گل مہر مجھے اسی وقت سے پسند ہے جب سے پتا چلا کہ یہ گل مہر ہے،اس کے چھوٹے چھوٹے سرخ، اودی، نیلگوں اور کتھئی پھول تو ایسے دل لبھاتے ہیں جیسے مصری ناگنوں کی ناک کی نتھنی کی کشش، دیکھیں تو بس دیکھتے ہی چلے جائیں، یا پھر یونانی نرگسوں کی آنکھوں کی نیلی پتلیاں کہ نظر ہی نہ ہٹے. جب یہ پھول نیچے زمین پر گرتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے قدسیوں نے اپنے لہوآمیز اشک گرائے ہوں اور جب ہوا چلتی ایسالگتا ہے جیسے سرخ سرخ گل چنگاریاں ہنگامۂ جشن میں اچھال دی گئی ہوں. کبھی یوں کہ سرخ گلبان چادر لہرا دی گئی ہو
گل مہر، ڈھاکہ کے ہوں، کراچی کے یا لاہور کے، بنگلور کے ہوں یا ممبئی کے یا پھر دلّی کے، ہاں دلّی کے ہی سدا سے من بھاوت ہیں مگر اس سال تو ان کا جوش و جوبن ہی سوا ہے، جیسے زیوارت اور آرائش سے سجی کوئی کیرلا کی نوعمر دوشیزہ ہو کہ جس کا نکاح عن قریب ہونے والا ہو. فضا اور ماحول صاف ہواتو اس قدرتی رعنائی پر مزید روپ چڑھ گیا. نیچے سڑکوں کے ڈوائڈر، پر لگی مصنوعی پھولداریاں بھی لہلہا اٹھیں اور سیاہ شفاف سڑکوں پر چلتے ہوئے یوں لگتا ہے جوں کسی خوش نما پارک میں گھوم رہے ہیں. یہ وہی سڑکیں ہیں جو دھول مٹی سے اٹی رہتی تھیں اور دھواں و عفونت سے دماغ پھٹے جاتے تھے،دھلے دکھلائے چہرے آلودگی سے اٹ جاتے تھے، ماحول کی کثافت، حدت اور تیزابیت آنکھوں میں چبھتی تھی اور اب، سماں ہی بدلا ہوا ہے.یہ لاک ڈاؤن کی کرامت ہی تو ہے کہ ہرشے اپنے اصلی روپ میں نظر آنے لگی ہے. اگر نہیں تو وہ انسانی رویہ ہے، اب تک حضرت انسان اکڑ رہا ہے اور خدا کے مقابل دعوائے خدائی پر آمادہ ہے یا پھراس عتاب کوہی خاطرمیں نہیں لا رہا ہے…شاید اب اسے اس دن کا انتظار ہے جب…… خیر گل مہر اور لہلہاتی پھول دار جھاڑیوں کے مناظر آپ کے سامنے ہیں آپ انھیں دیکھیں اور مقدس نگاہوں میں ان کی زیبائی بسالیں….
یہ سماں بدل نہ جائے!!
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...