"Deconstruction: A school of philosophy that originated in France in the late 1960s, has had an enormous impact on Anglo-American criticism. Largely the creation of its chief proponent Jacques Derrida, deconstruction upends the Western metaphysical tradition. It represents a complex response to a variety of theoretical and philosophical movements of the 20th century, most notably Husserlian phenomenology, Saussurean and French structuralism, and Freudian and Lacanian psychoanalysis.
[First paragraph of a seven-page explanation in the Encyclopedia of Contemporary Literary Theory (Toronto: University of Toronto Press, 1993).
۔ (آمد: 15 جولائی 1930- رخصت: 9 اکتوبر 2004)
دریدا نے 1966 میں امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے ایک سیمنار" ردتشکیلیت"کا نظریہ پیش کی۔
ژاک ڈیریڈا فلسفہ "ردتشکیل" اہم مگر ایک پیچیدہ ادبی اور فکری اہم اسلوب دانش ہے. اس فلسفت میں فکری فیصلے بنیادی طور پر زبان میں باضابطہ تعصّب کے خاتمے کی نوید سناتا ہے۔ . مارکس اور ساسر کی فکر ودانش نے ردیدا کے فلسفی ردتشّکیل پر بھاری اثرات مرتب کیے، دیریدا اپنی اس فکری جنگ میں عدم مساوات کو تہس نہس کرنا چاہتے ہیں تاکہ فکر میں میں تباہی لائی جائے۔ کا استعمال کرنا چاہتا تھا انھوں نےادبی تنقید کے ذریعے اپنی فکری جنگ لڑی۔ جو ان کی نظر میں " عقلی" ہے۔ دیریدا کا خیال ہے کہ
یہ مغربی کی جدید ترین سوچ ہے جو عظیم عدم مساوات کوظاہر کرتا ہے اور یہ تاثر دیا کی یہ تعصبّات سے پاک ہے۔ حالانکہ حقیقت میں ایسی بات نہیں ہے۔
مگر باضابطہ طور پر 1975 میں دریڈا نے ایک مقالہ لکھا تھا . جس میں انھون نے "ردتشکیلت"( DECONSTRUCTION) کو متعارف کروایا تھا۔ . انھوں نے فکری اور نظری کارنامے میں افلاطون، ھوسرل فرایڈ، ہیدیگر وغیرہ جیسے عظیم مفکرین اور ادبا کے مابعدالطعبیاتی نظام فکر کےتصورات، تضادات اور افتراقات پر فکری نقد لکھا. انہوں نے کہا کہ روحانی یا مابعد الطعبیاتی نظام کو سرے سے مسترد کر دیا ، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ نظام فکر کبھی مکمل نہیں . رد تشکیل کے ذریعے دریدا نے جہاں مابعد الطبیعات پر مبنی تصورات کو چیلنج کیا وہاں قدیم تصورات کی روشنی میں اپنے لیے ایک الگ اور منفرد راہ کا تعین کیا ہے۔اس ک اصرار ہے کہ قدیم روایات نے جن معانی کا تعین کیا ہے معنویت کا مسئلہ اس کہیں آگے تک جاتا ان کے خیال میں مغربی فکر روایتی طور پر مابعدالطبیاتی جڑی ھوئی ھے۔ اس سے کئی فکری ابہام پیدا ھوئے۔ جس کو تقریر ھی محفوظ رکھ سکتی ھے۔ زبان سے بولے جانے والا لفظ کیونکہ بلاواسطہ ہوتا ھے۔ اس لیے یہ تصور لیا جاتا ھے کہ تقریر کے زریعے مطلق صداقت، اور ایک مقررہ معنی، ایک فیصلہ بنیاد جو صداقت یا معنی کے اصل بھی تصور کئے جاتے ہیں، جس میں جوہر یا مرکز تک رسائی حاصل کرنا ممکن ھو پاتا ھے۔ ان کے کیال میں ایک معنی دوسرے معنی کو مسترد کرتا ھے۔ "رد تشکیلیت" کا فلسفہ چونکہ متن ھی نہیں سارے آفاق کو صداقت اور معنی سے خالی قرار دیتا ھے۔ اس لیے لفظ قدر بھی اس کے لیے ایک جز و زائد کا حکم کا درجہ اختیار کر جاتا ھے۔ ان کے خیال میں متن کے معنی قاری کے نظریہ حیات (آئیڈیالوجی) کے درمیان بین العمل پر مبنی ھوتے ہیں ۔ اور متن کے لفظوں میں آئیڈیالوجی کا رنگ چڑھا ہوتا ھے۔ دریدا کا " رد تشکیلیت" کا نظریہ خاصا پیچیدہ اور الجھا ھوا ھے لہذا اس کی حتمی تعریف نہیں کی جاسکتی ۔ یہ ایک مبہم فلسفیانہ اصطلاح ھے. یہ جزوی طور پر نئی تشریحات کے ذریعے پرانے متں نئی زندگی تلاش کی جاتی ھے اور نئے تناظر میں متنوں کے پوشیدہ رموز کی نئے معنی، نئی تشریحات اور تفھیمات تلاش کی جاتی ھے۔ وہ معنی، پس معنی اور معنی در معنی کو الٹا کر رد معنی میں تبدیل کردیتا ھے۔ دریڈا کا خیال ھے۔کلام اور گفتار کے جڑیں تشکیک اور اعتباطی نوعیت کی ھوتی ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ھے۔ متن کے متعین معنی نہیں ھوتے۔ کیونکہ کئی موضوعی عناصر متن کی معنویت تبدیل کردیتے ہیں۔ "رد تشکیل کا مفصل مطالعہ کرنے سے اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ اس کے دو پہلو خصوصی اہمیت کے حامل ہیں ۔سب سے پہلے تو اس پہلو پر دھیان دینا ہو گا کہ وہ کون سے اسرار و رموز ہیں جن کو بروئے کا ر لاتے ہوئے ایک نقاد اپنی ناقدانہ بصیرت کے اعجاز سے تخلق کار کے متعین کردہ اس تمام نظام اقدار کو منہدم کرتا ہے جسے تخلیق کار نے اپنے فکر و فن کی اسا س بنایا اور تخلیقی عمل کا قصر عالی شان تعمیر کیا۔دریدا نے یہاں مصنف اور اس کی تمام کارکردگی کو رد تشکیل کا ہدف بنایا۔اس کے ساتھ ہی اس نے ساختیاتی تنقید کے دئیے گئے تمام نقوش مٹانے کی ٹھان لی اور اس طرح قدیم مغربی افکار کو بھی رد تشکیل کے ذریعے منہدم کرنے کی تدبیر کی جنھیں مابعد الطبیعات کی اساس کا درجہ دیا جاتا تھا۔درید کا خیال تھا کہ اس عالم آب و گل کے تما م عوامل فریب سود و زیاں کے سوا کچھ نہیں۔اس نے یہاں تک کہا کہ جو کچھ آنکھ دیکھتی ہے وہ بھی محض سراب ہے"("ردتشکیل ۔۔۔ایک مطالعہ"۔۔ از غلام شبیر رانا)
" دریدا کے مطابق ردتشکیل متن ہی کی طرح ایک تصور ہے جو" تصورات کی تاریخ " {History of Concepts} میں ہمیں حدوں اور حاشیوں کے متعلق سولات کرنے پر اکساتا ہے، جس سے معنی اور اس کی شناخت قائم ہوتی ہے۔ معنی کی شناخت کا مدار متن کے تفکیری نظام میں پائے جانے والے تضاد و تفریق پر ہوتا ہے۔ لہٰذا رد تشکیلی قرات کی ابتدا ہی اس سوال سے ہوتی ہے کہ وہ حدیں کیا ہیں؟ اور ان کی انتہا و منتہا کیا ہے؟ دریدا اپنے مشہور مضمون " Borderlines / Living on کی ابتدا ہی اس سوال سے کرتا ہے کہ ایک متن کی سرحدیں کیا ہیں؟ اور ان سرحدوں کے بارے میں ہماری آگہی کیوں کر ممکن ہو سکتی ہے؟ دریدا اس ضمن میں حضور و غیاب یعنی Absence Presence and کی بحث کرتا ہے " {Critical Inquiry, p.776, vol.15, No.49 (summer) Chicago 1989}
دریدا کی رد تشکیلی قرات کا سب سے بڑا ذریعہ " ثنوئی تضاد "{Binary Opposition } کا ہے۔ یعنی یہی وہ ذریعہ ہے جو نہ صرف یہ کہ متن کی رد تشکیلی قرات کو قوت بخشتا ہے بلکہ معنی کے مرکزمیں بھونچال کی سی کیفیت بھی پیدا کرتا دیتا ہے۔ اسی کیفیت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی متن میں معنی کے عمودی یا استماراتی جہت { Paradigm }خود بخود منتقل ہونا شروع ہو جاتی ہے۔۔ مطلب یہ کہ جو سچائی تھی وہ تصور میں تبدیل ہو جاتی ہے اور پھر متں کا تصور پس منظر میں چلا جاتا ہے۔ جب نقل مکانی کا یہ کھیل اختتام پر پہنچتا ہے تونتیجے کی صورت میں وہ سچائی جو واقعی سچائی ہوتی ہے، خود بخود متشکل ہو جاتی ہے۔
دریڈا نے اکثر متن کی معنویت کو تباہ کرنے کے لیے جو کچھ لکھا وہ اس کی معنویت کو خود بھی نہیں سمجھ پائے۔ دریدا کی ردتشکیلیت کا نظریہ ادب اور متن اور ادبی تنقید میں کا نظریہ رد بھی کیا گیا اور اس کی توسیع بھی ھوئی۔ اب " پس ردتشکیل" کا تازہ نظریہ موضوع بحث ھے۔ اس موضوع پر راقم الحروف نے اپنی کتاب ۔۔" ساختیات، تاریخ، نظریہ اور تنقید،" میں صراحت سے لکھا ھے۔ ردتشکیل کا فکری اور نظریاتی مخاطبہ یوں سمیٹا جاسکتا ھے۔ ردتشکیل کا نظریہ ایک ایسا نظریہ ھے اس پر جتنا سوچا جائے اس کی مزید الجھی ھوئی گرہیں ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ ردتشکیل کے یہ تیں/3 بینادی نکات اھم ہیں :
ہر اَدبی متن کے اپنے قبضہ معنی کو رَد کرنے کا مادہ خوداس کے اندر ہوتا ہے۔
* ردِ تشکیل کلچر، فلسفے اور ادبی معنوں کے روایتی مفروضے کو مسترد کرتا ہے۔ وہ علامات پر تمثیل کو فوقیت دیتا ہے۔
* ردِ تشکیل زبان کے "آزاد کھیل"/free play پر یقین رکھتی ہے۔ اُن کے نزدیک زبان میں کوئی اشاراتی معنی نہیں ہوتے بلکہ وہ لسانیاتی مترادفات کا آزاد استعمال free play ہے۔
ردِ تشکیل روایات کو چیلنج کرتا ہے۔ اور مغربی مابعد الطبعیات بھی ان کی یہاں مشکوک ھے۔"بیسویں صدی کے اہم ترین فرانسیسی فلسفی ژاک دریدا نے اپنی ڈی کنسٹرکشن کی تھیوری کو 1967ء میں پیش کیا تھا۔ بیشتر مفکر اسے مارکسزم کی ضد تصور کرتے تھے۔ تاہم دریدا کا ڈی کنسٹرکشن کو ایک ایسے وقت پر مارکسزم کی بنیاد پرستانہ شکل قراردینا حیران کن بات ہے جب ایک طرف مغرب میں مارکسزم کی ’موت‘ کے دعوے کیے جا رہے تھے اور دوسری طرف لیوٹارڈ جیسے فلسفی ’’مہا بیانیوں کی جانب تشکیک‘‘ کا دعویٰ کر رہے تھے۔ دریدا کا یہ کہنا مارکسزم کے مخالفین کے لیے یقیناََ تکلیف دہ ہے کہ مارکسزم کے بغیر ڈی کنسٹرکشن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بورژوا فلسفوں میں کوئی بھی ایسا فکری دھارا موجود نہیں ہے۔" (بیسویں صدی کے اہم ترین فرانسیسی فلسفی ژاک دریدا نے اپنی ڈی کنسٹرکشن کی تھیوری کو 1967ء میں پیش کیا تھا۔ بیشتر مفکر اسے مارکسزم کی ضد تصور کرتے تھے۔ تاہم دریدا کا ڈی کنسٹرکشن کو ایک ایسے وقت پر مارکسزم کی بنیاد پرستانہ شکل قراردینا حیران کن بات ہے جب ایک طرف مغرب میں مارکسزم کی ’موت‘ کے دعوے کیے جا رہے تھے اور دوسری طرف لیوٹارڈ جیسے فلسفی ’’مہا بیانیوں کی جانب تشکیک‘‘ کا دعویٰ کر رہے تھے۔ دریدا کا یہ کہنا مارکسزم کے مخالفین کے لیے یقینا تکلیف دہ ہے کہ مارکسزم کے بغیر ڈی کنسٹرکشن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بورژوا فلسفوں میں کوئی بھی ایسا فکری دھارا موجود نہیں ہے۔(بیسویں صدی کے اہم ترین فرانسیسی فلسفی ژاک دریدا نے اپنی ڈی کنسٹرکشن کی تھیوری کو 1967ء میں پیش کیا تھا۔ بیشتر مفکر اسے مارکسزم کی ضد تصور کرتے تھے۔ تاہم دریدا کا ڈی کنسٹرکشن کو ایک ایسے وقت پر مارکسزم کی بنیاد پرستانہ شکل قراردینا حیران کن بات ہے جب ایک طرف مغرب میں مارکسزم کی ’موت‘ کے دعوے کیے جا رہے تھے اور دوسری طرف لیوٹارڈ جیسے فلسفی ’’مہا بیانیوں کی جانب تشکیک‘‘ کا دعویٰ کر رہے تھے۔ دریدا کا یہ کہنا مارکسزم کے مخالفین کے لیے یقیناََ تکلیف دہ ہے کہ مارکسزم کے بغیر ڈی کنسٹرکشن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بورژوا فلسفوں میں کوئی بھی ایسا فکری دھارا موجود نہیں ہے۔( عمران شاہد بھنڈر،"مارکسزم اور ڈی کنسٹرکشن")۔ردتشکیل کے فکریات کیونکہ متن میں نہیں ھے جو تمام آفاق کو صداقت اور معنویت سے خالی گردانتی ھے۔ اس لیے لفظ قدر بھی ھے۔ جس میں ایک جز وزائدکاحکم بھی نظر آتا ھے۔ ردتشکیلیت کی انتقادیات مکمل استدلال، عقلیت، منطق اور لازمیت او باقاعدگی کی تمام فکری اقدار اور تحریمات کا منکر ھے ۔جو عموما سیاسی، اخلاقی، جمالیاتی اور تعلیمی شعبوں سے اپنے انسلاک کا احساس دلواتی ھے۔ اس میں دو آرا نہین کہ ردتشکیل نے کلبی واشاعت کے لیے راہیں ہموار کیں۔ ایک فکری تناظر میں یہ زہریلے اور خطرناک کیڑے کی طرح ھے جو فکر کے کے پودے کو اندر سے کھائے جارہا ھے، جس میں صدیوں کے معاشرتی، اساطیری ، تہذیب اور فکری کو کمال ھوشیاری سے " نفی دانش" کا خوب صورت رنگ دے کر ایک اخلاقی اور تہذیبی ' انحرافیت" کی آڑ میں بڑی خوبصورتی سے دھوکہ دیا جارہا ھے۔ نقادان فکر کا خیال ھے کہ نے " نفی دانش" ھی ردتشکیل کی اصل ھے۔ مگر اس کی بنیادی فکری اور مناجہیاتی تشکیلات نیستی، معدومیت اور لاشیئت کے خمیر سے ھی تشکیل پاتا ھے۔ جو دریدا کے خیال میں " جوہر یا مرکذ تک رسائی یا حتمی اور اساسی معنی یا معنی نطور وحدت جیسے تصورات اور ان بنیادوں پر جس مغربی فلسفے نے اپنے مابعدالطبیعیاتی تصورات کی عمارت کھڑی کی ھے،
مغربی فکر روایتی طور پر مابعدالطبیاتی جڑی ھوئی ہے۔ اس سے کئی فکری ابہام پیدا ہوئے۔ جس کو تقریر ہی محفوظ رکھ سکتی ہے۔ زبان سے بولے جانے والا لفظ کیونکہ بلاواسطہ ہوتا ہے۔ اس لیے یہ تصور لیا جاتا ہے کہ تقریر کے ذریعے مطلق صداقت اور ایک مقررہ معنی، ایک فیصلہ بنیاد جو صداقت یا معنی کے اصل بھی تصور کیے جاتے ہیں، جس میں جوہر یا مرکز تک رسائی حاصل کرنا ممکن ھو پاتا ہے۔ دریدا کے خیال میں ایک معنی دوسرے معنی کو مسترد کرتا ہے۔ محض بھرم ھے۔ وہ اس صوت مرکزیت ( phonocentrism) کا تصور اس بنیاد پر قائم ھے کہ تحریر پر تقریر کو فوقیت ھے۔" دریڈا نے ردتشکیل کا جو نظریہ پیش کیا ھے اس کے معنی کسی بھی نظرئیے یا تحریر مین کسی بیان کو منہدم کرنا نہیں بلکہ اس میں تمام ممکنہ حاضر اور غیر ھاضر معنی کو تلاش کرنا ھے۔ دوسرے ساختیاتی مفکریں کے طرح مثلا بارتھ کی طرح دریڈا بھی مرکذیت کے خلاف تھا بلکہ اس نے دوسرے ساختیاتی نقادوں اور مفکریں کے فن پاروں کے متن کی مرکذیت کو تہس نہس کیا۔ اور کثیر المونیت کی تلاش مین ایسے معنی بھی تلاش کئے جن کا فسانے میں زکر ھی نہیں ھوتا۔
" ژاک درید ا کی فقید المثال علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں اسے دنیا کی مختلف جامعات میں اسے توسیعی لیکچرز کے لیے طلب کیا گیا۔ اپنی وفات کے وقت وہ پیرس کے شہرہ آفاق مرکز تحقیق ایکول دس ہاٹس(Ecole des Hautes Etudes)میں تدریسی خدمات پر مامور تھا۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ژاک دریدا کے افکار کے جس قدر ہمہ گیر اثرات لسانیات اور ادبیات پر مرتب ہوئے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ دنیا کا کوئی نقاد اس تنوع اور ہمہ گیری میں اس کا شریک اور سہیم نہیں۔ اگرچہ ژاک دریدا کا تعلق شعبہ فلسفہ سے تھا لیکن اس کے تصورات سے لسانیات اور ادب نے فلسفہ کی نسبت زیادہ گہرے اثرات قبول کیے۔ اس کے ممتاز معاصرین میں لاسین گولڈ مین(Lucein Goldman)، زیٹن ٹوڈرو(Tzvetann Todorov)، رولاں بارتھ(Roland Barthes)اور جیکوئس لاکاں (Jacques Lacan) کے نام قابل ذکر ہیں"۔ (ژاک دریدا:حیات و ادبی خدمات پروفیسر غلام شبیر رانا)۔ دریدا نے اپنے ایک مصاحبے میں کہا تھا کہ' دیکھا جائے تو حالیہ برطانوی فلسفیانہ روایت میں خود آئیر کی فکر میں ردتشکیلی تجزے میں متوایت دیکھی جاسکتی ھے، ائیر مابعدالطبعیاتی بیانات کو ایسے غیر بیانات ثابت کرتا ھے۔کو " غیر اصل" ھیں۔ رد تشکیل بہرحال نے مابعدالطبعیات کےفکر کا رخ موڈ دیا۔مگر ردتشکیل کی فکریات کسی نئے علم یا کسی نئی حتمی منطقی ٹھوس مطلقیت کی صداقت کو بیاں کرنے سے قاصر ھے۔ مگر خاطر نشان رھے کہ ردتشکیل کی تنقید اپنی نظریاتی اصطلاحات کے اعتبار سے ہنواز الجھی ھوئی ھے جس میں ابہام تشکیک اور تکرار اب بھی باقی ھے۔ مگر یہ مباحث متنوع، منفرد ھونے کے ساتھ کچھ لوگوں کا کہنا ھے کہ یہ " بے قدر" فلسفہ ھے اور اس میں یہودی الہیات کی بو آتی ھے۔جس میں دیگر ایقان کو نیچا اور کم تر ثابت کرنے کی کوشش کی گی ھے۔راقم السطور نےاپنی کتاب۔۔۔ " ساختیات ، تاریخ ، نظریہ اور تنقید" { ۱۹۹۹، دہلی} میں ایک باب قائم کیا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...