ارسطو نے قبلِ مسیح ایک سیاسی بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ انسان سوشل اینیمل یعنی سماجی حیوان ہے ۔ چنانچہ اس راز سے آشنا ہو جانے کے بعد میں چالیس برس تک سماجی حیوان بن کر سماجی حیوانوں میں پھرتا رہا لیکن مجھے بطور سماجی حیوان قبول ہی نہیں کیا گیا بلکہ ہمیشہ ایک آؤٹ سائیڈر ہی سمجھا گیا ۔
برس گزرتے گئے ۔ اچانک میری ملاقات ایک درویشِ خُدا مست سے ہوئی ، جس نے مجھے بتایا کہ انسان سماجی حیوان نہیں قانونی حیوان ہے اور قانون وہ کسوٹی ہے جو جنگل کو شہر بناتی ہے ۔ جب انسان قانون کی پٹّی پڑھ کر زندگی کی چال قانون کے مطابق چلنے لگتا ہے تو وہ سچ مُچ کا انسان بن جاتا ہے ۔ قانون اور انسان لازم و ملزوم ہیں لیکن کچھ بستیاں ایسی ہیں جہاں قانون کے تشہیر کے دانت اور ہوتے ہیں اور تعمیل کے دانت اور ۔
قانون بنانا بہت آسان ہے مگر اُس پر چلنا تنے ہوئے رسّے پر چلنے کا تجربہ ہے ۔ اور ہزاروں میں کوئی ایک ایسا صاحبِ تصرف ہوتا ہے جو قانون کے تنے ہوئے رسے پر ماہر انسان کی طرح چل سکتا ہے ۔ بیشتر لوگ جن میں جج ، وکیل ، مدعی اور مدعا علیہ سبھی شامل ہوتے ہیں ، قانون کے تنے رسّے پر اناڑیوں کی طرح ڈگمگاتے اور گر گر پڑتے ہیں اور عجلت میں کھیل ختم ، پیسہ ہضم کے موڈ میں رہتے ہیں ۔ قانون سے عام آدمی کا رشتہ بے تکلفی کا نہیں تکلف کا ہوتا ہے کیونکہ وہ قانون کو اپنی آسائش اور آرام طلبی کا دشمن خیال کرتے ہیں ۔ لیکن چونکہ اُن کو قانون کی افادیت کا ایک بعید سا احساس رہتا ہے ، اس لیے وہ صاف انحراف بھی نہیں کرتے بلکہ وہ قانون کو زندگی میں آرائشی فیشن کے طور پر قبول کر لیتے ہیں جب کہ اُس کا اطلاقی پہلو ہمیشہ نظر انداز رہتا ہے ۔
قانون یا قواعد و ضوابط کے بارے میں لوگوں کا رویہ بہت عجیب ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر لوگ اپنے ڈائیننگ ٹیبل کی عقبی دیوار پر یہ فارمولا لکھ کر لگا دیں کہ ضرورت سے زیادہ کھانا ، جسے نئی نسل اوور ایٹنگ کہتی ہے ، صحت پر منفی اثر ڈالتا ہے تو وہ بسیار خوری کی لذّت کو صحت پر قربان نہیں کر تے ، بلکہ خوش خوراکی کے گوجرانوالے میں دنگل لڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں ۔
اگر لوگوں کے بیڈ روم یہ طغریٰ آویزاں ہو کہ زیادہ سونے سے صحت بگڑتی ہے تو سمجھ لیجیے کہ اس بیڈ روم میں وہ لوگ سوتے ہیں ، جنہیں سورج سوا نیزے پر آ کر ہی جگاتا ہے ۔ نیند کے عاشق یہ لوگ علم و حکمت کے وضع کیے ہوئے قانون کو اپنی خواہش پر قربان کر دیتے ہیں ۔ یہ خواہش ، نفس کے اُس مرکز سے جنم لیتی ہے ، جسے امارہ کا نام دیا جاتا ہے جو انسان کو ذلّت میں مبتلا کرتا ہے ۔ شیخ سعدی نے کہا تھا :
کُند مرد را نفسِ امارہ خوار
لیکن سعدی نے مرد کے ساتھ زن کا ذکر کیوں نہیں کیا ؟۔ شاید اس لیے نہیں کیا کہ زن کے بغیر مرد مکمل ہی نہیں ہوتا اور ویسے بھی ازدواجی قانون کے مطابق ہر مرد کی پسلی میں زن موجود ہوتی ، جوحسبِ ضرورت نکلتی ہے اور پھر پسلی میں واپس چلی جاتی ہے ۔
قانون کی پابندی کا سب سے اولیں مظاہرہ آدمی کی زبان سے ہوتا ہے ۔ جب وہ بولتا ہے تو پہچان لیا جاتا ہے ۔ چنانچہ پانامہ کیس کی سماعت سے پہلے اور بعد سیاستدان اور وزرا ء جو بولیاں بولتے ہیں ، اُس سے صاف عیاں ہوجاتا ہے کہ باہمی مکالمے کے قانون کا احترام مفقود ہے۔
اسی تناظر میں مجھے ایک پرانی فارسی حکایت یاد آ گئی ہے ، جو گفتگو کے قانون کی سطحوں کے تقرر اور مدارج کے معیار پر مبنی ہے ۔
حکایت :
شنید ہے کہ ایک بار ایران کا بادشاہ اپنے وزرا ء اور ملازمین کے ہمراہ شکار کھیلنے گیا ۔ وہ ایک ہرن کے تعاقب میں گھوڑا دوڑاتا جنگل میں دور تک چلا گیا اور پھر راستہ بھول گیا ۔ جب بادشاہ دیر تک واپس نہ آیا تو وزیرِ با تدبیر کو تشویش لاحق ہوئی اور اس نے ملازمین میں سے ایک سے کہا کہ جاؤ اور بادشاہ سلامت کو بحفاظت واپس لاؤ ۔ بادشاہ کا ملازم گھوڑا دوڑاتا جنگل میں داخل ہوا تو اسے ایک جھونپڑی نظر آئی جس کے دروازے پر ایک اندھا فقیر بیٹھا تھا ۔ نوکر نے گھوڑے کو لگام دی ، رُکا اور فقیر سے بولا ، او اندھے ! کیا تو نے اس راستے سے کسی گھڑ سوار کو گزرتے سنا تو فقیر نے کہا جی نہیں ۔ یہاں سے کوئی نہیں گزرا ۔ نوکر آگے چل دیا ۔ جب وہ بھی کافی دیر تک واپس نہیں لوٹا اور نہ ہی بادشاہ کی واپسی ممکن ہوئی تو وزیر کو تشویش ہوئی کہ لوگ کہاں گئے ۔ وہ بھی بادشاہ کی تلاش میں جنگل میں داخل ہو تو اسے بھی جھونپڑی کے دوازے پر بیٹھا نابینا فقیر دکھائی دیا ، وزیر نے بھی گھوڑا روکا اور فقیر کو مُخاطب کر کے بولا کہ بابا جی ! آپ نے یہاں سے کسی سوار کے گھوڑے کی ٹاپیں سنی ہیں تو فقیر نے کہا کہ : حضور ! آپ کا ملازم گزرا تھا ابھی ۔ یہ سن کر وزیر آگے روانہ ہوگیا ۔ کچھ دیر میں بادشاہ واپس آیا اور کسی کو خیمے میں نہ پا کر دوبارہ جنگل میں داخل ہوا تو اسے بھی فقیر دکھائی دیا ، بادشاہ گھوڑے سے اتر کر اس کے پاس چلاگیا اور بولا : حضرت شاہ صاحب قبلہ ! آپ کی خانقاہ کے سامنے سے کوئی گھڑ سوا تو نہیں گزرا؟
فقیر نے جوابا دیا کہ بادشاہ سلامت ! پہلے آپ کا نوکر گزرا اور اس کے بعد آپ کا وزیر گزرا تھا ۔
بادشاہ نے کہا کہ حضور ! آپ کی تو آنکھیں نہیں ہیں ، آپ کو کیسے پتہ چلا؟ کہ کون گزرا تھا ۔
فقیر نے کہا کہ سب کی زبان نے اُن کی حقیقت بیان کر دی ۔ آپ نے مجھے شاہی زبان میں حضرت شاہ صاحب قبلہ کہا ، وزیر نے بابا جی کہہ کر پکارا اور نوکر نے اوئے اندھے کہہ کر پکارا ۔ ہر شخص کی زبان اس کے منصب کی چُغلی کھا رہی تھی ۔
اور اس حکایت کی روشنی میں جب میں عابد شیر علی ، دانیال عزیز ، طلال چودھری ، رانا ثناءاللہ اور پرویز رشید کی گفتگو سنتا ہوں تو مجھے پتہ چل جاتا ہے کہ کون بول رہا ہے ۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“