عرب کے ایک فلسفی شاعر نے کہا ہے”بڑئے کارناموں کے لیے بڑئے نفوس ہی درکار ہوتے ہیں“۔عرب کے اس بوڑھے فلسفی کی بات پر اگر غور کیا جاے تو کوئی شک نہیں ہے کہ میدان کربلاکے واقعہ میں اہل بیت کی قربانیوں اور امام عالی مقام ؓ کے نفس بزرگی اور ان کے کردار کی رفعت کے متعلق اندازہ ہوتا ہے کہ بنی نوع انسان کی معلوم تاریخ کے اندر اہل بیت سے بڑئے کردار کی حامل کوئی شخصیت نہیں گذری۔ سچ تو یہ ہے کہ نواسہ رسولﷺ امام عالی مقامؓ جیسی عظیم المرتبت ہستی کی نسبت سے ہی واقعہ کربلا کی اہمیت وعظمت میں اضافہ ہوا ہے۔خانوادہ رسولﷺ کی موجودگی نے ہی مورخوں کو کربلا کے صحرا کی ریت چھاننے پر مجبور کردیا۔
یہ بھی تو ایک تاریخی حقیقت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ دنیا بھر کی زبانوں میں جتنا اس صحرا کے متعلق لکھا گیا ہے اسکا عشر عشیر بھی کسی نخلستان کے متعلق نہیں لکھا گیا۔کربلا میں اہل بیت کے ایام عزا ء پرآج تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور جب تک کاغذ کا قلم سے رشتہ رہے گاجب تک حق و باطل کے درمیان معرکہ رہے گا تب تک کربلاء میں نواسہ رسولﷺ کی عظیم الشان شہادت پر لکھا جاتا رہے گا۔ہرسال محرم الحرام کے پہلے دس روز میں اہلبیت کی عظیم اور لازوال قربانیوں کا زکر اس لیے کیا جاتا ہے کہ دنیا میں رہنے والے انسانوں کو معلوم ہوسکے کہ شہادت کا مقام ومرتبہ کیا ہے۔اس ضمن میں مجالس عزا برپا کی جاتی ہیں۔عزادار ماتم کرتے ہیں یوم عاشور کو تعزیے نکالے جاتے ہیں گویا اہلبیت کی کربلا میں ہر ہر ادا کی شبہیہ کو سامنے لایا جاتا ہے۔یہی نہیں لکھاریوں اور خاص طورپر سرائیکی وسیب کے ادیبوں نے اپنی نثر اور شعراء نے اپنی شاعری میں بھی امام عالی مقام ؓ کو کربلا میں لازوال قربانیوں پر عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا ہے۔
کربلا کی تاریخ جتنی پرانی ہے اس طرح ہی اہل بیت سے محبت،عقیدت اور وابستگی کی داستانیں بھی اتنی ہی قدیم اور پرانی ہیں۔روایت ہے کہ برصغیر میں تعزیہ داری کی ابتدا امیر تیمور کے دور میں اسوقت ہوئی جب اس نے دہلی کو فتح کیااور ہندوستان کا بادشاہ بنا۔امیر تیمور ہر سال محرم کے ایام میں ایران جاتا تھا تاہم ایک بار وہ جنگ میں مصروفیت کے سبب نہ جاسکا تو اس نے پہلی بار تعزیہ بنوایا۔اس کے بعد یہ سلسلہ رکا نہیں اور اس کے بیٹے ہمایوں نے تعزیہ داری کو فروغ دیا اور ہر شہر اور قصبے میں امام حسینؓ کے نام پر ایک زمین کا ٹکڑا وقف کیا جہاں پر تعزیے رکھے جاتے تھے۔اس کے بعد مغل بادشاہوں کے ہر دور میں تعزیہ داری اور عزاداری کو حکومتی سرپرستی رہی اور اس کو حکومتی سطح پر فروغ دیا گیا۔
1223ء میں مغل بادشاہوں نے ہندوستان میں پہلی بار امام بارگاہ تعمیر کرائی اور اس کو مجلس خانہ کا نام دیا گیا اور محرم کے ایام میں یہاں پر عزادار جمع ہوتے اور مرثیے پڑھتے اور نوحہ خوانی کرتے۔ہندوستان میں تعزیہ داری کو اہل لکھنو نے بام عروج تک پہنچایا یوں تواہل بیت سے منسوب ہر چیز کی شبہیہ بنانا عزاداروں کے لیے کسی اعزاز اور سعادت سے کم نہیں ہے۔تاہم کربلا ء کے اندوہناک سانحے کے بعدجب عزاداری کی محفلیں برپا ہونا شروع ہوئیں لکھنو کے کاریگروں نے اہل بیت کی محبت میں تعزیہ داری کے وہ نمونے اور شاہکار تخلیق کیے کہ ان کی مثال ملنا مشکل ہے۔
برصغیر کے دیگر شہروں کی طرح ڈیرہ غازی خان میں بھی تعزیہ،علم اور ماتمی جلوس کی تاریخ صدی پرانی ہے۔کُہنہ ڈیرہ غازی خان کے دریا بُرد ہونے کے بعد محلہ غازی شیراں میں امام بارگاہ کی بنیاد رکھی گئی۔قدیم تعزیہ غاز ی شیراں استاد پیر بخش اور غلام اکبر نے57سال قبل بنایا۔سینہ بہ سینہ روایات کے مطابق پرانے ڈیرہ غازی خان میں تعزیے بنانے کا آغاز استاد حسین بخش اور استاد فتح محمدنے کیا۔اس وقت پرانا ڈیرہ غازی خان میں ایک ہی امام بارگاہ ہوتی تھی۔پرانے شہر کے دریا برد ہونے کے بعد یہ تعزیے نئے آباد ہونے والے ڈیرہ غازی خان منتقل کردئیے گئے۔تا ہم 1960ء میں نئے تعزیے کو بنانے کا آغاز استاد پیر بخش نے کیا اوراستاد پیر بخش کی وفات کے بعد ادھورئے تعزیے پر استاد غلام اکبر نے محلہ غازی شیراں میں کام شروع کیا اور کم و پیش پچیس سال تک اس پر کام کرکے اہل بیت سے اپنی محبت اور وفا کے انمٹ نقوش چھوڑے۔
کہتے ہیں کہ استاد غلام اکبر لکٹری کے بہترین کاریگر تھے اور روزانہ اپنے کام پر جانے سے پہلے علی الصبح بطور ہد یہ تعزیے پر دو گھنٹے تک کام کرتے تھے۔عشق اہل بیت میں استاد غلام اکبر نے تعزیے کو اپنی جیب سے خرچہ کرکے بنایا۔استاد غلام اکبر کا تعزیہ ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں سب سے بڑا تعزیہ ہے اور اس کی بلندی 19فٹ ہے۔اس تعزیہ پر کیے گئے کام کی خوبی یہ ہے کہ اس کا تمام تر نفیس کام ہاتھ سے کیا گیا ہے اور اس کے کام کی نفاست کا معیار چنیوٹ کے لکڑی کے کام سے کہیں زیادہ ہے۔استاد غلام اکبر نے اس کے علاوہ بھی بہت سے تعزیے بنائے اور اپنی ہنرمندی کے جوہر دکھائے ان کے بنائے گئے تعزیے آج بھی صوبہ سندھ کے شہر خیر پور میں موجود ہیں اور کاریگری کا شاہکار ہیں۔
یوم عاشور کو ملک کے دیگر علاقوں کی طرح ڈیرہ غازی خان میں بھی نماز ظہرین کے بعد ماتمی جلوس نکالے جاتے ہیں۔کہنہ ڈیرہ غازی خان میں روایات کے مطابق ایک ہی جلوس نکالا جاتا تھا اور اس جلوس میں مسلکی بھائی چارہ اتنا ہوتا تھا کہ اس میں شیعہ اور سنی دونوں مسلک کے لوگ شریک ہوتے تھے۔پرانے ڈیرہ غازی خان کے دریا برد ہونے کے بعد جب نیا ڈیرہ غازی خان بسایاگیا تو یہاں پر بھی محرم کے ایام میں ماتمی جلوس روایتی طریقہ کار سے نکالے جانے لگے۔ مسلمانوں کا اہل بیت سے محبت کا عالم آج بھی وہی ہے جو پہلے تھا اس میں کمی کا تو سوال ہی ممکن نہیں ہے۔ڈیرہ غازی خان میں اب بھی ماتمی جلوس اپنے قدیم روایتی راستوں سے ہوتے ہوئے کربلا کو روانہ ہوتے ہیں۔ مرکزی جلوس ماتمی اور نوحہ خواں دستوں کے ہمراہ کربلا کی جانب محوسفر رہتاہے اور مغرب کی نماز تک ماتمی جلوس کربلا پہنچتا ہے۔جہاں پر عزاداری ہو تی ہے اور ہر حلقہ اور آستانہ الگ الگ پُرسہ دیتا ہے۔مرکزی جلوس کے راستوں میں سبیل شہزادہ علی اصغرؓ کا اہتمام ہوتا ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...