(خربوجے دی بَھین)۔۔۔ Sister of Melon
پُھٹ (Phutt)۔۔۔ Snap Melon
آج کل کسی دیہاتی یا مضافاتی علاقے میں جائیں تو سڑک کنارے ایک بابا جی منجی پر چادر بچھا کر یا ٹوکری میں لمبوترا یا گول سا اور سبز و پیلے رنگ کا خربوزے سے ملتا جلتا پھل رکھ کے بیٹھے ہوتے ہیں، جسے پنجابی میں "پُھٹ یا پُھٹاں" کہتے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں یہ پھل ہر گاؤں میں بکثرت نظر آتا تھا لیکن اب پہلے سے بہت کم ہو گیا ہے۔
گاؤں میں جس کی پھٹاں اور خربوزے وافر مقدار میں ہوتے تھے، وہ انھیں اڑوس پڑوس میں مفتو مفت تقسیم کر دیتے تھے۔ تب لوگوں کے دل بھی بڑے ہوتے تھے اور جگرے بھی۔ اب تو اکثریت میں شوہدا پن اور مادیت پرستی اتنی ہوگئی ہے کہ گھر پڑی چیز خراب ہو جائے گی لیکن کسی کو کھانے کے لیے نہیں دیں گے۔ برکت بھی تو اسی لیے اٹھ گئی ہے نا اکثر گھروں سے۔
اللہ بخشے امی جی کہندے ہوندے سی۔۔۔ "ونڈ کھائیے تے کھنڈ کھائیے۔۔۔ اڈ کھائیے تے ڈڈ کھائیے۔"
(مل بانٹ کر کھانے سے مٹھاس اور الگ الگ کھانے سے ڈڈو یعنی بری چیز ملتی ہے)
کچھ علاقوں میں پھٹ کو کھکھڑی بھی کہتے ہیں۔ اکثر تو کھٹی میٹھی ہی ہوتی ہے لیکن کچھ پھیکی Tasteless بھی نکل آتی ہیں، ایسی ناگہانی صورت حال میں پھر ان کے پیس کے ان پر شکر، چینی یا دیسی کھنڈ چھڑک کر پچاکے مار مار کے کھائی جاتی ہے۔
جب ہم کھیتوں میں خربوزے، ہدوانے اور پھٹاں لگاتے تھے تو جب یہ پکنے کے قریب ہوتیں تو ہر بیل کے ساتھ لگا پھل چیک کرتے اور جو خاص خاص اور سوادی ہوتا، انھیں "ولّاں تھلے لُکا" دیتے تھے۔۔۔ کہ کل جب پک اور کِھڑ جائیں گی تو مزے سے کھائیں گے، لیکن اگلے دن موقع واردات پر پہنچتے تو وہاں بیج اور چِھلڑاں دیکھ کر ہم کچیچیاں وٹنے پر مجبور ہو جاتے۔ یعنی کوئی ہم سے بھی تڑکے اٹھ کے سویرے سویرے کارروائی پا جاتا تھا۔۔۔ اور ایک دن ہم نے اسے عین موقعے پر جا لیا۔۔۔ اور بس اتنا ہی کہا۔۔۔ "چلو ہُن پُھٹو ایتھوں، بووووہت پھٹاں کھالیاں۔ کیونکہ وہ تایا جی کا نکا پُت بھرا تھا۔
80 روپے سے 200 روپے کلو تک بکنے والا کھٹا میٹھا اور نرم پلپلے گودے سے لبالب بھرا ہوا یہ پھل بہت ہاضمے دار اور مزے دار ہوتا ہے۔ اس کو خربوزے کے خاندان کی 40 اقسام میں سب سے کم ویلیو دی جاتی ہے۔۔۔ اسی لیے کسی کو طنز یا تضحیک کا نشانہ بنانا ہو تو کہہ دیا جاتا ہے۔۔۔
"جا کِتے پھٹاں کھا جاکے۔"
اس پر کالا نمک چھڑک کر اور لیموں نچوڑ کر کھایا جائے تو سواد اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ بعض اوقات اس کا گودا بہت خشک ہوتا ہے اور چھیتی چھیتی یا لالچی بن کر کھانے سے یہ گلے میں پھنس بھی جاتا ہے اور پھر کمر میں مُکیاں مار مار کے یا پانی پی کے اسے گلے سے نیچے اتارنا پڑتا ہے۔۔۔ اس لیے جب کبھی پھٹاں کھانے کا موقع ملے تو ہفڑا دفڑی کی ماسا لوڑھ نشتہ۔۔۔ جتنی پھٹ نرم ہوتی ہے اتنی ہی نرمی سے کھائیں تو آپ کی طبیعت بھی پولی پولی رہے گی۔
ایک وقت میں سو گرام سے دو سو گرام یعنی ایک پاؤ تک پُھٹ کھائیں تو خیر ای خیر ہے ورنہ زیادہ کھانے سے پیٹ میں گڑبڑیشن کا پورا چانس موجود ہوتا ہے۔ دیسی لوگ دوپہر کی روٹی کے ساتھ خربوزے اور پھٹاں ضرور کھایا کرتے تھے، کیونکہ یہ کھانا ہضم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
سیانے کہندے نیں۔۔۔ "تھوڑا تھوڑا کھائیے تے چُلھے دے مُڈھ پھیر وی آئیے۔"
(یعنی تھوڑا تھوڑا کھانے سے آپ دوبارہ کھانے کے قابل رہتے ہیں، ایک ہی بار کھا لیا تو بیمار ہی ہونا ہے)
Slow and steady wins the race… and fills the belly.
سنیپ میلن (Cucumis Momordica) یا Kukomus Melo یا پھوٹ برصغیر میں پایا جانے والا عام اور سستا پھل ہے، جسے چھوٹے بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ پھٹ کا مطلب ہے ’دراڑیں یا کریکس‘ ، آپ اس پھل کے اوپر کٹنے پھٹنے کے نشان یا دراڑیں دیکھ سکتے ہیں۔ اصل میں اس کے پکنے کی نشانی ہی یہی ہے کہ یہ پک کر پھٹ جاتا ہے۔ پنجابی میں اسے کِھڑ جانا کہتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر وٹامن سی ، آئرن اور کیلشیم کے حصول کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
پھٹ ایک بیل (Creeper) پر لگتی ہے جو 1.5 میٹر (5 سے 6 فٹ) تک لمبی ہوتی ہے۔ اس پر جولائی سے ستمبر تک پھول آتے ہیں ، اور اس کا پھل اگست ستمبر میں پک جاتا ہے۔ یہ بیل بیج سے گھر میں بھی گملوں یا زمین میں آسانی سے لگائی جا سکتی ہے، اس کے لیے ریتلی اور بھالو نرم مٹی موزوں ہوتی ہے۔ اس کو بڑھنے پھولنے کے لیے دھوپ کی بہت ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ بیل سائے میں نہیں بڑھ سکتی۔qps
حکیم لوگ اس کے بیج، چھلکا اور دیگر اجزاء مختلف دواؤں میں استعمال کرتے ہیں۔ دیہات میں دوپہر کے کھانے کے ساتھ اس کی چٹنی بنا کر بھی کھائی جاتی ہے اور اس کو بطور سلاد بھی نمک مرچ لگا کر استعمال کرتے ہیں۔ اگر کہیں وانڈھے وُونڈے جاتے ہوئے سڑک پر پھٹاں نظر آ جائیں تو ٹرائی ضرور کیجیے گا یا پھر سبز منڈی سے خرید لائیے گا۔۔۔ سواد نہ آئے تو پیہے واپس۔