میری ڈائری ،
پھر یوں ہوا کہ میں عازم سفر ہوا ،
کہتے ہیں دنیا ایک مسافر خانہ ہے مسافروں کا آوا گون کبھی تھمتا نہیں، آج یہ ہے تو کل وہ نہیں، مسافر خانوں میں روز تماشے ہوتے رہتے ہیں،
کوی آئے کوئی جائے یہ تماشا کیا ہے،
جب تک انسان زندہ رہتا ہے زندگی کے مشکلات ہمیشہ ارد گرد پھیرا لگاتے رہتے ہیں، کبھی معاش کی تنگی بے چین کرتی ہے تو کبھی بیماری استقبال کیلے گلدستہ لیۓ کھڑی رہتی ہے ، کبھی ضروریات در بدر بھٹکاتی ہے تو تحسینات جذبات کو کچوکے لگاتا ہے اور پھر انسان اسی مسافر خانوں کا سفر شروع کرتا ہے، دنیا جہاں کی خاک چھانتا ہے قسم قسم کی الجھنوں پریشانیوں اور صبر آزما گھڑیوں سے نبرد آزما ہوکر اپنے عارضی منزل سے ہمکنار ہوتا ہے یہ ایسا سفر ہے جسمیں انسان خود مختار ہوتا ہے جتنا چاہئے فائدہ اٹھا لے دنیا کی رنگ ریلیوں سے جتنا چاہئے بہرہ ور ہو لے ، کسی سے باز پرس نہیں ہوگی،
زندگی کی اسی الٹ پھیر کا ناچیز بھی ایک حصہ ہے، گردش زمانہ کے ساتھ خاکسار بھی اسی کے رو میں گردش کررہا ہے، مختلف قسم کے سفر کا تجربہ ہوا ڈھٹکولے کھائے چپہ چپہ چھان مارا تاریک رات میں بھی مختلف وحشتناک گلیوں میں بھٹک بھٹک کر اپنی مسافرت کا حق ادا کیا، خدا نے اس کم عمری میں بہت سی آزمائشوں میں ڈالا اور ڈھیر ساری کامرانیاں مقدر ہوئیں یہ ناچیز بارگاہ ایزدی میں صد تشکر پیش کرتا ہے،
آج بارہ اکتوبر دوہزار بائیس بروز سوموار کو دہلی کا رخصت سفر باندھا غرض یہ تھی کہ ہندوستان کی مشہور یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں بی اے کا امتحان شروع ہونے کوہے، امتحان میں شرکت کیلیے اور پھر آگے کی منزل طے کرنے کیلئے یہ آزمائش بھی قبول کی ،
حالانکہ میں مشہور مدرسہ نسواں بنام جامعہ ام سلمہ دھنباد جھارکھنڈ۔ کا ایک استاد ہوں الحمدللہ قال اللہ و قال رسول میں اپنی حیات مستعار گزار رہا ہوں لیکن یہ دنیا ہے اور اس سے فائدہ اٹھانے کیلے نیز اس کے سینے پر چڑھ کر اپنا حق وصولنے کیلے کچھ سرکاری چیزیں بھی ضروری ہیں، چنانچہ میں نے ناظم جامعہ سے رخصت لیکر بمدد خدا سفر پر نکل گیا، گھر والوں نے بڑی شوق و لگن کے ساتھ میرے اس حصول علم کے سفر میں ساتھ دیا ان کا شکریہ، ورنہ عام طور سے یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ازدواجی زندگی گزارنے کے بعد گھر والوں کا سہارا اٹھ جاتا ہے اور انسان ان کی ضرورت پوری کرنے میں لگ جاتا ہے، الحمدللہ تحدیث نعمت کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ خدا نے مجھے ابھی بے سہارا نہیں کیا گھر والوں کے دلوں سے میرے تئیں جذبہ و شوق نہیں ضبط کیا نتیجہ یہ ہے کہ میں اب بھی طالب علم ہوں،
بہر حال ٹرین تین بجے سویر تھی گھر سے قریب عصر کے وقت نکل گیا کیونکہ گاؤں شہر سے خاصا فاصلے پر ہے اسٹیشن تک پہنچنے میں دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سات بجے دھنباد اسٹیشن پہنچا گاڑی گومو اسٹیشن سے تھی دھنباد قمرو ہوٹل میں عشائیہ ہوا اس کے بعد ۔دھنباد فیروز پور۔ سے گومو پہنچا فی الوقت رات کے بارہ بج رہے ہیں اور یہ تحریر صفہ قرطاس کی جارہی ہے ،
دنیا طرح طرح کی رنگ ریلیوں سے بھری ہوئی ہے ، خدا نے مختلف رنگ و روپ کے انسان پیدا کئے ہیں ، مختلف ذہن و دماغ رکھنے والے الگ الگ مزاج رکھنے والے جب ایک جگہ مجتمع ہوتے ہیں تو پھر عجیب سماں بندھ جاتا ہے ، ایک دوسرے کو پہچانتے نہیں ہوتے ہیں لیکن فقط انسان ہونے کے ناطے اپنوں کی طرح محسوس ہونے لگتے ہیں اس کا مشاہدہ سفر میں اکثر ہوتا ہے، سفر بہت تجربہ کی چیز ہے قدم قدم پر تجربات استقبال کیلے کھڑی ہے، قدرت کی کرشمہ سازی و جلوہ پاشی دیکھنے کیلیۓ سفر بہت ضروری ہے اگر چہ دشواریاں سہی لیکن اس کے فوائد سے انکار نہیں کیا جا سکتا،
بہر حال قریب چار بجے ٹرین آئی تھرڈ اے سی میں میری بکنگ تھی رات بھر کی بیچینی عجیب طرح کی تھکاوٹ میں ڈال گئی تھی سیٹ پر سامان رکھا اتنے میں ڈبے کا واچمین سفید چادر اور تکیہ کا کھول لئے پہنچ گیا جلدی سے چادر بچھائی اور سیٹ پر پسر گیا فوراً نیند آگئی اور قریب آٹھ بجے آنکھ کھلی موبائل دیکھا تو مختلف لوگوں کے کال آئے ہوئے تھے مناسب نہیں سمجھا ہر ایک کا جواب دیا جائے، لیکن کچھ خاص ہوتے جو زندگی کا انمول تحفہ ہوتے ہیں اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،
قریب نو بجے فریش ہوکر میں نیچے کی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا جو ایک غیر مسلم بھائی کا تھا کشادہ دل انسان تھے بڑی خندہ پیشانی سے ملے تعارف ہوا پتہ چلا کہ وہ بھونیشور کے ہیں ، میں موبائل میں کچھ مضامین پڑھنا شروع کر دیا وھ میری طرف بہت غور سے دیکھ رہا تھا جب یہ سلسلہ دراز ہوا تو میں نے پوچھا کیا بات ہے بھائی بہت دیر سے آپ مجھے غور سے دیکھ رہے ہیں، وہ کہنے لگا میں نشان دیکھ رہا ہوں کہ کس نشان سے آپ مسلمان ہیں، مجھے بڑی حیرت ہوئی میں نے موبائل رکھ کر اس کی طرف مکمل طور سے متوجہ ہوا، اب انہوں نے ہندو مسلم فسادات اور حکومت کی کارکردگی کے بارے میں طویل گفتگو کی ارد گرد سیٹ پر بیٹھے لوگ بھی متوجہ ہوکر ہم دونوں کی گفتگو کو سن رہے تھے، ابھی گفتگو چل رہی تھی کہ ایک مسلم نوجوانوں پڑھا لکھا مجھسے پوچھ بیٹھا کہ مولوی صاحب جمہوریت کیا ہے ہمارے قائدین بہت زیادہ جمہوریت کی دہائی دیتے ہیں ، مجھے موقع ملا اور میں نے پوری جمہوریت کی تعریف اوصاف خصوصیات نقصانات گنوانا شروع کیا میری آواز بولتے بولتے تیز ہوگئی تو دور بیٹھے لوگ بھی بڑی شوق سے سننے لگے ، چنانچہ میں نے بات مکمل کی تو وہ مسلم نوجوان کہنے لگا ۔۔ مولوی صاحب آپ مولوی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ آپ ملکی معاملات پر نظر رکھتے ہیں، میں نے وہی جواب دیا جو جواب کسی بھی عالم کو پسند نہیں ۔۔ میرا جواب تھا۔۔ میں عالم اسی کو سمجھتا ہوں جو دین کے ساتھ ساتھ دنیوی علوم پر بھی نظر رکھتے ہوں۔۔ میرا یہ جواب ایسا ہے جس کی بدولت کئی عالموں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے ،
خیر تقریباً دو تین گھنٹے گفتگو ہوتی رہی مجھے نیند کا غلبہ ہوا اس لیے پچھلے کئی راتوں سے جاگنا ہو رہا تھا میں اپنی سیٹ پر جاکر سو گیا لیکن لوگوں کو کافی متاثر کیا،
یہ اللہ کا شکر ہے کہ مجھ ناچیز سے گاہے بگاہے کام لیتا رہتا ہے اس کیلیے جتنا بھی شکریہ ادا کروں کم ہے،
اچانک آنکھ کھلی تو دیکھا گاڑی آنند وہار پہنچ چکی ہے اپنا سامان سمیٹا اور گاڑی سے اتر کر آٹو کے ذریعہ اپنی منزل کی راہ لی،
شہری ماحول،
اسٹیشن سے جامعہ نگر عظیم ڈیری پہنچے جہاں پر ہمارے ایک قدیم ساتھی اور کلاس میٹ مولانا وسیم لطیف ندوی صاحب ( امام و خطیب مسجد چنئی) نے ایک کمرہ کرایہ پر لے رکھا تھا غسل مسنون سے فارغ ہوکر عشائیہ کیلے ہوٹل پہنچے میری آنکھوں کے سامنے شہر کا پورا نظارہ تھا ارد گرد فلک بوس عمارتیں خوبصورت منظر بکھیر رہی تھیں گلی کوچوں میں گاڑیوں کا آواگون اور پھر خلقت کا ہجوم میری آنکھوں کو خیرہ کررہی تھیں لیکن کچھ دور چلنے کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ شہر میں زندگی گزارنا ہم جیسے علاقائی افراد کیلیے قیامت صغری سے کم نہیں،
یہ اور بات کہ مجھے شہروں کی آرزو ہے
میں خود پہ کررہا ہوں ویرانیاں مسلط
ہر علاقائی کے دل میں شہر کی آرزو موجزن رہتی ہے شہر کا نام سن کر دل مچلنے لگتا ہے لگتا ہے شاہین بن جاؤں اور شہر کے درختوں پر اپنا گھونسلہ بنا لوں، شھری مزاج بھی مختلف ہوتا ہے شہری باشندے علاقائی اور دیہی باشندوں کو کمتر اور حقیر سمجھتے ہیں لیکن صحیح بات یہ ہے کہ شہر ی زندگی کے مقابلہ میں دہی علاقے کئی معنوں میں پرسکون ہوتے ہیں،
غالباً یہی وجہ ہوگی کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش شہری زندگی سے دور دیہات میں ہوئی اس لیے کہ گاؤں دیہات کی ہر چیز میں اطمینانیت ہے کلچر بھی پرسکون ثقافت بھی پرنم فضا بھی نظافت سے سرشار باد نسیم کی عطر بیزی بارشوں کا لطف موسموں کا اتار چڑھاؤ چہل قدمی کیلے کشادگی سیر و سیاحت کیلے جگہوں کی وسعت یہ سب وہ نظارے ہیں جو شہری زندگی میں معدوم ہیں،
اس کے برعکس شہر میں جہاں خوبیاں ہیں خامیاں بھی ہیں یہاں قدم قدم پر گلچھرے زمین سے اڑتی دھول فضا کی آلودگی راستوں کا کراؤڈ راہ گیروں کا ہجوم تنگئ مکاں الغرض ایک آزادانہ زندگی کیلیے شہر کسی بھی طرح سے آرام دہ نہیں نظر آتا خوبیاں تحریر کرنے کی ضرورت نہیں سب کے سامنے عیاں ہیں،
بہر حال مجھے کافی دشواریوں کا سامنا ہے لیکن کامیابی دشواریوں میں ہی پنہاں ہیں یہ قرآنی دستور ہے اس سے کسی کو بھی مفر نہیں،
دہلی جو کہ ہمارے وطن عزیز کی راجدھانی ہے ہر ہندوستانی یہاں کی زیارت کا خواستگار ہے ساتھ ساتھ تاریخی حیثیت سے بھی سب سے نمایاں ہیں ، بس اللہ اس کو سلامت رکھے،
نوٹ۔ میری اس تحریر سے سب کا اتفاق ضروری نہیں،
شاہین باغ میں ،
تیسرے دن ہم نے شاہین باغ کی راہ لی میری بڑی خواہش تھی کہ اس تاریخ ساز جگہ کی زیارت کروں جہاں سے حکومت کے چولے ہل گئے تھے، میں نے اپنے ساتھی سے باصرار کہا تو وہ راضی ہو گئے، ہم بذریعہ آٹو وہاں پہنچ گئے ، مغرب کا وقت ہورہا تھا وہیں پر ایک وسیع و کشادہ مسجد ۔۔مسجد عمر۔۔ کے نام سے تھی نماز سے فارغ ہوکر اس گلی میں داخل ہوئے جو گلی شاہین باغ جاتی ہے، چند قدم چلے کہ آنکھوں کے سامنے شاہین باغ تھا، جہاں پر شاہینوں کی پرزور صدائیں آج بھی گونج رہی تھیں، ٹھٹرتی سردی میں خواتین کے جم گھٹے کا وہ دلدوز منظر ذہن میں گردش کررہا تھا حکومت کے خلاف صدائے احتجاج سے آج بھی فضا میں سنساہٹ ہے، وہ کشادہ سڑکیں ارا گرد جھاڑیوں کا ہجوم آج بھی ان خواتین کی دہائی دے رہا ہے،
کیا ہے شاہین باغ
پہلے شاہین باغ دوسرے جگہوں کی طرح ایک جگہ تھی ، کشادہ سڑکیں ہیں ، ارد گرد جھاڑی دار درخت ہے، روڈ کے اوپر ایک برج بنا ہوا ہے ، لیکن شاہین باغ اس وقت حقیقت میں شاہین بن گیا جب حکومت کی طرف سے ایک کالے قانون نے پورے ملک میں آگ لگا دی تھی، پورا ملک سراپا احتجاج تھا، بڑے بڑے تعلیمی ادارے اپنے مشن سے صرف نظر کرتے ہوئے اس قانون کے خلاف احتجاج میں لگے ہوئے تھے، لیکن حکومت کی ظالمانہ پالیسی پولیس کی بربریت نے سب کو سرینڈر کردیا پورے ملک میں خاموشی چھا گئی، لیکن ایک شاہین باغ تھا جو کہ مکمل طور سے شاہین بنا ہوا تھا اور حکومت کی تمام ظالمانہ کارروائیوں کے باوجود اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے، اور شاہیں باغ میں کوئی مرد نہیں بلکہ وطن کی بے باک خواتین تھیں کچھ نوجوان ،کچھ ادھیڑ عمر کی کچھ بلکل ضعیف اپنے گھر بار کو خیرآباد کہہ کر، راتوں کی نیند کو تج کرکے، دن کے مصروفیات کو چھوڑ کر اپنے ملک کے تحفظ و بقا کیلے سڑک پر اتر آئ تھیں حکومت نے طرح طرح کے حربے آزمائے، ظلم کے حدود کو پار کیا، اوپر سے سرد موسم کی قہر سامانی اپنے شباب پر تھی، تمام تکلیفوں کو جھیلتے ہوئے حکومت کے کالے قانون کے خلاف کھلے آسمان کے نیچے ڈٹی ہوئ تھیں، دنیا بھی حیران تھی کہ ہندوستانی مرد خاموش ہیں، لیکن عورتیں سڑک پر ہیں بلاآخر نتیجہ بھی دنیا نے دیکھا جو کام مردوں سے نہیں ہوا وہ عورتیں کرگزری حکومت کی نیندیں اڑ گئیں، دماغ بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا تھا، عقلوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا، اگر کورونا وبا کی آمد نہ ہوتی تو حکومت کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑتا،
میں روڈ کے کنارے کھڑے ہوکر بڑی گہری سے چاروں طرف کا معائنہ کررہا تھا میری آنکھیں دیدہ حیرت بنی ہوئی تھی ذہن کشمکش کا شکار تھا بدن میں عجیب جھمجھاہٹ تھی دل بہادر شیرنیوں کیلے محو دعا تھا گویا پورا منظر آنکھوں کے سامنے تھا اسی کیفیت میں وہاں سے ہم عشاء کے وقت اپنے ڈیرے میں پہنچ گئے،
آج سترہ ستمبر بروز سنیچر کو اپنے مقصد کی طرف پہلا قدم بڑھایا، تین بجے سے امتحان شروع تھا پچھلے چار پانچ دنوں سے بساط بھر تیاری چل رہی تھی، جنرل انگلش کا پرچہ تھا چونکہ شروع سے بہت زیادہ انگریزی کی طرف رجحان نہیں تھا لیکن بعد میں زمانہ کی ستم ظریفی نے انگریزی کی طرف بھی رجحان پیدا کیا لیکن ابھی انگریزی میدان میں طفل مکتب ہوں اور مزید سیکھ رہا ہوں انگریزی زبان میں کم علمی کی وجہ سے دل دھڑک رہا تھا وقت قریب آیا تھا تو مزید دھڑکنیں تیز ہوگئیں لیکن محنت کی تھی تو اللہ کے وعدہ پر پورا بھروسہ تھا الحمدللہ پرچہ بحسن خوبی انجام کو پہنچا،
یہاں پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی کچھ تاریخی حیثیت آپ کے سامنے پیش کروں تاکہ جامعہ کی اہمیت و افادیت آپ کے سامنے آجائے،
جامعہ ملیہ اسلامیہ تاریخ کے آئینے میں
1920ء میں علی گڑھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے بانیوں میں محمود حسن دیوبندی، محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، عبد المجید خواجہ اور ذاکر حسین ہیں۔ ان حضرات کا خواب ایک اینے تعلیمی ادارہ کا قیام تھا جہاں اکثریت کے جذبے کا احترام کیا جائے اور اخلاق عالیہ کا مظاہرہ کیا جائے۔ 1925ء میں جامعہ کو علی گڑھ سے قرول باغ، نئی دہلی منتقل کیا گیا۔ 1 مارچ 1935ء کو اوکھلا میں جامعہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اوکھلا اس زمانہ میں جنوبی دہلی کا ایک غیر رہائشی علاقہ تھا۔ نئے حرم جامعہ میں کتب خانہ، جامعہ پریس اور مکتبہ کے علاوہ تمام شعبے منتقل کردیے گئے تھے۔ اسے ایک قومی یونیورسٹی کے طور پر تسلیم کیا گیا جہاں اعلیٰ، جدید اور ترقی پسند تعلیم کا انتظام کیا جائے اور ملک بھر کے تمام مذاہب کے لوگ بالخصوص مسلمان تعلیم حاصل کرسکیں۔ جامعہ کو گاندھی اور ٹیگور کا بھرپور تعاون حاصل رہا۔ دونوں بزرگوں کا ماننا تھا کہ جامعہ ہزاروں طالبان جدید علوم کی تشنگی کا سامان فراہم کرے گا۔ 1988ء میں جامعہ کو بھارتی پارلیمان کے جامعہ ملیہ اسلامیہ ایکٹ، (59/1988) کے تحت مرکزی یونیورسٹی کا درجہ ملا۔
2006ء میں سعودی عرب کے سلطان سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے جامعہ کو شرف زیارت بخشا اور 3 ملین ڈالر کا نذرانہ پیش کیا جس سے ذاکر حسین لائبریری کا قیام عمل میں آیا۔
زندگی میں پہلی بار کسی یونیورسٹی کو دیکھنے کا موقع ملا قسمت کا بھی ساتھ ملا اور اس یونیورسٹی میں پڑھنے کا موقع ملا،
آج کیلے بس اتنا۔ کل انشاء اللہ جغرافیائی حیثیت بیان کی جائے گی،
تب تک کیلے خدا حافظ،
بروز اتوار قریب بارہ بجے ہم دھلی جامع مسجد کی طرف محو سفر ہوئے ڈیرے سے نکل کر سیدھے میٹرو اسٹیشن پہنچے میٹرو کی کارروائی مکمل کرنے بعد پلیٹ فارم پر گئے دو منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ میٹر و اپنے رفتار میں پلیٹ فارم پر پہنچ گئ جھٹ سے دروازہ کھلا اور ہم سوار ہوئے ڈبے میں خلقت کا ہجوم تھا بمشکل کھڑے ہونے کی جگہ تھی تقریباً آدھا گھنٹہ اسی کیفیت میں رہے کہ جامع مسجد میٹرو اسٹیشن پہنچ گئے ، وہاں سے سیدھے مسجد کی راہ لی راستہ میں مینا بازار نے ہمارا استقبال کیا اور اسی راستے سے ہم مسجد کے دروازے تک پہنچ گئے ، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر تھوڑا مسجد کی جغرافیائی حیثیت بیان کرتا چلوں ،
مسجد کی جغرافیائی حیثیت
مسجد جہاں نما جو جامع مسجد دہلی کے نام سے مشہور ہے، بھارت کے دار الحکومت دہلی کی اہم ترین مسجد ہے۔ اسے مغل شہنشاہ شاہجہاں نے تعمیر کیا جو 1656ء میں مکمل ہوئی۔ یہ بھارت کی بڑی اور معروف ترین مساجد میں سے ایک ہے اور پرانی دلی کے مصروف اور معروف ترین مرکز چاندنی چوک پر واقع ہے
مسجد کے صحن میں 25 ہزار سے زائد افراد کی گنجائش ہے۔ اس کی تعمیر پر 10 لاکھ روپے کی لاگت آئی۔
شاہجہاں نے اپنے دور حکومت میں دہلی، آگرہ، اجمیر اور لاہور میں بڑی مساجد تعمیر کرائیں جن میں جامع مسجد دہلی اور لاہور کی بادشاہی مسجد کا طرز تعمیر تقریباً یکساں ہے۔
مسجد کے صحن تک مشرقی، شمالی اور جنوبی تین راستوں سے بذریعہ زینہ رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مسجد کے شمالی دروازے میں 39، جنوبی میں 33 اور مشرقی دروازے میں 35 سیڑھیاں ہیں۔ مشرقی دروازہ شاہی گزر گاہ تھی جہاں سے بادشاہ مسجد میں داخل ہوتا تھا۔
مسجد 261 فٹ طویل اور 90 فٹ عریض ہے، اس کی چھت پر تین گنبد نصب ہیں۔ 130 فٹ طویل دو مینار بھی مسجد کے رخ پر واقع ہیں۔ مسجد کے عقبی جانب چار چھوٹے مینار بھی موجود ہے،
ہم مسجد میں داخل ہوئے تو اچانک شاہ جہاں کی شاہجہانی نظر کے سامنے گردش کرنے لگی ساتھ ہی ساتھ ہماری عظمت رفتہ ہمیں صدا دے رہی تھی کہ ۔۔ اب تمہیں اسلام کی نشانیاں اپنے تحفظ و بقا کیلے فریاد رس ہیں۔۔۔
صحن میں داخل ہوئے تو نوع بنوع خلقت کا ہجوم نظر آیا جسمیں مرد اور عورتیں بھی تھیں ، کچھ ملکی تھے تو کچھ غیر ملکی سب کی آنکھیں دیدہ حیرت بنی ہوئی تھیں، صحن میں موجود حوض میں ہم نے وضو کی ظہر کا وقت گزرا جارہا تھا جماعت خانہ میں نماز ادا کی یہ پہلا موقع تھا جب شاہجہاں کی عمارت میں نماز ادا کرنے کا موقع ملا، نماز ادا کرنے کے بعد مسجد کی فلک بوس عمارتیں پرشکوہ تعمیرات پر نظر پڑی تو خدا کی مخلوق کی گاری گری نظر آئ جو حقیقت میں خدا کی طرف سے عطیہ کی ہوئی ہے، صحن کے بائیں جانب آیا تو دیکھا کہ سب کے ہاتھ میں موبائل ہے جو فوٹو گرافی کے عمل میں مشغول ہے طرح طرح سے تصاویر لینے کی ایکٹنگ نظر آئ عورتیں اس کام میں زیادہ پیش پیش نظر آئیں دیکھ کر دل دھک سے رہ گیا کیونکہ ایک غیرت مند صاحب ایمان مسجد کے اندر اس طرح کی حرکتوں کو برداشت نہیں کر سکتا، بہر حال دنیا کی رنگ ریلیاں اپنی جگہ مسلم ہیں ان رنگ ریلیوں میں ہماری اقداریں دفن ہو چکی ہیں جس کو اب کھرید کر نکالنا دنیا کی نظروں میں پاگل سے کم نہیں سمجھا جائے گا،
لال قلعہ 🏰 میں ،
شاہی جامع مسجد کے بالکل سامنے روڈ کے اس پار ایک اور آثار قدیمہ اور اسلاف کی نشانی عظمت رفتہ کی تعمیراتی شکل موجود ہے جس کو لال قلعہ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، یہ بھی دنیا کی نگاہ میں دیدہ حیرت ہے اور اپنی تمام تر رعنائیوں زیبائوں اور جلوہ سامانیوں کے ساتھ مطمح نظر بنا ہوا ہے ، ملکی اور غیر ملکی خلقت کا ہجوم ہوتا ہے ، سچ بات یہ ہے کہ ملک ہندوستان کی دنیا میں جو حیثیت ہے وہ صرف ایک ملک ھونے کی حیثیت سے نہیں ہے بلکہ ہماری عظمت رفتہ کا بھی بڑا رول ہے ،
ہم جامع مسجد سے نکل کر سیدھے پیادا لال قلعہ کی اور چلے اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں پتہ چلا کہ یہ قطاریں لال قلعہ کے اندرونی حصے کی زیارت کیلے ٹکٹ بکنگ کی قطار ہے تقریباً دو ڈھائی کلو میٹر تک خلقت کا ہجوم قطار کی شکل میں عقل محو حیرت تھی مجھے بڑی تمنا تھی کہ اندرونی حصہ کی زیارت کروں لیکن اس قدر ازدحام دیکھ کر ہمت نہیں ہورہی تھی کہ قطار میں کھڑے ہوکر ٹکٹک لیں لیکن چونکہ دیکھنا مقدر تھا اس لیے ہمارے ایک ساتھی قطار میں کھڑے گئے قریب ایک گھنٹہ کھڑے ہونے کے بعد ٹکٹ کی کاروائی مکمل ہوئی ، دھوپ کی تمازت اس قدر تیز تھی کہ پدن پسینہ سے شرابور ہوا جارہا تھا لیکن سامنے اسلاف کی یادیں تھیں تو کچھ فرق نہیں پڑ رہا تھا ، بالآخر ہم اندر گئے جیسے جیسے قدم آگے بڑھ رہا تھا نگاہیں چاروں طرف گھور گھور کر دیکھ رہی تھیں پوری عمارت پتھر کی اور وہ بھی ایک ہی قسم کا پتھر یعنی کہ سرخ رنگ کا ، کٹنگ اور ڈیزاننگ میں تو عجیب کرشمہ سازی تھی میں نے موجودہ مشینی دور اور ماضی میں ہاتھ کی کاری گری پر غور کیا تو ذہن نے اول پوزیشن ماضی ہی کو دیا ، ہم آگے بڑھ رہے تھے مارکیٹ نے ہمارا استقبال کیا خرید و فرخت کا عمل اندر بھی جاری تھا طرح طرح کے اشیاء بیچے اور خریدے جارہے تھے ، ایک عمارت کو کراس کرنے کے بعد ہمیں ایک خلا نظر آئ وہاں داخل ہوئے تو خود کو ایک میدان میں پایا دور کچھ پرشکوہ عمارتیں نظر آئیں قدم کو اس جانب بڑھایا تو معلوم ہوا کہ وہ میوزیم ہے دروازہ پر پہنچے تو گاڈ نے ٹکٹ کی مانگ کی ہم نے میوزیم کا ٹکٹ بھی لیا ہوا تھا اس لیے پریشانی نہیں ہوئی اور باآسانی اندر داخل ہو گئے ، پہلا کمرہ جسمیں ہم داخل ہوئے اس میں ایک بڑی حیرت ناک اور ہیبت ناک چیز نظر آئ دیکھ کر دل دھک سے رہ گیا پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ در اصل انگریزوں کے زمانے کا توپ ہے انگریز مسلمانوں کو رسی سے باندھ کر اسی توپ سے اڑا دیا کرتے تھے جس سے مسلمانوں کے جسم ذرات کی شکل میں فضا میں بکھر جایا کرتا تھا ، یہ سن کر جنگ آزادی کی تاریخ اور مسلمانوں کی قربانیوں اور ان پر ستم رانی و قہر سامانی کی تاریخ میں کھو گیا آنکھیں ڈبڈبا سی گئی تھیں ، آگے بڑھے تو ایک بورڈ پر کچھ پرچے چسپاں نظر آئے جنہوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت میں بڑا رول ادا کیا تھا ، ان میں سے سب سے نمایاں پرچہ مولانا ابوالکلام آزاد کا۔۔ الہلال ۔۔ تھا ، چونکہ تاریخ سے تھوڑی وابستگی ہے اسے لئے ان پرچوں کو دیکھ کر کچھ انجان محسوس نہیں ہوا ، اٹھارہ ستاون کا زمانہ جسے انگریزوں نے غدر کا نام دیا تھا اس زمانے میں ان پرچوں نے بڑا رول ادا کیا تھا ان کے بانیان کو کالا پانی کی اندوہناک صعوبتیں برداشت کرنی پڑی تھیں ،
وہاں سے ہم دوسرے فلور پر پہنچے تو حیرت کی انتہا نہ رہی نگاہوں کے سامنے ماتم پسر گیا عقل تماشا بن کر رہ گئی منظر کچھ یوں تھا کہ بہت سے مجاہدین آزادی کی تصویریں مع نام چسپاں تھیں لیکن سوائے ایک کے کوئی مسلم مجاہدین آزادی نظر نہیں آیا ، ایک جن کی تصویر تھی وہ ملا باقر تھے جنہوں نے انگریزوں کے خلاف کافی جد و جہد دکھائی تھی ،
دل میں خیال آیا کہ ۔۔۔ اگر چہ پرچوں سے ہمارے شہدا کو مٹا دو لیکن دل کے نہاں خانوں سے نہیں مٹا سکتے ، اور بھی کئی تاریخی چیزیں دیکھنے کو ملی خصوصاً جنگ آزادی کے نمونے نظر آئے وہاں سے ہم نکلے دل مستغرق دعا تھا ،
شاہین باغ میں ،
تیسرے دن ہم نے شاہین باغ کی راہ لی میری بڑی خواہش تھی کہ اس تاریخ ساز جگہ کی زیارت کروں جہاں سے حکومت کے چولے ہل گئے تھے، میں نے اپنے ساتھی سے باصرار کہا تو وہ راضی ہو گئے، ہم بذریعہ آٹو وہاں پہنچ گئے ، مغرب کا وقت ہورہا تھا وہیں پر ایک وسیع و کشادہ مسجد ۔۔مسجد عمر۔۔ کے نام سے تھی نماز سے فارغ ہوکر اس گلی میں داخل ہوئے جو گلی شاہین باغ جاتی ہے، چند قدم چلے کہ آنکھوں کے سامنے شاہین باغ تھا، جہاں پر شاہینوں کی پرزور صدائیں آج بھی گونج رہی تھیں، ٹھٹرتی سردی میں خواتین کے جم گھٹے کا وہ دلدوز منظر ذہن میں گردش کررہا تھا حکومت کے خلاف صدائے احتجاج سے آج بھی فضا میں سنساہٹ ہے، وہ کشادہ سڑکیں ارا گرد جھاڑیوں کا ہجوم آج بھی ان خواتین کی دہائی دے رہا ہے،
کیا ہے شاہین باغ
پہلے شاہین باغ دوسرے جگہوں کی طرح ایک جگہ تھی ، کشادہ سڑکیں ہیں ، ارد گرد جھاڑی دار درخت ہے، روڈ کے اوپر ایک برج بنا ہوا ہے ، لیکن شاہین باغ اس وقت حقیقت میں شاہین بن گیا جب حکومت کی طرف سے ایک کالے قانون نے پورے ملک میں آگ لگا دی تھی، پورا ملک سراپا احتجاج تھا، بڑے بڑے تعلیمی ادارے اپنے مشن سے صرف نظر کرتے ہوئے اس قانون کے خلاف احتجاج میں لگے ہوئے تھے، لیکن حکومت کی ظالمانہ پالیسی پولیس کی بربریت نے سب کو سرینڈر کردیا پورے ملک میں خاموشی چھا گئی، لیکن ایک شاہین باغ تھا جو کہ مکمل طور سے شاہین بنا ہوا تھا اور حکومت کی تمام ظالمانہ کارروائیوں کے باوجود اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے، اور شاہیں باغ میں کوئی مرد نہیں بلکہ وطن کی بے باک خواتین تھیں کچھ نوجوان ،کچھ ادھیڑ عمر کی کچھ بلکل ضعیف اپنے گھر بار کو خیرآباد کہہ کر، راتوں کی نیند کو تج کرکے، دن کے مصروفیات کو چھوڑ کر اپنے ملک کے تحفظ و بقا کیلے سڑک پر اتر آئ تھیں حکومت نے طرح طرح کے حربے آزمائے، ظلم کے حدود کو پار کیا، اوپر سے سرد موسم کی قہر سامانی اپنے شباب پر تھی، تمام تکلیفوں کو جھیلتے ہوئے حکومت کے کالے قانون کے خلاف کھلے آسمان کے نیچے ڈٹی ہوئ تھیں، دنیا بھی حیران تھی کہ ہندوستانی مرد خاموش ہیں، لیکن عورتیں سڑک پر ہیں بلاآخر نتیجہ بھی دنیا نے دیکھا جو کام مردوں سے نہیں ہوا وہ عورتیں کرگزری حکومت کی نیندیں اڑ گئیں، دماغ بوکھلاہٹ کا شکار ہو گیا تھا، عقلوں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا، اگر کورونا وبا کی آمد نہ ہوتی تو حکومت کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑتا،
میں روڈ کے کنارے کھڑے ہوکر بڑی گہری سے چاروں طرف کا معائنہ کررہا تھا میری آنکھیں دیدہ حیرت بنی ہوئی تھی ذہن کشمکش کا شکار تھا بدن میں عجیب جھمجھاہٹ تھی دل بہادر شیرنیوں کیلے محو دعا تھا گویا پورا منظر آنکھوں کے سامنے تھا اسی کیفیت میں وہاں سے ہم عشاء کے وقت اپنے ڈیرے میں پہنچ گئے،
٢٧ تاریخ بروز منگل کو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جاری امتحان کا تیسرا پیپر دینے کے بعد آل انڈیا دعوت و تبلیغ کا مرکز نظام الدین جانے کا اتفاق ہوا، اب تک صرف نام سنا تھا دیکھنے کی بڑی تمنا تھی کیونکہ تاریخ کا ذریں دور بھی وہاں سے وابستہ ہے، اپنے ڈیرے سے آن لائن موٹر گاڑی بک کرکے سیدھے بستی نظام الدین پہںنچے دوران سفر راستے کا نشیب و فراز صف بستہ درخت خنکی سے معمور ہوا سے مزاج کھل اٹھا، بستی نظام الدین سے مرکز جانی والی گلی میں داخل ہوئے کچھ دور چلے کہ مرزا غالب کا مزار نظر آیا اسی سے متصل غالب اکیڈمی نظر آئ زیارت کیلئے طبعیت مچل گئی لیکن اس کیلیے دوسرا وقت مقرر کیا ، ہم سیدھے مرکز میں پہنچے اندر داخل ہوئے تو بڑا سا حوض نظر آیا تحیۃ الوضو کی نیت سے وضو کی پہلی منزل پر پہنچے تو امیر جماعت مولانا سعد صاحب دامت برکاتہم العالیہ کا ایمان افروز بیان جاری تھا کچھ تبلیغی بھائی استقبال میں کھڑے تھے ہمیں سماعت کیلیے بٹھا دیا کچھ دیر سنا اور پھر معذرت کرلی کیوں کہ وقت کم تھا اور ابھی بہت کام باقی تھا،
آگے کے احوال ذکر کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بستی نظام الدین کی تاریخی حیثیت بیان کرتا چلوں۔۔۔۔۔۔
یہ بستی نظام الدین اولیاء کی تہذیبی و ثقافتی
گوناگونی کی منفرد مثال ہے جو ا پنے سینہ میں بر صغیر میں مسلم سلاطین کے دورکی ایک تاریخ سمائے ہوئے ہے۔
دلی، جو سات بار اجڑی اور بسی،اس میں مہرولی، تغلق آباد، فیروز شاہ کوٹلہ وغیرہ اپنی تاریخی اہمیت اور حیثیت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ ان میں بستی حضرت نظام الدین کو کئی اعتبار سے ایک منفرد مقام حاصل ہے۔
بستی کے ایک کنارے پر مغل بادشاہ ہمایوں کا مقبرہ ہے تو دوسر ے کنارے پر حضرت نظام الدین اولیاء کی درگاہ واقع ہے۔ اور اس درمیان میں ادب و ثقافت کی مایہ ناز ہستییاں حضرت امیر خسرو، عبدالرحیم خان خاناں، اسد اللہ خان غالب، خواجہ حسن نظامی اور مشہور موسیقار صوفی عنایت خان بھی آرام فرما ہیں۔
غالب کے مزار کے قریب ہی غالب اکیڈمی کے نام سے یہ شاندار عمارت تعمیر کی گئی ہے،
یہ بستی دلی کے وسط میں واقع ہے جو نہ صرف جدید اور قدیم کا ایک حسین سنگم ہے بلکہ دو مختلف مسلکوں کے درمیان ہم آہنگی کی قابل تقلید مثال بھی پیش کرتی ۔ درگاہ کے محض چند قدم کے فاصلہ پر تبلیغی مرکز ہے۔
حضرت نظام الدین اولیاء کے نام سے موسوم یہ بستی 13ویں صدی کے ابتداء میں معرض وجود میں آئی ۔ اس کا محل وقوع اور رقبہ بہت وسیع نہیں ہے لیکن اسے پورے برصغیر ہند میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں سب سے زیادہ مسلم عہد وسطیٰ کی شاندار عمارتیں آج بھی اپنے جاہ و جلا ل کے ساتھ کھڑی ہیں۔ دلی کے مسلم سلاطین کے ہر خاندان (غلامان، خلجی، تغلق، لودھی، سوری اور مغل خاندانوں) نے یہاں شاندار عمارتیں تعمیر کرائیں ۔ پہلے یہ بستی دریائے جمنا کے کنارے آباد تھی مگر 19ویں صدی میں دریا کا بہاؤ مشرق کی جانب سرک گیا۔
خواجہ امیر خسرو کے مزار میں ،
ابن الفظ،
مرکز سے نکل کر ہم خواجہ نظام الدین اولیاء کی درگاہ کی اور جانے والی گلی میں داخل ہوئے قدم قدم پر پھول کی دکانیں سجی ہوئی تھیں پھول پتیوں کو پلیٹ میں سجا کر ہر دکاندار خریدنے کی صدا لگا رہا تھا، کچھ تو یہاں تک کہ رہا تھا کہ پھول لئے بغیر درگاہ میں جانا درست نہیں ہے، اس جملے سے حیرت بھی ہورہی تھی لیکن ہر کاروبار کا اپنا الگ حربہ ہوتا ہے ، کسی کی بھی صدا پر کان دھرے بغیر گلی کو پار کرتے رہے، یہاں تک کہ ہم درگاہ میں داخل ہوئے ، اندر کچھ عجیب سا تماشا تھا جو ایک سچے مومن کیلے بالکل روا نہیں ہے، چاروں طرف نظر دوڑائی تو ہمیں نظام الدین اولیاء کے مزار سے کچھ پہلے بائیں جانب ۔۔ طوطی ہند امیر خسرو۔ ۔۔ کا مزار نظر آیا ، اندر داخل ہونے کیلے لائن میں کھڑے ہو گئے دروازہ کے قریب بہنچے تو مختلف جگہوں پر کچھ پرچے کچھ رسیاں بندھی ہوئی نظر آئیں جو کسی منت کش کا کارنامہ تھا اندر داخل ہونے سے پہلے ہر شخص دروازہ کو چومتا اس کو بوسہ دیتا اور پھر قبر کے پاس جاکر جبیں سائی کرتا وہاں پر دھرے پھولوں کے انبار سے مٹھی پر پھول لیکر قبر میں چڑھکتا اور رو رو کر فریاد کرتا یہ منظر میرے لئے بلکہ ہر صحیح العقیدہ کیلے قابل ترس تھا ،۔ بھلا قبر والا تھا خود محتاج ہے پھر اس سے مرادیں کیسی۔۔۔۔ میں سیدھے داخل ہوکر قبر کے سرہانہ فاتحہ وغیرہ پڑھ کر وہاں سے نکل گیا اس دوران میری طرف نگاہیں کچھ عجیب سی کیفیت لئے اٹھ رہی تھیں میں کسی کی پرواہ کئے بغیر وہاں سے نکل گیا ، مسلمانوں کی اس حالت زار کو دیکھ کر دل افسردہ تھا لیکن کسی سے کچھ کہا بھی نہیں جاتا،
کون ہیں خسرو
آپ نظام الدین اولیا کے چہیتے مرید اور مشہور خلیفہ ہیں جو فارسی اور اردو کے صوفی شاعر اور ماہر موسیقی کار ہیں۔ وہ طوطی ہند کے نام سے مشہور ہوئے۔ دنیا میں اردو کا پہلا شعر انہی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اردو کے ابتدائی موجدین میں ان کا نام نمایاں ہے۔ ان کے آبا و اجداد ترک تھے۔ وہ 1253ء میں پٹیالی، آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ ہندوستانی تھیں۔ امیرخسرو نے سلطنت دہلی (خاندان غلامان، خلجی اورتغلق) کے آٹھ بادشاہوں کا زمانہ دیکھا اور برصغیر میں اسلامی سلطنت کے ابتدائی ادوار کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی میں سرگرم حصہ لیا۔ انہوں نے ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ ہندوستانی موسیقی میں ترانہ، قوال اور قلبانہ انہی کی ایجاد ہے۔ بعض ہندوستانی راگنیوں میں ہندوستانی پیوند لگائے۔ راگنی (ایمن کلیان) جو شام کے وقت گائی جاتی ہے انہی کی ایجاد ہے۔ ستار پر تیسرا تار آپ ہی نے چڑھایا۔ وہ ہندوستانی کلاسیکل موسیقی کے ایک اہم ستون ہیں۔ اور اہم ساز، طبلہ اور ستار انہی کی ایجاد تصور کیے جاتے ہیں اور فن موسیقی کے اجزا جیسے خیال اور ترانہ بھی انہی کی ایجاد ہے،
1286 میں خواجہ نظام الدین اولیاء کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ اور خواجہ صاحب نے خاص ٹوپی جو اس سلسلہ کی علامت تھی خسرو کو عطا کی تھی اور انہیں اپنے خاص مریدوں میں داخل کر لیا تھا۔ بیعت کے بعد خسرو نے اپنا سارا مال و اسباب لٹا دیا تھا۔ اپنے مرشد سے ان کی عقیدت عشق کے درجہ کو پہنچی ہوئی تھی خواجہ صاحب کو بھی ان سے خاص لگاؤ تھا۔ کہتے تھے کہ جب قیامت میں سوال ہو گا کہ نظام الدین کیا لایا تو خسرو کو پیش کر دوں گا۔ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر ایک قبر میں دو لاشیں دفن کرنا جائز ہوتا تو اپنی قبر میں خسرو کو دفن کرتا۔ جس وقت خواجہ صاحب کا وصال ہوا خسرو بنگال میں تھے۔ خبر ملتے ہی دہلی بھاگےاور جو کچھ زر و مال تھا سب لٹا دیا اور سیاہ پوش ہو کر خواجہ کی مزار پر مجاور ہو بیٹھے چھ ماہ بعد ان کا بھی انتقال ہو گیا اور مرشد کے قدموں میں دفن کئے گئے، برابر اس لئے نہیں تا کہ آگے چل کر دونوں کی جداگانہ قبروں کی شناخت میں مشکل نہ پیدا ہو۔
خواجہ نظام الدین اولیاء کے مزار پر ،
امیر خسرو کے مزار سے نکل کر تھوڑا آگے کی اور چلے ایک چھوٹی سی گلی نے ہمارا استقبال کیا گلی میں وہی پھول مالا کا تماشا تھا اونچی شلوار اور غالب کی ٹوپی سر پر سجائے ہاتھ میں پھولوں اور مالوں سے سجی پلیٹ لئے خریدنے کی گوہار لگا رہا تھا، گلی سے سیدھے نکل کر مزار پر پہںنچے ہر طرف وہی شرک و بدعت کا تماشا پسرا ہوا تھا، عقل و خرد رکھنے والے مرد ہاتھ پھیلائے ہوئے آنکھیں نم کئے ہوئے ۔۔ یا خواجہ یا خواجہ۔۔ کی دہائی دے رہے تھے، ادھر عورتیں مزار کی جالی کے قریب بنے چیوبترے میں بیٹھ کر ماتھا پٹخ رہی تھیں کچھ تو وہ تھیں جو اس قدر سر دھن رہی تھیں کہ بال دائیں بائیں جھپاٹے دے رہا تھا ، چیوبترے کے کنارے لگی گھیراونی تار پر رسیاں اور تالے لٹکے ہوئے تھے ۔۔ میری معلومات رسیوں اور دھاگوں کے باندھنے تک تھی لیکن تالا دیکھ کر حیرت ہوئی میں نے اپنے ساتھی ۔۔۔ محمد وسیم ندوی۔۔ سے اس بارے میں دریافت کی تو بتایا کہ یہ سب منت کا تالا ہے،۔ سن کر عقل تماشائی بن کر رہ گئی، دل نے تربت پر حاضری دینے کی خواہش ظاہر کی لیکن لوگوں کی قابل ترس حالت اور عقیدت میں شرک تک کی رسائی دیکھ کر غیرت ایمانی نے اندر جانے سے منع کردیا ، دل افسردہ تھا کیونکہ قبر مبارک کی زیارت نہیں ہوسکی قبر کے پاس بیٹھ کر اس قدر شرک کا تماشا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ، مزار کے دروازہ کے دائیں جانب کچھ سفید لباس زیب تن کئے سر پر ٹوپی چہرے پر داڑھی سجائے ہاتھ میں خواجہ کے نام کی رسید لئے الگ تماشا دکھا رہا تھا ، گویا خواجہ کو بھی کارو بار کا دھندا بنا لیا ، وہیں پر ایک جماعت ڈھول تاشا لئے ہوئے بے خود ہوکر سر دھن کر گارہی تھی ارد گرد خلقت کا ہجوم تھا ،
یہ سب منظر میرے لئے قابل ترس تھا اس سوچ میں ڈوب گیا کہ یہاں میں زیارت کیلئے اور روحانیت کے حصول کیلیے حاضر ہوا تھا لیکن زمینی حقائق کچھ اور تھی ، کیا خواجہ نظام الدین اولیاء کا یہی پیغام تھا کہ اس کے مزار پر شرک کے اڈے قائم کئے جائیں ، کیا محبت کا یہی تقاضا ہے کہ اس کے نام پر خرافات کو گڑھ کر ہوا دی جائے ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کے طور طریق پر کار بند ہوکر زندگی کو صحیح راہ پر لے جاکر گزاری جائے ، مگر افسوس اور صد افسوس ،۔
نظام الدین اولیاء
سلطان المشائخ، محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ چشتی سلسلے کے ایک ایسے بزرگ ہیں جن کے ذریعہ تصوف کی بڑے پیمانے پر نشر و اشاعت ہوئی۔ آپ نے اپنی زندگی کے بیشتر ایام دلی میں گزارے اور یہیں آپ کی آخری آرامگاہ بھی ہے۔ آپ کے آبا و اجداد بخارا کے رہنے والے تھے۔ یہ شہر وسط ایشیا میں واقع ہے اور ماضی میں یہ علم و فن اور اسلامی ثقافت کا گہوارہ رہا ہے۔اس کی خاک سے بڑے بڑے علمائ، مشائخ اٹھے جنہوں نے ایک عالم کو فیضیاب کیا۔ نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے اجداد نے ہندوستان میں بدایوں کو اپنے قیام کے لیے منتخب فرمایا اور یہیں محبوبِ الٰہی کی ولادت با سعادت ہوئی۔
ولادت
ایک روایت کے مطابق ۲۷؍ صفر ۶۳۶ھ آپ کی تاریخ پیدائش ہے۔ آپ کی والدہ کا نام بی بی زلیخا تھا جنہوں نے آپ کی پرورش کی۔ والد خواجہ احمد علی الحسین بخاری کا انتقال تب ہو چکا تھا جب آپ کی عمر پانچ سال کے قریب تھی۔ بدایوں کو ماضی میں علمی اور سیاسی اعتبار سے اہمیت حاصل رہی ہے۔ دلی سلطنت کا ایک گورنر یہاں بھی رہتا تھا اور کئی اہل علم یہاں بستے تھے۔ اسی شہر میں اساتذۂ وقت کے ہاتھوں حضرت نظام الدین اولیاء کی تعلیم و تربیت شروع ہوئی۔ یہیں رسمی علوم کی تکمیل ہوئی اور یہیں دستار فضیلت آپ کے سر باندھی گئی۔ اسی شہر میں پہلی بار آپ نے حضرت بابا فریدالدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کا تذکرہ ابو بکر قوال سے سنا۔
حسب و نسب
حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ حسب و نسب سے سید تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب بنت رسول حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا تک پہنچتا ہے جو نبی محترم کی سب سے چھوٹی اور چہیتی صاحبزادی تھیں۔
تعلیم و تربیت
حضرت محبوب الٰہی کی تعلیم و تربیت پر آپ کی والدہ نے خصوصی توجہ دی اور آپ کو علماء وقت کی نگرانی میں تعلیم کے لیے بھیجا۔ بے حد ذہین تھے لہٰذا سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا اور ساتوں قرأتوں میں مہارت پیدا کر لی۔ بارہ سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے مختلف عقلی و نقلی علوم سے فارغ ہو گئے۔ علم تفسیر، حدیث، فقہ و اصول کے ساتھ ساتھ ہیئت اور ہندسہ کے بھی ماہر ہو گئے۔
آپ کا حافظہ اتنا اچھا تھا کہ ’مقامات حریری‘ کے چالیس مقالے اور حدیث کی مشہور کتاب ’مشارق الانوار‘ کو مکمل حفظ کر لیا تھا۔ اس کتاب پر آپ نے علمی تحقیق بھی کی تھی۔ تعلیمی سلسلہ کو آگے بڑھانے کی غرض سے آپ دلی تشریف لائے۔ آپ کے ساتھ آپ کی والدہ اور بہن بھی تھیں۔ یہاں بھی علماء نے آپ کے تبحر علمی کو دیکھا اور بحث و مباحثہ سے متاثر ہو کر ’بحاث‘ و’محفل شکن‘ کا خطاب دیا۔ آپ کے اساتذہ میں ایک مشہور نام مولانا کمال الدین زاہد علیہ الرحمہ کا ملتا ہے جنہوں نے آپ کو سند حدیث تحریر کر کے دیا تھا۔ شیخ امین الدین محدث تبریزی بھی آپ کے استاذ تھے۔
مرشد کی خدمت میں
تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری تھا مگر آپ کے دل میں روحانیت کی تڑپ تھی۔ نور حقیقی کے نظارے کی خواہش تھی جو دامن دل کو کسی اور جانب کھینچ رہی تھی۔ دس سال کی عمر میں پہلی مرتبہ آپ نے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کاذکر سنا تھا تب سے آپ بابا صاحب کی ملاقات کے مشتاق تھے۔ آپ ان سے غائبانہ محبت کرنے لگے تھے اور ان کے نام کا وظیفہ حرز جاں تھا۔ اب آپ بیس سال کے ہو چکے تھے اور علمی اعتبار سے کامل تھے۔
دل کے اشتیاق کو مزید روکنا نہیں چاہتے تھے لہٰذا اجودھن پہنچ گئے اور بابا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بہت کچھ کہنے اور سننے کے لیے راستے میں الفاظ موزوں کرتے چلے تھے مگر جب پہنچے اور شیخ شیوخ العالم کے چہرۂ مبارک پر نظر پڑی تو دل کی کیفیت زیر و زبر ہو گئی۔ کچھ کہنے اور سننے کا ہوش نہ رہا۔ خاموشی کے ساتھ چہرے کو تکتے رہ گئے۔ پتہ نہیں یہ اتفاق تھا یا شیخ کی نگاہ ولایت کا اثر کہ جو الفاظ بابا صاحب کی زبان سے محبوب الٰہی نے سب سے پہلے سنے وہ یہ تھے:
اے آتشِ فراقت دلہا کباب کردہ
سیلابِ اشتیاقت جانہا خراب کردہ
مرشد کی بارگاہ میں صرف اتنا عرض کر سکے ’’مجھے قدم بوسی کا اشتیاق تھا۔‘‘ بابا صاحب نے مرعوب دیکھ کر فرمایا لکل داخل دہشت۔ (ہر آنے والے پر دہشت غالب ہوتی ہے)۔
بابا صاحب عموماً مرید ہونے کے خواہشمندوں سے مجاہدے کراتے تھے۔ فوراً کسی کو مرید نہیں کرتے تھے۔ مگر جب نظام الدین اولیاء نے پہنچتے ہی مرید ہونے کی خواہش کی تو بغیر پس و پیش کے آپ نے انھیں مرید کر لیا۔
اس موقع پر آپ نے اپنے اس لائق و فائق مرید سے کچھ قرآنی آیتیں پڑھنے کو کہا اور سر کے بالوں کی ایک لٹ کاٹ ڈالی جیسا کہ مشائخ چشتیہ کا دستور تھا۔ بعض اوقات مرید ہوتے وقت مشائخ اس کا سر مونڈوا دیا کرتے تھے مگر آپ کی خواہش ایسا کرنے کی نہیں تھی۔ البتہ جب آپ نے ایک مرید کو سر منڈاتے دیکھا تو حضرت بدرالدین اسحٰق کی معرفت سر منڈانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ پھرمرشد کے حکم سے اس وقت سر منڈا دیا گیا۔
حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے مرشد کی خدمت میں ایک عرصہ گزارا۔ اس دوران آپ تعلیم و تربیت میں مصروف رہے اور مرشد کی زیر سرپرستی آپ کی روحانی تربیت ہوتی رہی، اوراد و وظائف کرتے رہے اور مجاہدہ و تزکیہ نفس کے اشغال پر عامل رہے۔ مرشد کی بارگاہ میں عرض کیا کہ میں طالب علم ہوں، تعلیم حاصل کروں یا چھوڑ کر اوراد و نوافل میں مصروف ہو جائوں؟ جواب ملا، ’’میں کسی کو تعلیم سے نہیں روکتا، وہ بھی کرو، یہ بھی کرو یہاں تک کہ ان میں سے ایک غالب ہوجائے۔‘‘
دہلی میں قیام
حضرت نظام الدین اولیاء جب پہلی بار بدایوں سے دہلی تشریف لائے تو بعض روایتوں کے مطابق آپ کی عمر سولہ سال تھی۔ یہاں کرایے کے مختلف مکانوں میں آپ کا قیام رہا۔ پہلے آپ تحصیل علم کرتے رہے پھر عبادت و ریاضت اور مجاہدے میں مصروف ہوئے۔ یہاں دہلی میں جب منکرات کا زور تھا اور لوگ خلاف شرع کام کھلم کھلا کرتے تھے، حلال و حرام کی تمیز مٹ چکی تھی ایسے ماحول سے آپ کا دل بھی اچاٹ ہو چکا تھا اور آپ نے اس شہر کو چھوڑ دینے کا ارادہ کیا مگر کچھ غیبی اشارے پا کر اس ارادے سے باز رہے۔ بعد میں غیبی اشارے ملتے ہی نواح دہلی کے ایک گائوں غیاث پور میں رہنے کا فیصلہ کیا۔
یہ گائوں جمنا کے کنارے واقع تھا اور بہت کم آبادی تھی۔ غیاث پور وہیں واقع تھا جہاں آج کل ہمایوں کا مقبرہ ہے۔ مقبرے کی دیوار سے متصل آج بھی نظام الدین اولیاء کی خانقاہ کے باقیات ہیں۔ بعد میں سلطان معزالدین کیقباد نے یہاں سے قریب کیلو کھری میں اپنا محل بنوایا اور دیگر امراء بھی ادھر آ بسے۔ اس طرح یہاں چہل پہل ہو گئی اور حضرت محبوب الٰہی کو عبادت و ریاضت میں خلل محسوس ہونے لگا۔ اب آپ کو لوگ جاننے لگے تھے اور آپ کی شہرت سن کر یہاں آنے بھی لگے تھے، مگر غیبی اشارے نے آپ کو یہاں سے باہر جانے سے روک دیا۔
علالت و وصال
حضرت نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ سخت مجاہدات کرتے تھے اور عبادت و ریاضت میں اپنا وقت گزارتے تھے۔ یہ سب کچھ جسمانی علالت کے باوجود کرتے تھے۔ ناتوانی اور کمزوری پر روحانی طاقت غالب رہتی تھی۔ عمر کے آخری پڑائو پر علالت بڑھ گئی تھی اور انتقال کے چالیس دن قبل سے معمولات میں فرق آنے لگے تھے۔ نماز میں سجدے زیادہ کرتے اور خوب خوب گریہ و زاری کرتے تھے۔
کھانا پینا ترک کر دیا تھا۔ اسی حالت میں ۱۸؍ ربیع الثانی ۷۲۵ھ بمطابق ۲؍ اپریل ۱۳۲۵ء بروز بدھ صبح طلوعِ آفتاب کے بعد انتقال فرمایا۔ اسی دن دوپہر کے وقت تدفین عمل میں آئی۔ نماز جنازہ حضرت رکن الدین ملتانی علیہ الرحمہ نے پڑھائی اور حضرت نصیر الدین چراغ دہلی علیہ الرحمہ کیساتھ مل کر لحد میں اتارا۔ بابا صاحب کے تبرکات یعنی خرقہ، عصا، مصلیٰ اور تسبیح کو بھی قبر میں دفن کردیا گیا،