::: ڈیرہ اسماعیل خان کےاردو کے دو ادبی رتن : جو بھلادئیے گئے" :::
ڈیرہ اسماعیل خان پاکستان کے صوبہ پختوں خواہ ( سابقہ صوبہ سرحد) ایک ایسا شہر ہے جہان پر پشتو اور سرائیکی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ یہ شہر دریائے سندہ کے مغربی دہانے پر آباد ہے۔ یہاں کے قدیم باشندوں کا تعلق لکھیسر قوم سے ہے ۔ جن کا روایتی پیشہ اسلحہ سازی رہا ہے۔ اس قبائلی مزاج کے شہر میں اردو کے شعر وادب کی توانا تاریخ اور روایت موجود ہے۔ اس خطے میں نقاد، ڈرامہ نگار، مترجم اور استاد عابد علی عابد، محقق طالب حسین اشرف، شاعر، مترجم اور ناول نگار حمزہ حسن شیخ اور نذیر اشک غلام محمد قاصر، پیامی صاحب، شہاب صفدر، طارق ہاشمی اور عمران شاہد جیسے شعرا کے نام زہن میں آتے ہیں۔ ( فہرست نامکمل ھے)۔ ہندوستان کی تقسیم سے قبل اس علاقے میں کئی اردو کے غیر مسلم شعرا اور ادبّا کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ جن میں ڈاکٹر نرندر ناتھ نجمی اور جے کرشن چودھری حبیب کی ادبی اور قومی خدمات کا مقامی لوگوں کا بھی علم نہیں۔ جنھیں انکی مٹی نے ہی بھلا دیا۔ ان کے ادبی اور علمی کارناموں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔
* ڈاکٹر نرندر ناتھ نجمی :
————————————
انھوں نے بہت کم شاعری کی اور ان کی شاعری کے اوراق ادب اردو میں کہیں معدوم ھوگئے اور وقت کی دھول نے ان کے کارناموں کو ھماری نظروں سے اوجھل کردیا۔ حالانکہ نجمی صاحب اچھے شاعر ھی نہیں بلکہ بہت پڑھے لکھے انسان بھی تھے۔ وہ ساحر ہوشیار پوری سے سے اپنے کلام پر اصلاح بھی لیتے رھے۔ ان کا مختصر مجموعہ کلام 1966 میں ۔۔" جام صد رنگ" ۔۔ کے نام سے شائع ہوچکا ہے ۔ انھوں نے انگریزی میں ۔۔" انتظام عامہ"۔۔ کے موضوع پر ایک کتاب بھی لکھی۔ پروفیسر وشواناتھ دتا نے لکھا ہے کہ نجمی صاحب ' 28 نومبر 1923 میں ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد صاحب جمنا داس پیشے کے اعتبار سے ساہو کار تھے۔۔ نجمی صاحب پڑھے لکھے، بہت لائق اور فطین انسان تھے۔ انھوں نے 1953 میں پنجاب یونیورسٹی سے بی۔اے کی سند حاصل کی۔ 1955 میں نجمی صاحب نے ھومیوپیتھی میں ڈاکٹر آف میڈسن کی سند درجہ اول میں حاصل کی۔انھوں نے انتظام عامہ (1964) اور انگریزی (1967) میں انگریزی میں ایم ۔اے کیا۔ ان کو پی ایچ ڈی کی ڈگری ان کی موت سے چند دنوں قبل 1977 میں ملی۔ بی۔اے کرنے کے بعد 1954 میں اینگلو وید مڈل اسکول ھوشیار پور کے ہیڈ ماسٹری کے عہدے پر براجمان ھوئے۔۔ دوسال یہاں ملازمت کرنے کے بعد وہ حاجی پور، امرتسر، تلہ ( ضلع کرنال، ہریانہ) کورکشیتر میں سروسز ڈیپارتمنٹ میں ملازم رہے۔۔ 26 جولائی 1977 میں بعارضہ التہاب جگر میں مبتلا ہوکر چندی گڑھ کے ایک ہسپتال میں جہاں فانی سے رخصت ہوئے۔:
********************
*جے کرشن چودھری حبیب :
————————————
ایک پڑھے لکھے اہل فن اور محب شعر وادب تھے۔ ان کے خاندان میں کوئی شاعر اور ادیب نہیں تھا۔۔ اہ اپنے خاندان کے پہلے شخص تھے۔ جنھوں نے اعلی تعلیم ہی حاصل نہیں کی بلکہ ایک بھرپور زندگی بھی گذاری۔ حبیب صاحب شہر " ٹانک" ڈیرہ اسماعیل خان میں 1904 میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدئی جماعتوں میں اردو فارسی پڑھی۔ ان کے والد صاحب کیول کرشن چودھری ( رائے صاحب) کا آبائی پیشہ زمینداری تھا۔مگر وہ وکالت کے پیشے سے منسلک تھے۔ ان کا مطالعہ خاصا وسیع تھا۔ گھر میں ایک بڑا کتاب خانہ بھی تھا۔ جس میں مختلف موضوعات کے کتب موجود تھیں۔ گھر میں کتابوں کی موجودگی سے کتابوں سے ان کا شغف ہونا فطری تھا۔ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی ( لاھرر) سے تاریخ عمومی میں بی۔ اے ( امتیازی) کی ڈگری حاصل کی ۔پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے تاریخ اور ایل ایل بی کے اسناد بھی وہیں سے حاصل کی۔ ان کی پہلی شادی ان کی مرضی کے بغیر کردی گئی۔ اس شادی سے وہ خوش نہیں تھے ۔ ان کی پہلی شادی ان کے والد نے 1937 میں موضع ڈتپھور کاچھا، ضلع لاہور کے نمبر دار سردار خوشحال سنگھ کی بیٹی اقبال کور سے ہوئی۔ اقبال کور کے بطن سے تین لڑکے اور تیں لڑکیاں پیدا ھوئیں۔ آٹھ (8) سال بعد جے کشن چودھری حبیب نے 1945 میں دوسری شادی موضع ڈتپھور، تحصیل قصور۔ ضلع لاہور کے ایک رئیس خاندان سردار گجن سنگھ کی صاحب زادی اختر جسونت کور سے ہوئی ان سے حبیب صاحب کے چار صاحبزادگان اور ایک صاحب زادی پیدا ہوئیں۔ انھوں نے اس وقت شاعری شروع کردی تھی جس زمانے میں وہ دیال سنگھ کالج، لاھور میں زیر تعلیم تھے۔ شروع میں حبیب صاحب نے بذریعہ خط وکتابت اپنی شاعری پر نند کشور اخگر فیروز پوری ( وفات: اپریل 1967) سے اصلاح لی۔ اس کے بعد وہ پنڈت میلہ رام وفا اور لبھو رام جوش ملیسانی ( وفات: جنوی 1967) سے بھی شاعری پر بھی صلاح و مشورے لیتے رہے۔ بھر انھوں نے شمس العما مولانا احسان اللہ خان تاجور نجیب آبادی ( وفات: جنوری 1951) کی شاگردی اختیار کی۔ ان کی فارسی غزل کا مقطع ملاخطہ کریں۔
۔۔۔ بیدار حق گواہ کہ در دین شاعری
جز تا جودنبو کے پیشو اے ما ۔۔۔۔۔۔
اپنے استاد تاجور نجیب آبادی کے انتقال پر انھوں نے ایک نظم لکھی ۔ اس کا آخری شعر یہ ہے :
۔۔۔ اب محفل سخن میں کوئی سحر گر کہاں
شاعر تو سینکٹروں ہیں مگر تاجور کہاں ۔۔۔۔۔۔
وہ تعلیم مکمل کرنے کے کے بعد ایبٹ آباد ( صوبہ خیبر پختوں خواہ، پاکستان) میں وکالت کرتے رہے۔ وہ قوم پرست اور نو آبادیات شکن تھے۔ شروع کے دنون میں اپنی تعلیمی مصروفیات اور دیگر پابندیوں کے سبب تحریک آزادی میں کھل کر حصہ نہ لے سکے۔ مگر بعد میں آزادی کی تحریک میں شامل ھوگے اور کانگریس میں شامل ہوکر فعال کردر ادا کیا۔ وہ ایک عرصے تک سرحدی گاندھی خان عبد الغفار خان کے خدئی خدمت کاروں میں بھی شامل رہے۔ایک زمانے میں مقامی کانگریس کمیٹی کے صدر کی حیثت سے ھی کام کرتے رہے۔ ہندوستاں کے بٹوارے کے بعد ستمبر 1947 میں ہندوستاں چلے گئے۔ 1948 سے 1952 تک تقریبا پانچ (5) سال وہ حکومت ہند کی طرف سے راجھستان میں اسسٹنٹ ریجنیل کمشنر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1953 میں انڈین ایڈمسٹریٹیو سروسیس کا امتحان پاس کیا۔ 1954 میں کلکٹر بنے۔ اس کے بعد تعلیم اور محکمہ صنعت وتجارت کے محکموں میں بھی تعینات رہے۔ 1960 میں اپنی ملازمت سے سبکدوش ھونے تک وہ مدھیہ پردیش میں "دیوان " میں ڈویژنل کمشنر مقرر ہوئے۔۔ 1963 میں ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد انھوں نے جبل پور میں اپنا مکان " آشیانہ" کے نام سے تعمیر کروایا۔ اور وہیں آباد ہوگئے۔ جے کشن چوھدری حبیب نے1932 میں انگریزی میں ایک سیاسی کتاب " GATE KEEPER OF INDIA" / (ہندوستاں کے پاسباں) کے نام سے لکھی۔ اس میں سرحد کے مسائل سے بحث کی کئی تھی۔۔ ان کی ہندی اور سنکرت سے فاضلانہ واقفیت تھی۔ اس سبب حبیب صاحب نے ان زبانوں کے شاہکاروں اور متنون سے اردو کا دامن بھر دیا۔ اس سلسلے میں ان کی تصانیف ۔۔" کالی داس، تلسی داس، بھرتری، میرا گیت، عبد الرحیم خان جاناں، " اور سنسکرت کے مشہور بھاس کے ڈراموں۔۔" سوپن دا سو رتم" ک اردو ترجمہ ۔۔" خواب شیریں" کے نام سے کیا۔ اور یہ احساس دلویا کہ سنسکرت اور ہندی کے نازک سے نازک خیالات کو اردو کا جامہ پینیا جاسکتا ہے۔۔ کالی داس اور تلسی داس کر انھیں یوپی کی حکومت نے انعام بھی دیا۔۔ شاعری میں " حبییب" تخلص کرتے تھے۔ 1976 میں ان کا مجموعہ کلام جبل پور سے ۔۔" نغمہ زندگی"۔۔کے نام سے چھپا۔۔اسے دیو ناگری رسم الخط میں بھی منتقل کیا گیا۔ 19، اگست 1977 جعہ کی شام جبل پور میں انتقال ہوا۔ ان کی ارتھی اگلے روز سنیچر کے دن اٹھائی گئی۔ ان کا جسد خاکی کو رانی تال کے شمشان گھاٹ پر نذر آتش کیا گیا ۔:::
::: ماخذات ::
* " وفیات" ۔سہ ماہی " تحریر" (43) مرتب مالک رام، جنوری/ مارچ 1978 ، دہلی۔
* مقدمہ " نغمہ زندگی" ۔ از کوثر چاند پوری۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔