“شیخ جی پہلے میری روٹیاں پکا دو مجھے بڑی دیر ہوگئی آئے وے ” ایک بچے نے ایک طرف سے آواز لگائی۔ شیخ جی نے کہا ” ہاں بیٹا ہاں ابھی لگاتا ہوں تیری روٹیاں ” ادھر سے دوسرا بچہ بولا ” شیخ جی میں اس سے پہلے آیا تھا۔ پہلے میرا آٹا لے لو۔ ” ایک بچہ بولا ” شیخ جی میرے یہ دو بینگن بھون دو، امّی نے کہا ہے اچھی طرح بھوننا اندر سے کچے نہ رہیں، پہلے کے کچے رہ گئے تھے۔ ” “اچھا اچھا سن لیا ” شیخ جی جل کر بولے ۔ ایک نے کہا شیخ جی میرے بیسن کی روٹی پکنی ہے۔غرض چاروں طرف سے بچے اور بڑے سب اپنا اپنا مطالبہ دوہرا رہے تھے اور شیخ جی ہیں کہ سب کی سنتے اور سب کو تسلیاں دیتے ہیں ادھر کچھ مزدور ہیں جو کھانا کھانے کے لیے آئے ہیں کیونکہ شیخ جی کے پاس ہوٹل سے سستا اور وافر مقدار میں کھانا ملتا ہے سالن کئی بار لے لو شیخ جی خندہ پیشانی سے اور دے دیتے ہیں ، کسی کو منع نہیں کرتے۔ ان کے گاہک یہ بچے ہیں جو گھر سے آٹا گندھوا کر لائے ہیں اور روٹیاں پکوانے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں کچھ تندور سے ذرا ہٹ کر اکڑوں بیٹھے ہیں کچھ باہر کھڑے ہیں دوپہر کا وقت ہے تقریباً بارہ ساڑھے بارہ بج چکے ہیں سب کو جلدی ہے کہ اس کا نمبر آجائے تو اس گرمی سے چھٹکارا ملے ۔ ادھر کچھ روز کے کھانا کھانے والے بھی انتظار میں ہیں کہ جگہ ہو تو وہ بھی بیٹھ کر کھانا کھائیں۔کیونکہ انھیں کھانا کھا کر دوبارہ کام پر جانا ہے وہ کھانے کے وقفے میں آئے ہیں ، دیر ہوئی تو مالک ناراض ہوگا۔ شیخ جی بھی کسی کو ناراض نہیں کرنا چاہتے اس لیے سب کی دل جوئی کرتے ہیں سب کو تسلی دیتے ہیں۔ اور ہاتھ آٹے کے پیڑے بنانے میں مصروف ہیں ۔ محلے کی دکنداری ہے سب کا خیال رکھنا پڑتا ہے ۔ یہ منظر تھا دہلی کے تندور کا ، جن کو بھٹیار خانہ بھی کہا جاتا تھا اور شیخ جی کو بھٹیارہ
وہ بھی کیا دن تھے۔ زمانہ جب ترقی کرتا ہے تو وہ پرانی اقدار پر چوٹ بھی کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں پرانی قدریں آہستہ آہستہ دم توڑنے لگتی ہیں اور نئی قدریں جنم لیتی ہیں۔ کسی زمانے میں دہلی کے ہر محلے میں ایسے ہی تندور ( بھٹیار خانہ ) ہوا کرتے تھے۔ جس میں اجرت پر روٹیاں پکائی جاتی تھیں۔ تندور کے مالک کو یا جو تندور میں روٹیاں لگاتا تھا اس کو شیخ جی کہہ کر پکارتے تھے۔ عام طور پر قصائی کو بھی شیخ جی کہا کرتے تھے گویا پیشہ ور لوگوں کو احتراماً شیخ جی کہا کرتے تھے۔ ہم بات کر رہے تھے تندور کی دراصل جس دن گھر میں ایندھن ختم ہو جاتا یا کسی اور وجہ سے گھر میں روٹی نہ پک سکتی تو گھر کی عورتیں آٹا گوندھ کر یا بغیر گندھا آٹا سمجھ دار بچے کو دے کر تندور سے روٹیاں پکوانے کے لیے بھیج دیا کرتی تھیں۔ اور ساتھ میں بچے کو تاکید بھی کرتیں کہ ” دیکھ ! دیکھتا رہیو پیڑے گن لیو کہ کتنے ہوئے کبھی وہ آٹا چرا لے ” اب بچہ وہاں تندور پر گُوندھا ہوا آٹا لے جاتا۔ اور اپنے آٹے کی طرف سے ہوشیار رہتا جیسے ہی اس کی باری آتی ، وہ شیخ جی کے بناتے ہوئے پیڑے گننا شروع کر دیتا تھا اور جب روٹیاں پک کر تندور سے نکلنا شروع ہوتیں تو جلدی جلدی ان کو سمیٹ کر اکٹھا کر کے اپنے کونڈے میں جمع کرتا ۔ جتنی روٹیاں ہوتیں پانچ پیسے کے حساب سے اس کے پیسے ادا کرکے گھر لے آتا ۔ روٹی پکوائی کی اجرت پانچ پیسے ہوا کرتی تھی اور چار آنے کے چار پراٹھے ۔ بینگن کی بھنوائی فی بینگن دس یا پندرہ پیسے ہوا کرتی تھی۔ یہی تندور بینگن کے علاوہ شکر قند کے زمانے میں شکر قند بھی بھونا کرتے تھے ۔ شیخ جی روٹیوں کے علاوہ صبح کو پائے پکا کر بھی بیچتے تھے چار آٹھانے کے اچھے خاصے دے دیا کرتے تھے یعنی آٹھ، بارہ آنے میں ایک نفر پیٹ بھر لیا کرتا تھا۔ دوپہر کو بھی روٹیاں تو پکتی ہی تھیں سالن وغیرہ بھی پکا کرتے تھے۔ شام کو بھی اسی قسم کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ شیخ جی کے یہاں کھانا کھا نے والے گاہک زیادہ تر مزدور طبقہ ہوا کرتا تھا جو صبح کے وقت کام پر جاتے ہوئے بطور ناشتہ پائے روٹی کھا کر جانا پسند کرتا تھا۔ ایک تو سستا دوسرے شام تک کھانے کی چھٹی ہوجاتی تھی۔ اگر اس کے باوجود دن میں بھوک لگی تو پھر شیخ جی کے تندور پر آگئے ورنہ شام کو جاتے وقت کھاتے ہوئے چلے گئے۔ صبح کو فجر کے بعد یہ تندور شروع ہوتے اور رات نو بجے یا کبھی گاہک زیادہ ہوئے تو ساڑھے نو دس بجے تک چالو رہتے۔
اس تندور پر پکائی ہوئی روٹی میں خمیر نہیں ہوتا تھا۔ بل دار پراٹھوں کی بھی یہی صورت تھی ۔ برسات کے موسم میں جب دہلی والے قطب کی سیر کو نکلتے تو وہ روے میدے کے پراٹھے انھیں تندوروں پر پکوایا کرتے تھے۔ ان تندوری پراٹھوں کی بھی کیا بات تھی اتنے خستہ اور نرم ہوا کرتے تھے کہ توڑتے توڑتے ان کے سارے بل کھل جاتے تھے یہاں تک کہ پراٹھے کی متعدد پرتیں نظر آتی تھیں۔ ان پراٹھوں کو نرم کر نے کے لیے تندور سے نکال کر پانی کے چھینٹے لگائے جاتے تھے، پانی کا چھینٹا لگانے کے بعد اس پر دیسی گھی لگایا جاتا تھا جس سے یہ پراٹھے جب تک رہتے نرم رہتے۔ آج بھی یہ پراٹھے ملتے ہیں مگر وہ بات نہیں ہوتی پھر ان کی قیمت بھی بہت زیادہ ہے تیس روپے فی پراٹھا ۔ غریب کی پہنچ سے بہت دور۔ اس زمانے میں برسات کے دنوں میں پراٹھے تندور سے پکوالیے جاتے تھے اور کھڑے مسالے کا یا ہری مرچ قیمہ گھر پر پکا لیا جاتا تھا۔ ان تندوری پراٹھوں کے ساتھ تو مزہ ہی آجاتا تھا ۔
دہلی والے موسم کے اعتبار سے قیمہ پکاتے تھے۔ جاڑے کے موسم میں صرف کھڑے مسالے ڈالتے تھے جبکہ گرمی کے موسم میں اس میں کیری یعنی کچا آم اور دیسی پودینہ ڈالتے تھے۔ دیسی پودینے کی خوشبو کیا مزہ دیا کرتی تھی۔ برسات کے موسم میں ہری مرچ قیمہ پکتا تھا۔
گرمی کے موسم میں بینگن تندور کی بھوبھل میں بھونا جاتا تھا ۔ پھر بھنے ہوئے بیگن کے چھلکے اتارکر بینگن کو مسل دیا جاتا اور اس میں دہی پیاز اور دیسی پودینے اور لال مرچ،زیرے کی چٹنی ملا کر اوپر سے دیسی گھی ، زیرہ ڈال بگھار لگا کر رائتہ بنایا جاتا تھا۔ گرمی کے موسم میں یہ رائتہ بہت مزہ دیتا تھا۔ میں اب بھی اپنے گھر میں گیس پر بینگن بھون کر یہ رائتہ تیار کرتا ہوں۔ مجھے یہ رائتہ بہت پسند ہے۔ تندوری بینگن کا مزہ تو نہیں آتا مگر کسی حد تک تشفی ہو جاتی ہے۔
ترکمان گیٹ پر یہ تندور پھاٹک تیلیان کے سامنےتھا ۔ چوڑی والان کے نکڑ پر بھی ایک تندور ہوا کرتا تھا یہ تندور آج بھی ہے۔ ایک تندور چاندنی محل میں تھا، ایک پہاڑی بھوجلہ پر تھا۔ غرض ہر محلے میں ایسے ہی تندور ہوا کرتے تھے جو اجرت پر روٹیاں اور تندوری پراٹھے پکایا کرتے تھے۔کبھی کبھی ہم بھی حسبِ ضرورت اس تندور پر روٹیاں اور پراٹھے پکوانے جایا کرتے تھے۔ امّی آٹا گوندھ کر دے دیتیں اور ہم تندور پر لے جاتے اور روٹیاں پکوا لاتے۔ جب کبھی پراٹھے پکوانے ہوتے تو امّی گندھے ہوئے آٹے میں ایک پیالی میں گھی رکھ کر اس میں جما دیتی تھیں تاکہ گھی نہ گرے۔
آج پرانی دہلی میں جگہ جگہ تندور ہیں مگر اب اجرت پر روٹیاں نہیں پکائی جاتیں۔ ایک زمانہ تھا یہ تندور پرانی دہلی کی زندگی کا اہم حصہ تھے۔ جاڑے کے موسم میں تندور کے پاس بیٹھنا اچھا لگتا تھا مگر گرمی کے موسم میں تندور کے پاس بیٹھنا بہت مشکل ہوجاتا تھا کیا کرتے بادل نخواستہ بیٹھنا پڑتا تھا۔ آج تندور تو بہت ہیں مگر وہ سب اپنی روٹیاں پکا کر بیچ رہے ہیں، اب اجرت پر کوئی بھی روٹی نہیں پکاتا نہ کوئی بینگن بھونتا ہے،بلکہ آج پانچ روپے اور سات روپے فی روٹی بیچتے ہیں مہنگائی نے سب کے منہ کا مزہ خراب کر دیا ہے مگر جب بھی ہمیں ہڑک اٹھتی ہے اور دل چاہتا ہے تو بازار سے ہی پراٹھے خرید کر لے آتے ہیں ، کسی طرح اپنے دل کو تسلی دے لیتے ہیں اور اپنے بچپن کو یاد کر لیتے ہیں۔ زمانے کی ترقی نے ان تندوروں کو بالکل ختم کر دیا ہے۔ اسی کے ساتھ بھٹیار خانہ، شیخ جی ، بھوبل جیسے الفاظ جو روز مرہ کی حیثیت رکھتے تھے جن کو بچہ بچہ استعمال کرتا تھا بھٹیار خانہ کے ساتھ لغات میں دفن ہوکر رہ گئے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...