری کے دن ہیں۔ ان زائرین کی پوجا کے اپنے اپنے انداز ہیں اور ان کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کہ مَردوں نے دیویوں کے ساتھ ایسی تباہ کن طاقتیں دنیا کو یہ باور کرانے کے لیے منسلک کر دی تھیں کہ اگر زمین کا نظام کسی عورت کے ہاتھ میں دے دیا جاتا ہے تو اس کے اثرات تباہ کن ہوں گے۔
مثلاً جہاں یہ کہا گیا کہ قدیم مصر کی دیوی سخمت زمین پر نئی زندگی کی نوید دیتی ہے، لیکن وہ بھی شری لکشمی اور یونانی دیوی دمیتر کی طرح دنیا میں تباہی بھی لا سکتی ہے۔
یہاں تک کہ آج بھی جن خواتین کے ہاتھ میں طاقت ہوتی ہے، ان سے لوگ اتنا ہی خوف کھاتے ہیں جتنا ان کا احترام کرتے ہیں، یا کم از کم یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ مردوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
اگر دیومالائی قصوں سے کوئی چیز سامنے آتی ہے تو وہ یہ ہے کہ ایک طاقتور عورت نہ صرف ہر وقت آگے بڑھنے کے لیے تیار ہوتی ہے بلکہ لوگوں کی توقعات کو غلط ثابت کرنے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے۔ خواتین ہر وہ کام شاندار طریقے سے کر سکتی ہیں جس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ یہ عورتوں کے کرنے کا کام نہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...