(Last Updated On: )
( ’’ گونجتی سرگوشیاں ‘‘ پر ایک نوٹ )
یہ اُس گھر کی چھت ہے جس میں ، میں نے اپنا بچپن گزارا ہے ۔ گرمیوں کا موسم ہے ۔ ہم سب کی چارپائیاں ایک قطار میں لگی ہیں۔ ایک طرف سے شروع ہوں تو پیڈسٹل فین کے آگے میری کھٹولی اور پھر درجہ بدرجہ سب بہن بھائیوں کی اور آخر میں ہماری والدہ اور والد کی چارپائیاں بچھی ہیں۔ سونے سے پہلے ہم منتظر ہیں کہ کہانی سنیں ۔ گرمیوں میں ہر روز کھلے ، تاروں بھرے ، آسمان تلے کہانی سنتے سنتے سو جانا ہمارا معمول ہے۔ سردیوں میں ایسا نہیں ہوتا کہ ہم ایک چھت تلے نہ سوتے ۔ کبھی یہ کہانی ہمارے والد سناتے اور کبھی ہماری والدہ ۔ ہمارے والد کے پاس نہ تو پریوں کی کہانیاں ہوتیں اور نہ ہی جِنوں بھوتوں کی ، وہ ہمیں کچھ ایسی کہانیاں سناتے جو انسانوں کی کہانیاں ہوتیں ۔ یہ انسانوں کی کامیابیوں ، ناکامیوں ، حسد و رشک ، مہمات کی اور کچھ ایسی جن میں دلچسپی کا سامان تو ہوتا لیکن یہ ہمیں ایسے خواب نہ دکھاتیں جو سہانے ہوتے بلکہ بسا اوقات تو یہ ایسے سپنے لاتیں کہ ہم خوف کے مارے سو نہ پاتے یا ڈر سے نیند کھل جاتی۔ یہ اولیور ٹوئسٹ ، ڈیوڈ کاپر فیلڈ ، انکل ٹام’ز کیبن ، ہنچ بیک آف ناٹراڈیم اور وُدرنگ ہائٹس جیسی ہوتیں ۔ اس کے برعکس ہماری والدہ کے پاس ہمیشہ پریوں کی کہانیاں ہی ہوتیں ۔ انہیں سن کر نہ تو ہماری نیند اڑتی اور نہ ہی ڈر سے ہماری آنکھ کھلتی۔
میں نے تب یہ اندازہ لگایا تھا کہ ہماری والدہ جن پریوں کی کہانیاں ہمیں سناتیں وہ لے دے کر سات ہی تھیں : پاریسا ، ایمروتا ، جونو ، ڈیلا ،لونا ، سوما اور دیوا لیکن ساتوں کے پاس کہانیوں کی کمی نہیں تھی ۔ ان کے تھیلوں سے جب بھی کوئی کہانی نکلتی وہ پہلے سے بھی انوکھی ہوتی اور ہم اس کے سحر میں یوں گرفتار ہوتے جیسے پہلے کبھی ہوئے ہی نہ تھے اور یہ کہ نیند جو بار بار ہماری پلکوں کو بند کر رہی ہوتی ، ہمیں مجبور کرتی کہ ہم آنکھیں زور زور سے ملیں اور نیند کو اس وقت تک بھگائے رکھیں جب تک کہانی اپنے انجام تک نہ پہنچ جائے ۔ یہ پریاں تھیں کہ جن کے تھیلے کہانیوں سے بھرے تھے یا ہماری والدہ جو نت نئی کہانیاں گھڑتیں اور ہمیں سناتیں۔
آج جبکہ میں ساٹھ ٹاپ چکا ہوں اور ڈاکٹر رشید جہاں ، عصمت چغتائی ، واجدہ تبسم ، فہمیدہ ریاض جیسی بے باک ادیبائوں کی تحریریں پڑھ چکا ہوں ، میرے ساتھ ایک بار پھر ایسا ہی ہوا ہے کہ پاریسا ، ایمروتا ، جونو ، ڈیلا ،لونا ، سوما اور دیوا میرے سامنے آن کھڑی ہوئی ہیں لیکن یہ والی پریاں وہ نہیں ہیں جن کے تھیلوں میں مسحور کر دینے والی فیری ٹیلز ہوتی تھیں ، ان کے نام عام سے ہیں لیکن یہ بھی مختلف علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں جیسے پاریسا ملک فارس کی پری تھی ، جونو کا تعلق ملک ِ اطالیہ سے تھا اور دیوا خالصتاً برصغیر سے تعلق رکھتی تھی اور باقیوں کا تعلق بھی الگ الگ خطوں سے تھا۔ مجھے اب سمجھ میں آتا ہے کہ ان پریوں کی کہانیوں میں تنوع کیونکر ہوتا تھا۔ دیس بدل جائے ، وطن بدل جائے ، جنم بھومی بدل جائے تو منظر نامہ بدل جاتا ہے ، میدانوں کی جگہ پہاڑ لے لیتے ہیں ، دریاؤں کے ڈیلٹا ساحلی پٹیوں میں بدل جاتے ہیں یہاں تک کہ چرند پرند ، بیل بوٹے اور برگ و ثمر بدل جاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر وسیب بدل جاتا ہے ، اردگرد کے لوگ بدل جاتے ہیں ۔ جب اتنا کچھ بدل جائے تو کہانیاں ایک سی کیسے رہ سکتی ہیں ۔ یہ والی پریاں حقیقت میں پریاں نہیں ہیں ، جیتی جاگتی عورتیں ہیں ۔ ان کا تعلق سات جھیلوں کے دیس سے ہے، سیکٹروں میں بٹی اُن جدید بستیوں سے ہے جہاں سے کبھی گوتم بدھ پڑاؤ ڈالتا مرگلہ کی پہاڑیوں کو اپنے چھالا زدہ پیروں سے ٹاپتا تکشلا گیا تھا ، اباسین کے زیریں ریتلے علاقوں سے ہے جہاں کبھی ہڑپہ و موہنجوڈرو کی تہذیبیں پھیلی ہوئی تھیں : یہ شاید میری ماں کے زمانے کی پریاں نہیں بلکہ میرے زمانے کی جیتی جاگتی عورتیں ثروت نجیب ، سمیرا ناز ، صفیہ شاہد ، فاطمہ عثمان ، فرحین خالد ، معافیہ شیخ اور ابصار فاطمہ ہیں ۔ میرے سامنے ان عام سی عورتوں کی پانچ پانچ عام سی کہانیاں ہیں لیکن ان عام سی عورتوں میں کچھ ایسا ہے کہ یہ انہیں ان پریوں کے برابر لا کھڑا کرتا ہے جن کے ناموں کے ساتھ میں نے ان گنت کہانیاں اپنی والدہ سے بچپن میں سن رکھی تھیں۔ ان گنت سے مجھے یاد آیا ہے کہ ابھی تو میرے سامنے فقط پانچ پانچ کہانیاں ہی ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کے تھیلوں میں بھی بہت سی کہانیاں ہوں گی جو ویسے ہی آپس میں سرگوشیاں کر رہی ہوں گی جیسے ان کی میرے سامنے موجود کہانیاں سرگوشیاں کر رہی ہیں اور مل کر ایک ایسی گونج پیدا کر رہی ہیں جس میں سوچوں کا پھیلائو وسیع ہے اور اس میں شیرنی کی وہ دھاڑ ہے جس سے نر اس کی کچھار سے دور رہتا ہے اور جرأت نہیں کر پاتا کہ بچوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے۔
یہ پینتس کہانیاں ایک دوسرے سے لگا نہیں کھاتیں بلکہ ساتوں خواتین کی بیان کردہ پانچ پانچ کہانیاں بھی اُسی طرح ایک دوسرے سے مختلف ہیں جس طرح جونو ، لونا یا سوما کی کہانیوں میں کبھی کچھ مشترک نہیں ہوتا تھا۔ سوما کی ایک کہانی پہاڑ پار کے ریچھ کی کتھا سنا رہی ہوتی تھی تو دوسری ساحلی پٹی کی کسی بستی میں سیر کرتی جولیٹ کی ۔
یہ کہانیاں سات عورتوں کی لکھی کہانیاں ہیں اور بظاہر یہ صنف نازک کی کسی بھی طور طرف داری نہیں کرتیں اور نہ ہی ”فیمنسٹ“ ہونے کا نعرہ بلند کرتی ہیں لیکن درپردہ یہ حساس قاری ، خواہ وہ مرد ہے یا عورت ، کو یہ یقیناً باور کراتی ہیں کہ آج کے صارفی معاشرے میں یہ صنف نہ تو تکیے کے نیچے ڈائری رکھتی ہے جس میں وہ چھپ چھپ کر آنسو بہاتے ہوئے اپنی سوچیں لکھتی ہے اور نہ ہی وہ ’مارکیٹ کموڈیٹی‘ ہے کہ اس کی قیمت ایک ’پراڈکٹ‘ کے طور پر طے کی جا سکے۔
ان کہانیوں میں کیا ہے اور کیا نہیں ، میں اس پر کچھ نہیں کہوں گا بالکل اپنی ماں کی طرح جو کہانیاں سنانے سے پہلے ہمیں ہوا تک نہیں لگنے دیتی تھیں کہ وہ کیا سنانے جا رہی ہیں۔
خود پڑھیں اور جانیں کہ اِن میں کیا ہے کیا نہیں لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ یہ ایسی کہانیاں ہیں جیسی ہمارے والد سنایا کرتے تھے ۔ ۔ ۔ اور ہاں ” گونجتی سرگوشیاں“ کے آٖغاز میں جو چار مضامین شامل ہیں انہیں پڑھنے سے تب تک گریز کریں جب تک آپ پینتس کی پینتس کہانیاں نہ پڑھ لیں ۔
اگر میں اس کتاب کا ناشر ہوتا تو میں اولاً یہ چاروں مضامین شامل کتاب نہ کرتا اگر کرتا بھی تو کتاب کے آخر میں ’ تاثرات ‘ یا ضمیمے کی شکل میں پیش کرتا تاکہ یہ قاری کی ذہن سازی نہ کر سکیں اور وہ آزادانہ طور پر ان کہانیوں کو اپنے زاویے سے دیکھ سکے ۔