دہلی میں اردو کی حالت زار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں تو ہندوستان کے ہر خطے میں اردو زبان کی حالت تشویشناک ہے لیکن میری یہ گفتگو ریاست دہلی کے حوالے سے ہے، دہلی اور اردو ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں کیونکہ یہیں اردو کا جنم ہوا اور یہیں سے فروغ بھی ہوا، دہلی حکومت اردو کے فروغ کے لیے کوشاں ہے، حکومت دہلی کے 1024 اسکول ہیں جہاں پرائمری، مڈل اور ثانوی سطح پر اردو پڑھائے جانے کے لئے پوسٹ منظور کی گئی ہیں ، تقریبا ہر اسکول میں ایک اردو ٹیچر کی پوسٹ منظور ہے، اور کہیں کہیں تو دو-دو اور تین-تین پوسٹیں منظور ہیں یعنی موٹے طور پر قریب قریب پندرہ سو اردو پوسٹیں منظور ہیں۔لیکن اگر جائزہ لیا جائے تو آدھی سے بھی زیادہ پوسٹیں خالی پڑی ہیں، ریگولر اساتذہ کا تقرر تو دورگیسٹ ٹیچر یا جزوقتی ٹیچر کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے ۔اردو پرھنے کے خواہشمند جبراً سنسکرت پڑھ رہے ہیں(یہ جملہ میں اپنی گراؤنڈ رپورٹ کی بنا پر لکھ رہا ہوں) مزے کی بات یہ کہ دہلی کے اسکولوں کے حوالے سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہاں سنسکرت اساتذہ کی کمی ہے جبکہ اردو کے سلسلے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے، ایک ہی اسکول میں سنسکرت کے 9 اساتذہ ہیں اور اردو کا ایک بھی نہیں۔ میں سنسکرت کی مخالفت نہیں کررہا بلکہ یہ سوال قائم کررہا ہوں کہ جب سنسکرت بغیر مانگے طلبہ پر تھوپ دی جاتی ہے تو اردو مانگنے کے بعد بھی کیوں مہیا نہیں کرائی جاتی؟ ایک اسکول میں تفتیش کے دوران نویں اور دسویں جماعت کے طلبہ نے بتایا کہ سنسکرت کا ایک بھی سوال سمجھ میں نہیں آتا لیکن پھر بھی امتحان میں نقل کرکے کچھ نہ کچھ لکھنا پڑتا ہے، میں نے پوچھا پھر سنسکرت کیوں منتخب کی؟تو ان کا جواب تھا کہ ہمیں تو پتہ بھی نہیں کہ ہم نے کب منتخب کی، مطلب پرنسپل آفس خود متعین کرلیتا ہے کہ کون کیا پڑھے گا، آپ حضرات اس کھیل کی گہرائی کو سمجھیں، حکومت صرف پلان بناتی ہے، اسے زمین پر اتارنے کی ذمہ داری بابو اور افسران نبھاتے ہیں، اسکول میں پرنسپل ہی سب سے قوی بابو اور افسر ہے، اور اس کھیل کا سب سے بڑا وِلن بھی پر نسپل یا پھر ضلع تعلیمی افسر ہیں، جب تعلیمی سیشن شروع ہوتا ہے تو اس وقت طلبہ اردو پنجابی اور سنسکرت میں سے کسی ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں لیکن اس وقت اردو استاد موجود نہ ہونے کے سبب طلبہ سے کہا جاتا ہے اردو استاد نہیں ہے لہذا سنسکرت پڑھو، اور اساتذہ کا تقرر ہمیشہ بیچ سیشن یا پھر بالکل آخر میں ہوتا ہے، اور جب اردو کا استاد اسکول جؤائن کرنے آتا ہے تو اس سے کہا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں اردو کے بچے نہیں ہیں اس لئے ملازمت نہیں ملے گی، یا پھر بعد میں آنا وغیرہ، اب سوال یہ ہے کہ پہلے استاد کا ہونا ضروری ہے یا اردو کے طلبہ کا دستیاب ہونا؟ اچھا، ریگولر استاد کو تو جؤائننگ مل جاتی ہے لیکن گیسٹ ٹیچر کے لئے بہت دقت ہوتی ہے کیونکہ یہ معاملہ پرنسپل کے اختیار میں ہے، عموما لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ جس اسکول میں میں جا رہا ہوں وہاں اردو کی پوسٹ منظور ہے یا نہیں، اگر ہے تو کتنی سیٹ وغیرہ۔ورنہ وہ یہ کہہ سکتے ہیں مجھے اگلے سیشن کے لئے بھیجا گیا ہے اور یہاں اتنی سیٹ منظور ہیں لہذا مجھے جؤاننگ دیجیے۔ایک اسکول میں چھٹی اور ساتویں جماعت کے طلبہ نے بتایا کہ ہم پرنسپل کے آفس میں اردو مانگنے گئے تو پرنسپل نے جھڑک کر بھگا دیا، کئی بچوں نے یہ بھی کہا کہ پرنسپل سر مارتے ہیں اس لیے کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے، کئی اسکولوں میں پرنسپل یا نائب پرنسپل نے دوٹوک کہا کہ ہمارے یہاں اردو نہیں ہے، جب میں نے آر ٹی آئی کا جواب دکھایا اور بتایا کہ آپ کے اسکول میں اردو کی دو پوسٹ منظور ہیں تو بات گھمائی کہ ہاں پوسٹ تو منظور ہیں لیکن طلبہ کی ڈمانڈ نہیں ہے اس لیے اردو ٹیچر نہیں بلایا،آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ راستے میں رکاوٹ کون بن رہا ہے، بعض پرنسپل تو اردو کا نام سن کر یوں خفا ہوئے مانو وہ اپنی جیب سے اردو اساتذہ کو تنخواہ دیتے ہوں۔ ساؤتھ ایسٹ کے ایک اسکول میں اسکول منجمنٹ کمیٹی کے ممبر نے بتایا کہ میں کئی سال سے اردو شروع کرنے کی بات کہہ رہا ہوں لیکن پرنسپل برابر ٹال مٹول کررہا ہے ۔
دہلی کے ضلعوں سے آر ٹی آئی کا جواب ملنے کے بعد اردو کی حالت زار کا پتہ چلتا ہے، ایسا بالکل نہیں ہے کہ اہل اساتذہ کی کمی ہے، گزشتہ سال اردو پنجابی کی بھرتی میں اردو کے لیے 719 پوسٹ منظور تھیں لیکن تقرر کم وبیش 172 کو ہی ملا جبکہ اپلائی کرنے والے اہل اساتذہ چھہ سو سے زائد تھے، آخر کیوں تمام امیدواروں کو تقرر نہیں دیا گیا؟ سال رواں 18-2017 کے لیے گیسٹ ٹیچر کی بھرتی نکلی تھیں جو کورٹ کچہری کے چکر میں سات ماہ تاخیر سے پایہ تکمیل کو پہنچیں یعنی سیشن ختم ہونے سے بس دو ماہ قبل امیدواروں کی تقرری ہوئی ،طلبہ کا مستقبل کون داؤ پر لگا رہا ہے یہ اندازہ کریں۔ ضلع ویسٹ بی میں ٹی جی ٹی اردو کی 56 پوسٹ خالی تھیں لیکن محض دو امیدواروں کو تقرری ملی، اور باقی؟ باقی کو قوالی سننے میں لگا دیا گیا ہے، ضلع ایسٹ میں ٹی جی ٹی اردو کی 105 سیٹ منظور ہیں جبکہ 101 ابھی بھی خالی پڑی ہیں، اور پی جی ٹی اردو کی 7 پوسٹ منظور ہیں جوکہ سبھی خالی ہیں ۔ساؤتھ ویسٹ اے کے سبھی ژون کو ملاکر تقریبا 20 پوسٹ خالی پڑی ہیں، سینٹرل کے جواب کے مطابق وہاں صرف ایک پوسٹ خالی ہے۔ ویسٹ اے میں 46 پوسٹ خالی تھیں اور محض 3 امیدواروں کو تقرر ملا، اور پی جی ٹی کی ایک پوسٹ خالی ہے ۔باقی ضلعوں نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا حالانکہ حالات کی بدتری کا اندازہ ہو گیا ہے ۔
ہمارے لیے یہ افسوس کا مقام ہے کہ اگر اردو کی ابتدائی تعلیم کو ختم کردیا جائے گا تو اردو کی نئی نسل کہاں سے آئے گی؟ آخر یہیں سے تو بچے کالج اور یونیورسٹی کی دنیا تک پہنچتے ہیں، ایک زمانے سے اردو کے ساتھ یہ منافقت جاری ہے مگر سب کے ناطقے بند ہیں، افسوس ہوتا ہے کہ دہلی جیسی جگہ جہاں اردو کی تین بڑی اکادمیاں، قومی کونسل، ترقی اردو بورڈ، تین تین مرکزی جامعات کے اردو شعبے، درجن سے زائد اردو اخبارات اور کئی درجن اردو کے پدم شری موجود ہوں وہاں اردو کی بات کرنے والا کوئی نہیں ۔کیا اردو کے منصب داروں کو بریانی کے ٹیبل پر ہی اردو کی یاد آتی ہے؟ اردو کے تمام پیرو مرشد اردو کا قتل ہوتا دیکھ رہے ہیں لیکن کسی کو مجال فریاد نہیں ۔
رہا یہی جو نظام گلشن
تو کھل چکے پھول گلستاں میں
روش نہ بدلی جو باغباں نے
تو صرف کانٹے اگا کریں گے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“