ڈپریشن اور تخلیقی شاہکار
ڈپریشن ایک ذھنی عارضہ ھے جو انسان کو زندگی میں کبھی بھی لاحق ھو سکتا ھے۔یہ بیماری حادثاتی بھی ھو سکتی ھے اور جینیاتی یعنی خاندانی یا پیدائشی بھی ھو سکتی ھے۔ویسے تو یہ عارضہ کسی کو بھی لاحق سکتا ھے مگر حیران کن طور پر یہ بات میں نے نوٹ کی ھے یہ بیماری انتہائی ذھین۔۔۔۔حساس طبیعت ۔۔۔۔آرٹسٹ مائنڈد یعنی ذھنی کام کرنے والے اور تخلیق کاروں اور فنکاروں میں بہت ذیادہ پائ جاتی ھے۔جبکہ وراثیت اور جینیاتی سبب کے علاوہ، اوسط ذھانت اور کند ذھن لوگوں میں یہ بیماری تقریبا" ناں ھونے کے برابر ھے۔
ایک معمولی کروموسوم سے مکمل انسان کے مرنے تک انسان کی زندگی میں مقاصد (Motivation ) ھوتے ھیں جو اسے زندہ رھنے کی جستجو پر مجبور کرتے ھیں یاد رھے ھمارے مقاصد زندگی(motivation) ھر لمحہ بدلتے رھتے مگر مقاصد زندگی اور ذندہ رھنے کی جبلت ھی ھمیں زندہ رھنے اور آگے بڑھنے پر مجبور کرتی ھے۔مگر جبلت موت بھی ساتھ ساتھ چل رھی ھوتی ھے۔ جب جب مقاصد زندگی اور جبلت زندگی کمزور پڑ جاتے ھیں جبلت مرگ ھمارے ذھن پر حاوی ھو جاتی ھے
ڈپریشن کیا ھے؟ معمولی سے معمولی جاندار میں بھی زندہ رھنے کی جبلت(Life instincts ) اور موت سے خوف یا فرار کی جبلت (Death instincts )پائ جاتی ھے اور یہ دونوں جبلتیں ھمارے خودکار جسمانی دفاعی نظام کا حصہ ھیں۔ اندرونی یا بیرونی حادثات جب جب انسان کو (اور جانوروں کو بھی) ذھنی صدمہ پہنچاتے ھیں تب کبھی کبھی انسان کا دفاعی نظام ان شدید صدمات کو برداشت کرنے سے قاصر ھوتا ھے تو چند گھنٹوں یا دنوں کے لئے انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ھے جس میں اس کے درد اور تکلیف کا احساس مر سا جاتا ھے جو کہ دفاعی نظام کا ایک فطری عمل ھے جس سے انسان کی جان و ذھن مذید تباہ و برباد ھونے سے محفوظ ھو جاتے ھیں۔لیکن یہ ڈپریشن چند گھنٹوں یا چند دنوں تک تو ٹھیک ھے مگر ۔۔۔اگر یہ بڑھ کر مہینوں اور سالوں پر محیط ھو جاے تو زندگی اجیرن ھو جاتی ھے کیونکہ ایسے میں نیند یا تو بالکل ختم ھو جاتی ھے یا بہت ھی ذیادہ آتی ھے بھوک مر جاتی ھے رونے اور چیخنے چلانے پر زور ھوتا ھے ۔۔۔۔نہانے دھونے سے اجتناب۔۔۔کوئ کام کرنے کو دل نہیں کرتا ۔۔۔خوشیان ۔۔۔رنگ و خوشبو اور خوبصورتی بے معنی ھو جاتے ھیں ۔۔۔زندگی بے معنی ھو جاتی ھے اور شدید حالتوں میں انسان خودکشی تک کرلیتے ھیں۔
اس وقت ھم ذکر کرتے ھیں ان شاعروں ۔۔۔افسانہ نگاروں ۔۔۔موسیقاروں ۔۔۔پینٹرز اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کا جنہوں نے دوران ڈپریشن اپنی شہرہ آفاق تخلیقات لکھیں یا بنائیں۔ مثلا" وان گو کی شہرہ آفاق پینٹنگ جس کی مالیت اب کئی سو کروڑ ڈالر ھے وہ شدید ڈپریشن کی حالت میں بنی تھی ۔۔۔ارنسٹ ھمنگوے نے اپنا شہرہ آفاق ناول شدید ڈپریشن کی حالت میں لکھا تھا۔مائیکل انجیلو کا ماسٹر پیس کام ڈپریشن میں مکمل ھوا ۔۔نطشے ۔۔۔۔بھی ایک مثال ھے ۔ایسے بےشمار شہ پارے جو ڈپریشن کی مرھون منت ھیں۔اردو ادب میں ساغر صدیقی ۔۔۔منٹو ۔۔۔ساحر لدھیانوی ۔۔۔ن م راشد ۔۔ جون ایلیا۔۔زیدی ان کی شہرہ آفاق تخلیقات ڈپریشن کے دوران وجود میں آئیں۔
اگر ان عوامل کا تجزیہ نفس(psychoanalysis ) کریں تو ہہ بات نظر آتی ھے کہ دراصل جو جنگ ان کے اندر لڑی جاری تھی( جبلت زندگی بمقابلہ جبلت موت ) یہ اس کے آثار و مضمرات تھے فنکار اپنی تکلیفوں اور شدت کرب کو بیان نہیں کرسکتا تو وہ خود کلامی اور خود کو اپنے خیالات و تخیلات میں چھپانے کی کوشش کرتا ھے جسے ھم اکثر پاگل پن کا نام دے دیتے ھیں ۔۔۔ آپ اس کی مثال اس سیپ سے لے سکتے ھیں جس کے اپنے جسم کے اندر زندگی موت کی جنگ چل رھی ھوتی ھے اور جب وہ موت کی صورت میں سیپ وہ جنگ ھار جاتی ھے تو اسی کشمکش کے ردعمل کو ھم اس کی تخلیق اور ایک نایاب موتی کہتے ھیں۔
اسلئے میرا خیال ھے فنکاروں کے فن پاروں کی تعریف ضرور کریں مگر ان کے اندر کے کرب اور تکلیف کو بھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاھیے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
"