دیوبندی سنی اور بریلوی سنی گروپوں کی مسجد پر قبضے کی لڑائی۔عدالت نے کس کے حق میں اور کیا فیصلہ کیا؟
کراچی کی مسجد طیبہ پر جھگڑا شروع ہوا۔دیوبندی فرقہ کے لوگوں کا دعویٰ تھا کہ مسجد کی بنیاد مولانا احتشام الحق تھانوی نے رکھی۔اس مسجد کی تعمیر کیلئے فنڈنگ خان بہادر حاجی وجیہ الدین نے کی ۔یہاں مولانا محمد حسین 25 سال تک درس قرآن دیتے رہے۔اس گروپ کا کہنا تھا کہ مسجد میں ہمیشہ حنفی سنی دیوبندی مسلک کے عقائد کے مطابق اذان،نماز وغیرہ ہوتی آئی۔لیکن اب بریلوی مسلک کا ایک گروہ یہاں اذان سے پہلے اور بعد میں درود پڑھنا شروع کر دیتا ہے،جو اذان کے لفظوں میں اضافے کے مترادف ہے۔اذان کے لفظوں میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جاسکتی۔بریلوی مسجد کا گروہ مسجد پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔انہیں روکا جائے۔مدعی گروپ نے کہا کہ مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد کھڑے ہو کر درود و سلام شروع کر دیا جاتا ہے۔کہ جس کی رسول اللہ ﷺ،صحابہ کرام،تابعین ،تبع تابعین کسی امام یا پچھلے ساڑھے 12 سو سال میں کسی ولی کے دور سے کوئی مثال نہیں ملتی۔اس گروہ کو ایسا کرنے سے روکا جائے۔یہاں بریلوی نہیں،دیوبندی مسلک کے عقائد کے مطابق ہی عبادات وغیرہ ہوں گی۔
دوسری طرف بریلوی مسلک کے لوگوں نے ان سارے دعووں کی تردید کی اور کہا کہ مسجد شروع سے ہی ان کے زیر انتظام رہی لہذا یہاں اذان سے پہلے اور بعد میں درود بھی پڑھا جائے گااور جمعہ کی نماز کے بعد درود و سلام بھی۔
کیس کراچی ایسٹ کے سینئر سول جج کی عدالت میں گیا۔ٹرائل کے بعد عدالت نے فیصلہ دیوبندی مسلک کے لوگوں کے حق میں کیا۔فیصلے کیخلاف بریلوی مسلک کے لوگوں نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کراچی ایسٹ کی عدالت میں درخواست دی۔اپیل عدالت نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ مسترد کیا اور بریلوی مسلک کے لوگوں کے حق میں فیصلہ دے دیا۔مدعی مقدمہ اس فیصلے کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں چلے گئے۔ہائیکورٹ نے کیس سننے کے بعد نچلی اپیلٹ کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر دیا اور ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔سنی بریلوی مسلک کے لوگ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ چلے گئے۔سپریم کورٹ نے بھی سارے مقدمے کا جائزہ لینے کے بعد ہائیکورٹ اور ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا اور دیوبندی مسلک کے لوگوں کے حق میں ہی فیصلہ دیا۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ جس مسلک کے لوگوں نے مسجد بنائی وہاں ان کے عقائد کے مطابق ہی نماز وغیرہ ادا ہوگی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے ایک اچھی بات یہ لکھی کہ ’’تمام مسالک بشمول شیعہ، دیوبند، اہلحدی اور بریلوی مسلمان ہیں۔کسی بھی فرقے کے لوگوں کو کسی بھی مسجد میں نماز ادا کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔‘‘
سپریم کورٹ کے جج صاحبان سید دیدار علی شاہ اور حامد علی مرزا نے یہ فیصلہ دیا۔
2001 SCMR 1539.
مسجد پر قبضے اور درود پڑھنے یا نہ پڑھنے کی یہ جنگ 19 سال تک چلتی رہی۔1982 میں سینئر سول جج کی عدالت میں یہ کیس شروع ہوا اور 2001 میں سپریم کورٹ میں آکر ختم ہوا۔