ڈینگی ایک مچھر سے پھیلنے والی بیماری ہے جو کہ ہر سال تقریبا 100 سے 400 ملین افراد کو متاثر کرتی ہے۔ ڈینگی پھیلانے والے وائرس کو ڈینگی وائرس کہا جاتا ہے؛ اور یہ ایشیا اور لاطینی امریکہ کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔
ڈینگی بخار کی تاریخ:
1775کے عشرے میں جب ایشیا ،افریقا اور شمالی امریکا میں ایک ایسی بیماری پھیلی جس میں مریض کو یکدم تیز بخار ہو جاتا اور ساتھ ہی سر میں درد اور جوڑوں میں درد شروع ہو جاتاجبکہ بعض مریضوں کے پیٹ میں درد ،خونی الٹیاں اورخونی پیچس کی بھی شکایت ہو گئی۔ یہ مریض سات سے دس دن تک اسی بیماری میں مبتلا رہے اور آخر کار مر گئے۔ لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور ان علاقوں سے لوگوں نے ہجرت کرنا شروع کر دی۔ جب اس وقت کے طبیبوں اور ڈاکٹروں نے اس بارے میں تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ ایک خاص قسم کا مچھر ہے جس کے کاٹنے سے یہ مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ ڈینگی بخار مریض کے خون میں سفید خلیوں کو ختم کرتا ہے۔ شدید بخار،متلی اور قے، کمر اور پٹھوں میں درد اور سر میں شدید درد ڈینگی بخار اہم علامات ہیں۔
ڈینگی کی شناخت اور تباہ کاریاں:
1979میں اس بیماری کی شناخت ہوئی اور اسے ڈینگو بخار(Dengue fever) کا نام دیا گیا۔ ڈینگو “dengue”سپینی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی cramp یا seizure کے ہیں جبکہ اسے گندی روح کی بیماری بھی کہا جاتا تھا۔1950میں یہ بیماری جنوب مشرقی ایشیاءکے ممالک میں ایک وبا کی صورت میں نمودار ہوئی جس سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ خصوصاً بچے ہلاک ہو گئے۔1990کے آخر تک اس بیماری سے ایک اندازے کے مطابق 40 لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
1975سے1980تک یہ بیماری عام ہو گئی۔ 2002میں برازیل کے جنوب مشرق میں واقع ریاست Rio de Janeiro میں یہ بیماری وبا کی صورت اختیار کر گئی اور اس سے دس لاکھ سے زائد افراد جن میں 16سال سے کم عمر کے بچے زیادہ تھے ہلاک ہو گئے۔ یہ بات دیکھنے میں دبیز متنآئی ہے کہ یہ بیماری تقریباً ہر پانچ سے چھ سال میں پھیلتی رہتی ہے۔ سنگا پور میں ہر سال چار ہزار سے پانچ ہزار افراد اس وائرس کا شکار ہو تے ہیں جبکہ 2003میں سنگاپور میں اس بیماری سے چھ افراد کی ہلاکت بھی ہوئی۔ اور جو افراد ایک مرتبہ اس بیماری میں مبتلا ہو جائیں وہ اگلی مرتبہ بھی اس بیماری کا جلد شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلنے والی ملیریا نامی بیماری کی اگلی صورت کہی جا سکتی ہے اس بیماری کے مچھر کی ٹانگین عام مچھروں سے لمبی ہوتی ہیں اور یہ مچھر قدرے رنگین سا ہوتا ہے۔ یہ بھی دیگر مچھروں کی طرح گندی جگہوں اور کھڑے پانی میں پیدا ہوتا ہے۔ ابھی تک اس بیماری کی کوئی پیٹنٹ دوا یا ویکسین ایجاد نہیں ہوئی
تاہم2003سے( Pediatric Dengue Vaccine Initiative (PDVI) پروگرام کے تحت اس کی ویکسین تیار کی جانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔تھائی لینڈ کے سائنسدانوں نے ڈینگو وائرس کی ایک ویکسین تیار کی ہے جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اگرچہ اس ویکسین کے تین ہزار سے پانچ ہزار افراد اور مختلف جانوروں پر تجربے کیے جا چکے ہے جس کے ابھی تک قدرے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ 2002 میں سوئس فارما کمپنی اورSingapore Economic Development board نے مشترکہ طور پر اس وائرس کے خاتمے کی دوا تیار کرنے پر کام شروع کیا ہوا ہے۔ اس وبا سے نجات کا واحد حل یہی ہے کہ صفائی کا خیال رکھا جائے اور گندے پانی کے جوہڑوں، گلی کوچوں میں جراثیم کش ادویات کا مسلسل سپرے کیا جائے تاکہ ڈینگو مچھر کی افزائش گاہیں ختم ہو جائے۔ جبکہ انفرادی طور پر رات کو مچھر دانی کا استعمال کیا جائے اور گھروں میں مچھر کش ادویات سپرے کی جائے۔
اقسام اور پھیلاؤ:
ڈینگی وائرس کی فیملی فیلوی۔ ویریڈی کے ممبر ہیں اور ان کا جینس فلیوی۔ وائرس ہے۔ یہ انتہائی چھوٹے ایک پٹی پر مشتمل آر۔ این۔ اے سے مل کر بنے ہوتے ہیں۔ انسانوں میں یہ وائرس مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے۔ یہ وائرس ڈلیوری کے وقت یا حمل کے دوران ماں سے بچے میں بھی پھیل سکتا ہے۔
ڈینگی مادہ مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہوتا ہے ۔ نر سے ملاپ کے بعد مادہ کو انڈے دینے کے لیے پروٹین کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ یہ پروٹین حاصل کرنے کے لیے انسانی خون چوستی ہے جس سے ڈینگی کا انفیکشن پھیلتا ہے۔
ڈینگی وائرس کیا ہے؟
ڈینگی کے وائرس کی 4 اقسام ہیں جنھیں DEN1، DEN2، DEN3،DEN4کہا جاتا ہے۔ ڈینگی آدھی سے زیادہ دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور تقریباً ہر ملک میں اس کے متاثرہ لوگ موجود ہیں۔ ڈینگی دو انواع کے مادہ مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے۔ ان کے نام aegyptiاور aedes albopictus ہیں۔ ان دونوں مچھروں میں سے زیادہ اسی بیماری کو پھیلانے میں کردار aedes albopictus کا ہے۔ جیسے ہی یہ وائر مچھر کے جسم میں چلا جاتا ہے تو دس دن بعد وہ مچھر اپنی پوری زندگی اس وائرس کو پھیلاتی رہتی ہے۔
کاٹے جانے کے بعد جب انسانوں میں علامات ظاہر ہوں تو اسی بندے سے تقریباً12 دن تک Aedes جینس کے مچھروں کے ذریعے وائرس پھیلتا جاتا ہے۔
ان مچھروں کی پہچان کیا ہے؟
Aedes ان مچھروں کی پہچان بہت آسان ہے ؟aegypti Aedes کی پہچان یہ ہے کہ اس کے پاؤں پر کالے اور سفید دھاریوں کے ساتھ ساتھ اس کے Thoraxیعنی کمر پر بھی ایک سفید لکیر ہوگی جبکہ albopictus کی پہچان یہ ہے کہ اس کے جسم پر کالی اور سفید دھاریاں ہوتی ہیں اس کے Thorax پر لکیر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی آنکھوں کے درمیان سے لے کر اس کے Thorax تک ایک سفید لکیر ہوتی ہے جو اس کی خاص پہچان ہے۔ عام مچھر کسی بھی صورت ڈینگی کے وائرس نہیں پھیلا سکتا کیوں کہ ان کا اندرونی جسم وائرس کے لیے موزوں نہیں ہے اور وائرس ان کے معدے میں جاتے ہی ہضم ہوجاتا ہے۔
یہ مچھر کہاں رہتے ہیں ؟
ان مچھروں کی پسندیدہ جگہ صاف پانی ہے ۔ یہ عموماً پنکچر کی دکان جہاں عموماً ٹائروں میں پانی بھرا ہوتا ہے، گملوں، سوئمنگ پولز اور وہ پانی کی ٹنکیاں جن پر ڈھکن نہیں ہوتا اس میں رہتے ہیں۔
ڈینگی سے کیسے بچیں اور ہوجائے تو کیا کریں؟
مادہ مچھر کو حاملہ ہونے کے بعد اپنے انڈوں کے لیے انسانی خون کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ مچھر پاکستان میں مون سون کی بارشوں کے بعد ستمبر سے لے کر دسمبر تک موجود رہتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ مچھر 10سے40 ڈگری سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت میں پرورش پاتا ہے اور اس سے کم یا زیادہ درجہ حرارت میں مرجاتا ہے۔ ڈینگی مادہ مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہوتا ہے ۔ نر سے ملاپ کے بعد مادہ مچھر کو انڈے دینے کے لیے پروٹین کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ یہ پروٹین حاصل کرنے کے لیے انسانی خون چوستی ہے جس سے ڈینگی کا انفیکشن پھیلتا ہے۔ ملیریا اور ڈینگی میں فرق اس مرض کا مہلک ہونا ہی ہے جبکہ اس کے لیے سوائے احتیاطی تدابیر کہ کوئی مخصوص علاج موجود نہیں ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق ڈینگی کے مرض سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ کسی بھی جگہ پانی جمع نہ ہونے دیا جائے۔ عام لوگوں کی توجہ صرف گندے پانی کی جانب جاتی ہے لیکن اس مرض کو پھیلانے میں اہم ترین کردار صاف پانی ادا کرتا ہے اور مچھر دانیوں اور اسپرے کا استعمال لازمی ہے کیوں کہ ایک مرتبہ یہ مرض ہوجائے تو اس وائرس کو جسم سے ختم ہونے میں دو سے تین ہفتوں تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ بارش کے بعد اکثر گھروں کے آس پاس یا لان ، صحن وغیرہ میں پانی جمع ہو تو اسے فوراً نکال کر وہاں اسپرے کرنے سے ڈینگی سے بچاؤ ممکن ہے۔ صفائی کو قائم رکھ کر اگر مچھروں کی افزائش کا ماحول ہی ختم کردیا جائے تو اس مرض کا خاتمہ ممکن ہے اور ترقی یافتہ بہت سے ممالک نے اس طرح اس مرض پر قابو پایا ہے۔
ڈینگی کی تصدیق کیسے ہو؟
ڈینگی بخار کی تصدیق ایس ایس ون یا پی سی آر نامی خون کی تجزیوں سے ہوتی ہے۔ یہ ٹیسٹ کرتے ہیں۔
ڈینگی بخار کی علامات
اس مرض کی علامات میں تیز بخار کے ساتھ جسم خصوصاً کمر اور ٹانگوں میں درد اور شدید سر میں درد ہوتا ہے۔ بخار کے دوران ڈینگی کے مریض پر غنودگی طاری ہوسکتی ہے اور ساتھ ہی اسے سانس لینے میں دشواری کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔ ڈینگی کا وائرس خون کے بہاؤ اور دل کی دھڑکن کو بھی متاثر کرتا ہے اور اس سے فشار خون یعنی بلڈ پریشر اور دل کی دھڑکن بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ سابقہ سطور میں بھی بتایا جاچکا ہے کہ اس مچھر کے لاروا صاف پانی میں پھلتے پھولتے ہیں۔
اس کے علاوہ مریض کو متلی اور قے کی شکایت ہوتی ہے جسم پر سرخ نشان پڑجاتے ہیں اور اس کے مسوڑھوں یا ناک سے خون بھی آسکتا ہے یہ بیماری خون کے سفید خلیات پر حملہ کرتی اور انہیں آہستہ آہستہ ناکارہ کرنے لگتی ہے۔ جوڑوں میں درد ہوتا ہے۔ اس مرض میں مریض کے پٹھوں اور جوڑوں میں نہایت شدید درد کا سامنا ہوتا ہے یہ درد خاص طور پر کمر اور ٹانگوں میں ہوتا ہے۔ ڈینگی بخار کے ابتدائی مرحلے میں جلد پر خراشیں بھی پڑجاتی ہیں اور جلد کھردری ہوکر اترنے لگتی ہے ۔ جب ڈینگی بخار اپنی شدت کو پہنچ جاتا ہے تو مریض کی ناک اور مسوڑھوں سے خون بہنے لگتا ہے۔ ڈینگی کا مرض مچھر کے ذریعے مریض سے کسی بھی دوسرے شخص کو منتقل ہوسکتا ہے۔
طبی ماہرین کہتے ہیں کہ مرض میں مبتلا مریضوں کے خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد 50 ہزار سے کم ہوتی ہے اور آنکھوں کے عقب میں درد، سوجی ہوئی لمف نوڈس اور دانے نکل آتے ہیں۔ کچھ متاثرہ افراد میں ہوسکتا ہے ظاہری علامات فروغ نہ پائیں اور بعض لوگوں میں ہوسکتا ہے ہلکی سی علامات ہوں جیسا کہ بخار مثلاً بچوں میں سرخ دانوں کے ساتھ ایک ہلکی غیر مخصوص بخار کی بیماری ظاہر ہوسکتی ہے۔
پہلے انفیکشن کی علامات عموماً ہلکی ہوتی ہیں ایک بار ٹھیک ہوجانے کے بعد اس ڈینگی وائرس کی سیرو ٹائپ کے خلاف زندگی بھر کے لیے امیونٹی یا قوت مدافعت پیدا ہوجاتی ہے تاہم بحالی کے بعد دیگر تین سیروٹائپس کے خلاف کراس ، امیونٹی محض جزوی اور عارضی طور پر ہے۔ شدید ڈینگی وائرس کی دوسری سیروٹائپس کے ساتھ بعد میں انفیکشنز ہونے کا امکان ہے۔
شدید ڈینگی
ڈینگی بخار کے خلاف ایک سنگین اور ممکنہ طور پر مہلک پیچیدگی ہے ابتدائی طور پر خصوصیات میں تیز بخار ( 40 سے 41 سینٹی گریڈ )شامل ہے جو 2 سے7 دنوں تک ہوسکتا ہے۔ ڈینگی سے چہرہ زرد پڑتا ہے اور دیگر غیر مخصوص جسمانی علامات ہوتی ہیں بعد میں انتہائی علامات جیسے شدید پیٹ میں درد، مسلسل الٹیاں، تیزی سے سانس لینا، تھکاوٹ ، بے آرامی اور خون بہنے کا رحجان مثلاً جلدی خراشیں، ناک یا مسوڑوں سے خون کا آنا اور ممکنہ طور پر داخلی خون کا بہنا ہوسکتا ہے۔ سنگین معاملات میں یہ خون کی گردش میں ناکامی، صدمہ اور موت کا واقع ہونا۔
انتقال مرض
ڈینگی بخار میں انسانوں میں مادہ ایڈیس مچھروں کے کاٹنے کے ذریعے منتقل ہوتا ہے جب ڈینگی بخار میں مبتلا ایک مریض کو ایک ویکٹر مچھر کاٹتا ہے تو وہ مچھر بھی متاثر ہوجاتا ہے اور وہ دوسرے لوگوں کو کاٹ کر ان کو بھی متاثر کردیتا ہے یہ مرض انسان سے انسان میں براہ راست نہیں پھیلتا ہے۔ یاد رہے کہ انکیوبیشن مدت3-14دن یا 4-7دن ہوتی ہے۔
علاج
ڈینگی یا شدید ڈینگی کے بخار کے لیے کوئی مخصوص علاج نہیں ہے۔ یہ عام طور پر خود بخود ٹھیک ہوجاتا ہے۔ عام طور پر بے چینی کو آرام پہنچانے کے لیے علاماتی ادویات دی جاتی ہیں۔ علاج کا اہم عنصر جسم میں سیال/ خون کی گردش کو برقرار رکھنا ہے۔ مناسب اور بروقت علاج ضروری ہے۔ شرح اموات 1فیصد سے کم ہیں۔
بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
احتیاطی اقدامات میں کھڑے پانی کے ذخیروں کو ختم کرنا ہے جو کہ مچھروں کے لیے افزائش گاہ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ اور مچھر کے کاٹے سے بچنا ۔
مچھر سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی روک تھام
٭ڈھیلے ہلکے رنگ کے لباس کا انتخاب کریں جو آپ کے پورے جسم کو ڈھانپ لے اور جسم کے کھلے حصوں پر کیڑوں کو بھگانے والا کوئی لوشن لگالیں۔
٭ جب باہر کی سرگرمیوں میں مشغول ہوں تو اضافی احتیاطی اقدامات کریں۔ مثلاً پوری آستین کی شرٹ پتلون کا استعمال کریں ، گندگی کوڑے کرکٹ کے پاس نہ جائیں جہاں پانی کھڑا ہو وہاں سے زیادہ فاصلے پر رہیں۔
٭ خوشبو دار کاسمٹکس یا جلدی نگہداشت کی مصنوعات کا استعمال کرنے سے گریز کریں۔
٭ ہدایات کے مطابق کیڑے بھگانے والی ادویات دوبارہ لگائیں۔
٭بیرون ملک سفر کر رہے ہیں یا ایسے ممالک میں جارہے ہیں جو ڈینگی سے متاثر ہیں تو سفر سے کم از کم 6 ہفتے پہلے ڈاکٹر کے ساتھ مشاورت ضرور کریں اور مچھر کے کاٹنے سے بچنے کے لیے اضافی احتیاطی اقدامات اپنائیں۔
مچھر کے پھیلاؤ کو روکنے کے اقدامات
٭کھڑے پانی کو جمع نہ ہونے دیں۔
٭گل دانوں میں ہفتے میں ایک بار پانی تبدیل کریں۔
٭ پھولوں کے گملوں کے نیچے طشتریوں کے استعمال سے گریز کریں۔
٭پانی کے کنٹینرز کو مضبوطی سے بند کریں (پانی کو ڈھانک کر رکھیں)
٭ یقینی بنائیں کہ ایئرکنڈیشنز کی ٹریز کھڑے پانی سے پاک ہیں۔
٭ تمام استعمال کردہ کینز اور بوتلوں کو ڈھانپی ہوئی ڈسٹ بنز میں ڈالیں۔
٭ صفائی کو قائم رکھ کر اس مرض کا خاتمہ ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
ڈینگی ہونے کے بعد کیا کریں؟
مریض کو زیادہ سے زیادہ آرام کرنا چاہیے۔
٭مریض کو پانی بہت زیادہ پینا چاہیے اور پانی کے علاوہ پھلوں کے جوس اور او آر ایس وغیرہ کا استعمال کرسکتے ہیں تاہم ڈرنک کا استعمال نہ کریں۔
٭خون پتلی کرنے والی ادویات کا استعمال کرنا چاہیے۔
٭ مریض کو سی بی سی اور ایف بی سی سے ٹیسٹ دہرانے چاہئیں۔
٭پپیتے کا جوس ڈینگی کا علاج ہے کیونکہ ڈینگی کے مریض کو پانی اور جوس زیادہ پینے کو کہا جاتا ہے اس سے پپیتے کے جوس کا استعمال جسم میں پانی کی ایک مخصوص مقدار کو برقرار رکھنے میں بہت مدد کرتا ہے۔ ڈینگی زندگی میں صرف ایک بار ہوتا ہے یہ غلط ہے۔ ڈینگی کی 4 مختلف اقسام ہیں لیکن یہ سچ ہے کہ اگر کسی کو ایک قسم کا ڈینگی وائرس کا حملہ ہوا ہو تو اس بات کا امکان ہے کہ دوبارہ اس کو اس قسم کے وائرس کا حملہ نہیں ہوگا لیکن باقی 3 اقسام کے وائرس کا حملہ ہوسکتا ہے۔
ترتیب و تدوین!
عتیق الرحمن۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...